کفران نعمت
ایک ہمارے بچے ہیں کہ انھیں میزپر سجے نعمتوں کے ڈھیر سے کچھ پسند ہی نہیں آتا
میں ہانڈی بنا کر فارغ ہوئی تو لاؤنج میں آ بیٹھی۔ '' آپ کے کندھے دبا دوں باجی؟'' وہ میرے پاس آن کھڑی ہوئی ۔ اسے جب وقت ملتا تو وہ میرے کندھے دبا دیتی ہے اور میں اسے سو روپیہ دے دیتی ہوں، اس سے اس کا ویگن کا کرایہ نکل آتا ہے ۔ '' بس کرو عابدہ، اب جاؤ۔'' میںنے اٹھ کر اسے الماری سے رقم نکال کر دی اور کہا۔ میں جانتی تھی کہ اسے دیر ہو رہی تھی کیونکہ وہ اس حساب سے کام ختم کر کے لگ بھگ ایک ڈیڑھ بجے میرے گھر سے نکلتی ہے کہ اپنے بچوں کے اسکول سے گھر لوٹنے تک واپس اپنے گھر چلی جاتی ہے، سب سے آخری گھر ہمارا تھا جہاں وہ کام کرتی ہے۔
'' اگر دیر سویر ہو جائے عابدہ اور بچے گھر لوٹ آئیں تو گھر پر کوئی ہوتا ہے جو بچوں کو سنبھال سکے یا نہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ گھر لوٹیں تو گھر کا دروازہ بھی بندہو؟'' میںنے تشویش سے کہاکیونکہ اس کے بچے چھوٹے چھوٹے ہیں ۔ '' گھر پر میرا میاں ہوتا ہے باجی اور گھر کا دروازہ بھی کھلا ہوتا ہے کیونکہ میرا میاں اٹھ کر دروازہ نہیں کھولتا۔'' اس نے جواب دیا۔'' اچھا ، کیا کام کرتا ہے تمہارا میاں ؟'' میںنے حیرت سے سوال کیا ۔ '' آپ کو بتایا ہے کہ وہ اٹھ کر گھر کا دروازہ نہیں کھولتا توباجی جو شخص اس حد تک آلکس کا مارا ہو وہ آپ کے خیال میں کام کرے گا؟'' اس نے یاسیت سے کہا۔ '' وہ صرف زبان چلاتا ہے بچوں کے اور اپنی ماں کے ساتھ اور مجھ پر تو زبان کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ اور ٹانگیں بھی چلتی ہیں' میری ساس بھی ہمارے ساتھ ہی رہتی ہے، عمر رسیدہ ہے اور بیمار بھی، اسے بھی سنبھالتی ہوں، بچوں کے خرچے ہیں۔
میاں کی نشے کی عادت ہے اورساس کا دوا دارو...چاہتی ہوں کہ سب بچے پڑھ لکھ جائیں، میری طرح یوں گھروں کا کام نہ کریں اور نہ ہی میرے نکمے اور نکھٹو شوہر کی طرح چارپائی توڑتے رہیں ۔ دن رات محنت کرتی ہوں، رات کو بچے سو جاتے ہیں تو لالٹین جلا کر اس کی روشنی میں آلو کے سموسے بناتی ہوں، سویرے گھر سے نکلتی ہوں تو ایک اسکول کی کنٹین میں وہ تیار شدہ کچے سموسے دے دیتی ہوں، کچھ رقم اس سے مل جاتی ہے۔''۔ چند دن قبل بچوں نے پیزا اور برگر منگوائے تو اس کے ساتھ مختلف چٹنیوں کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ آئے، بچے تو وہ کھاتے نہیں، ڈھیر سار ے تھے ، میں نے گزشتہ روز عابدہ سے کہا کہ اٹھا کر انھیں پھینک دے تو کہنے لگی کہ کیا وہ انھیں اپنے ساتھ لے جا سکتی ہے۔ میرے بچے کچھ دن اس کے ساتھ روٹی کھالیں گے۔اسی دن اس نے مجھے بتایا کہ وہ مرچ، پیاز اور پودینے کی چٹنی بنا کر رکھ دیتی ہے، کبھی ٹماٹر سستے ہوں تو ٹماٹر بھی ڈال دیتی ہے، گھرجاتے ہوئے تنور سے روٹیاں لے لیتی ہے اور بچے آرام سے چٹنی سے روٹی کھا لیتے ہیں۔
ایک ہمارے بچے ہیں کہ انھیں میزپر سجے نعمتوں کے ڈھیر سے کچھ پسند ہی نہیں آتا۔ '' یہ سبزی نہیں کھانی، یہ تو مجھے پسند ہی نہیں۔'' '' یہ دال تو بہت پتلی ہے، مجھے ایسی دال اچھی نہیں لگتی۔'' '' بیف نہیں کھانا ہے مجھے، مجھے صرف چکن کھانا ہے۔'' تھوڑی دیر کے بعد ہی بیف برگر منگو ا لیا جاتا ہے ۔ والدین ہزاروں کے نوٹ کھانا ڈلیوری کرنے والے کو دے دیتے ہیں مگر پھر بھی ان بچوں کے مزاج نہیں ملتے، '' یہ والا پیزا تو مجھے پسند ہی نہیں۔'' '' میں تو یہ برگر نہیں کھاتا۔'' '' اس فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کے فرائز تو بالکل بد مزہ ہوتے ہیں۔'' جس دن سے عابدہ سے اس کے بچوں کے حالات سنے ہیں اس دن سے تو مجھے اپنے تو کیا دوسروں کے بچوں کے نخرے بھی برے لگتے ہیں۔ اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ پکا ہوا ہے اور میز پر ہے، وہی سب کھائیں گے۔ جس دن سے آپ اپنے بچوںسے یہ کہہ دیں گے کہ کوئی چوائس نہیں ہے ، جو کھانا پکا ہے ، وہ پسند نہیں تو بے شک نہ کھائیں ۔ ہمارے بچوں کو تو پاکٹ منی چاہیے، برانڈڈ جوتے چاہئیں اور اسمارٹ فون بھی چاہئیں۔ ان کی ہر خواہش پر سر تسلیم خم کر کے ہم نے ان کے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا بلکہ انھیں خواہشات کا غلام بنا دیا ہے اور اپنا آقا۔