یک جہتی کی ایک تجویز
اس بات کوہم نے ذرا تفصیل سے اس لیے بیان کیا ہے کہ مسلم ممالک کے شیوخ تو بیچارے ’’مصروف‘‘ زیادہ ہیں
کشمیرکو تو اب جانے ہی دیجیے کہ اب یہ کوئی ''مسئلہ'' نہیں رہا ہے بلکہ مختلف گوالوں کی دودھیل گائے ہوچکی ہے بلکہ اس کی ابتداء ہی اس غرض کے لیے ہوئی تھی کہ مختلف ساجھے داروں کی مارکیٹ بن جائے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح کسی شادی بیاہ، جلسے جلوس یا کسی بھی سرگرمی کے موقع پر دنیا جہاں کے پھیری گر ، چھابڑی فروش اورٹھیلے والوں کی بن آتی ہے لیکن فلسطین کا ایشو تو ایک بہت ہی بنیادی اور اوریجنل مسلہ ہے اوراس نے اب حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کے قتل کے بعد ایک بہت بڑا سوالیہ نشان، اسلامی دنیا کے نقشے پر کھینچ دیا ہے۔
اس سوالیہ نشان یاکویسچن مارک کا دائرہ تو عرب دنیا تک محیط ہے اوربذریعہ ایک پکڈنڈی ہند، ایران ،افغانستان اورپاکستان سے گزرتی ہوئی انڈو نیشیا اور ملائیشیا تک چلا گیا ہے۔نقشے پر کویسچن مارک اسلامی ممالک اورنقطہ اسرائیل بلکہ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک چیونٹی کسی ہاتھی کی سونڈ میں گھسی ہوئی ہے اورہاتھی اتنا بڑا ہوکر اس چیونٹی کاکچھ نہیں کرسکتا ، اس عظیم سانحے یا المیے پر حسب معمول ''یک جہتی اورمذمت'' کے بیانات، اعلانات اور خرافات دہرائی جارہی ہیں اور بس ۔ سب کے سب اپنے اپنے راستے اپنے اپنے دھندوں سے لگ چکے ہیں۔
گھٹی گھٹی سی تمنا ، لٹی لٹی سی حیات
ہم اس کے بعد بھی جیتے ہیں آؤ ہم سے ملو
کچھ ہوا ہے کیا ؟ جی نہیں ، صرف دوڑتے دوڑتے ''شلوار'' گری تھی لیکن لوگ کچھ زیادہ دیکھ نہیں پائے کہ ہم نے جلدی سے چادر لپیٹ لی تھی۔ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اورتو کوئی بات نہیں۔
صرف اندازبیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
اس سلسلے میں عرب ممالک کو تو ایک طرف کردئیجے کہ وہ آج کل پولٹری فارم ، فش فارم اورڈیری فارم کی طرح ''تفریحاتی'' فارمنگ میں مصروف بہت ہیں اور یہ ''مصروفیت '' ان دنوں کچھ زیادہ اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ اب یورپ و امریکا کے ساتھ ساتھ ہندوستان، پاکستان اور افغانستان وغیرہ سے بھی ''ترقی دادہ نسلوں''کی درآمد بڑھ گئی ہے بلکہ اس مصروفیت میں بے پناہ اضافہ اسے لیے بھی ہوا ہے کہ ٹی وی اور شوبزنے ''مال '' میں بہت اضافہ کرلیا ہے اور دنیا میں تجارت بذریعہ تفریح کا رحجان بھی بڑھ گیا ہے چنانچہ سنا ہے کہ پاکستان اورہندوستان کے کاروباری لوگوں نے مختلف مقامات پر ''شکارگاہیں '' قائم کی ہوئی ہیں جہاں عرب ممالک کے شکاری آکر اور جی بھر کر''شکار'' کھیلتے ہیں ، ایسا شکار جو ''باندھا''گیا ہوتا ہے ۔
یایوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ''بی فارموں'' والے اپنی مکھیوں کے صندوق کو کسی پھولوں والے علاقے میں لے جاتے ہیں، اسی طرح کاروباری لوگ اور بینک وغیرہ بھی خاص خاص مقامات پر پھولوں کے باغ اگائے رکھتے ہیں جہاں ہر سیزن میں ہرقسم کے رس بھرے پھول موجود ہوتے ہیں اور یہ عرب کے خوش رنگ فارموں '' میں اپنے صندوق لاکر رکھ دیتے ہیں اورشہد اکٹھا کرتے ہیں ،اسی لیے تو کچھ لوگ ان سرگرمیوں کو ''ہنی مون'' کا نام بھی دیتے ہیں ، مطلب یہ کہ یہاں ایسے باغات ہیں جہاں پھول ہی پھول شہد ہی شہد اورہنی مون ہی ہنی مون ہوتے ہیں۔
اس بات کوہم نے ذرا تفصیل سے اس لیے بیان کیا ہے کہ مسلم ممالک کے شیوخ تو بیچارے ''مصروف'' زیادہ ہیں، اس لیے ان سے تو کوئی توقع باندھی ہی نہیں جاسکتی ، ان کے لیے یہی بہت ہے کہ آسمان اورزمین سے برسنے والے دولت کو ٹھکانے لگائیں۔ اسی مصروفیت پر ایک حقیقہ یاد آیا ہم ایک ٹورسٹ بس میں آگرہ کی سیاحت پر تھے ، بس والوں نے ایک گائیڈ بھی مہیا کردیا تھا ، جب آگرہ کاشاہی قلعہ دیکھ رہے تھے تو جودھا بائی کے محل سے گزرنے کے بعد ایک احاطہ آیا ، ایک وسیع رقبے میں دومنزلہ ڈربے نما کمرے بلکہ کمروں کے کھنڈرات تھے۔ ،گائیڈ بولا ، یہ وہ حرم سرا ہے جہاں مغل اعظم کی تین سو کنیزیں رہتی تھیں۔ پھر مسکرا کر بولا ''ہی واز ویری ویری ''بزی'' ایمپرر ۔
تو عرب ممالک کے شیوخ بھی آج کل ویری ویری بزی ہیں ، اس لیے ان کو ڈسٹرب کیے بغیر باقی عالم اسلام کی بات ہے جہاں کے رہنما، بڑی بڑی سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے تاحیات سربراہ اورمدرسوں کی بڑی بڑی چین رکھنے والے مبلغین اسلام سرگرم ہیں ، یہ ''کویسچن'' مارک روزانہ بیانات کی قوالیاں کرتے ہیں ،جلسے برپا کرتے ہیں اوردھرنے ، جلوس نکالتے ہیں اور روہنگیا سے لے کر فلسطین تک کے مسلمانوں کے غم میں ٹسوے بہاتے ہیں، ''یک جہتی'' کے مظاہرے کرتے ہیں اور مذمت کے بیانات جاری کرتے ہیں، ان سے ہم کچھ زیادہ نہیں مانگتے ہیں یہ اپنے کاموں میں بدستورمنابھائی ہیں ، سوئیڈن ،ڈنمارک اورفرانس کے خلاف یہاں توڑ پھوڑ کرواتے ہیں،اگر صرف ایک چھوٹا سا کام کردیں ۔ بس مرغن کھانے اور سافٹ ڈرنک پینا بند کردیں، ہمارے اندازے کے مطابق جتنا کھانا اور جنتی بوتلیں یہ پیتے ہیں، اگر ان بوتلوں کا پانی ہی اسرائیل پر اچھال دیں تو وہ ڈوب جائے گا،اگر پرتعائش دستر خوان سادہ کرلیں تو فلسطینیوں کی غربت دور ہوسکتی ہے۔