میرا نام کیوں لکھا
کچے کے ڈاکوؤں کے بارے میں اب تو سرکاری طور پر بتایا جارہا ہے کہ ان کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے
میرا نام کیوں سر کی قیمت والے اشتہار میں ڈالا؟ کچے کے ڈاکو شاہد لُنڈ نے اخبارات میں اشتہار کی اشاعت کے بعد محکمہ داخلہ پنجاب کے افسر کو ٹیلی فون کرکے جواب طلب کرلیا۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے سندھ اور بلوچستان کے درمیانی کچے کے علاقے میں دو پولیس موبائلوں پر حملے میں 12 کے قریب پولیس کے جوانوں کی شہادت کے بعد 20 ڈاکوؤں کی تصاویر کے ساتھ اشتہار قومی اخبارات میں شایع کرایا تھا۔ اس اشتہار میں شہریوں کو متوجہ کیا گیا کہ جو شخص ان ڈاکوؤں کی نشاندہی کرے گا تو وہ فوری طور پر ایک کروڑ روپے انعام کا حقدار ہوگا۔
ڈاکو شاہد لُنڈ نے اخبارات میں اشتہار کی اشاعت کے بعد ایک وڈیو وائرل کی جس میں وہ محکمہ داخلہ کے افسر سے اس اشتہار کی اشاعت پر جواب طلب کررہا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے رحیم یار خان کے نمایندے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ڈاکوؤں نے اس فتح کا جشن منانے کی ایک اور وڈیو وائرل کی۔ ڈاکوؤں کے مطالبے پر پنجاب کی حکومت سزائے موت پانے والے قیدی جبار لورائی کو ڈاکوؤں کے شر گینگ کے حوالے کرنے پر مجبور ہوئی تھی۔ ڈاکوؤں نے ایک سپاہی احمد نواز جو ان کے قبضے میں تھا کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ پولیس حکام نے یہ بہتر سمجھا کہ ایک سپاہی کی جان بچانے کے لیے اعلان کردہ آپریشن کے بجائے موت کی سزا پانے والے ڈاکوکو کچے کے علاقے میں اس کے ساتھیوں تک بحفاظت پہنچا دیا جائے۔ رحیم یار خان پولیس کے افسران ڈاکوؤں سے ایسے کسی معاہدے کی تردید کر رہے ہیں۔
سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے درمیان کچے کے علاقے میں موجود ڈاکو انتہائی منظم ہیں۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکوؤں نے پولیس موبائلوں پر حملے میں راکٹ لانچر، جی تھری اور کلاشنکوف رائفلوں سے ہزاروں فائر کیے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں نے اچانک پولیس موبائل پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ اس کے لیے منظم منصوبہ بندی کی تھی اور ڈاکوؤں نے اپنے عزائم کو پوشیدہ نہیں رکھا تھا بلکہ ڈاکو سوشل میڈیا پر مسلسل یہ دعوے کررہے تھے کہ وہ پولیس والوں سے انتقام لے کر رہیں گے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جہاں پولیس موبائل خراب ہو گئی تھی وہاں کماد کے کھیت تھے۔
ڈاکو ان کھیتوں میں کئی گھنٹوں سے حملہ کرنے کے منتظر تھے۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف کچے کا علاقہ سال کے بیشتر عرصے میں خشک رہتا ہے لیکن سیلابی موسم میں یہ پانی سے بھر جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دریائی معدنیات کی موجودگی کی وجہ سے یہ زرخیز زمین تصور کی جاتی ہے۔ اس علاقے میں محکمہ جنگلات کے افسروں کے مطابق ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین پر قبضہ ہوا ہے۔ کئی بڑے بڑے زمینداروں کی کچے میں ہزاروں ایکڑ زمین ہے جس کو مقامی زبان میں کیٹی کہا جاتا ہے۔ سندھ کے علاوہ پنجاب اور بلوچستان کے بااثر زمیندار جن میں قبیلوں کے سردار بھی شامل ہیں ان زمینوں کے مالک ہیں۔ اس علاقے کے ڈاکو قبائل سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ ڈاکو سوشل میڈیا پر زیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔
ایک صحافی نے پولیس کے ذرایع سے لکھا تھا کہ ہلاک ہونے والے پولیس والوں کی جب موبائلیں بارش کے پانی میں خراب ہوگئیں اور یہ پولیس والے موبائل کو اسٹارٹ کرنے میں ناکام رہے تو وہ سوشل میڈیا پر اپنی وڈیوز وائرل کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اس بناء پر ڈاکوؤں کو پولیس والوں کی نشاندہی میں آسانی ہوئی، مگر عجیب بات ہے کہ ڈاکو مسلسل سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں مگر دو صوبوں کی پولیس ان کی نشاندہی میں ناکام رہی ہے۔
کچے کے ڈاکوؤں کے بارے میں اب تو سرکاری طور پر بتایا جارہا ہے کہ ان کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے۔ اسلحہ میں جدید رائفلوں کے علاوہ رات کو کام کرنے والے چشمے اور اینٹی ایئرکرافٹ گن بھی شامل ہیں۔ کچے کے علاقے کے ڈاکو گزشتہ کئی عشروں سے بھیانک جرائم میں ملوث ہیں۔ ان کا گزارا اغواء برائے تاوان اور بھتہ کی وصولی سے ہوتا ہے۔ یہ ڈاکو سستی کاروں کے اشتہار سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو ہنی ٹریپ کے ذریعے اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔ تاوان ادا کر کے ان مغویوں کو رہا کیا جاتا ہے۔
ڈاکو ہائی ویز پر بھی کھلے عام لوٹ مار کرتے ہیں اور کاروباری افراد سے باقاعدہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے اضلاع رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، سندھ کے اضلاع گھوٹکی، سکھر، شکارپور، کندھ کوٹ ، لاڑکانہ اور جیکب آباد براہِ راست متاثر ہیں۔ ان علاقوں میں ہندو تاجروں کی خاصی بڑی آبادی ہے۔ ڈاکو ان ہندو تاجروں کو خصوصی طور پر نشانہ بناتے ہیں۔
پہلے صرف مردوں کو اغواء کر کے بھتہ وصول کیا جاتا تھا اور ڈاکو کچھ روایات کی پابندی کرتے ہوئے عورتوں اور بچوں کو نشانہ نہیں بناتے تھے مگر عورتوں اور بچوں کا اغواء بھی اب معمول بن گیا ہے جس کی بناء پر ہندو برادری ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئی ہے۔
اپر سندھ کے مختلف علاقوں سے کئی درجن ہندو خاندان بھارت منتقل ہوگئے ہیں۔ ایچ آر سی پی کے وائس چیئرپرسن خضر حبیب کا کہنا ہے کہ ہندو خاندانوں کی اپر سندھ سے ہجرت کی وجوہات میں ڈاکوؤں کے علاوہ دیگر سنگین مسائل بھی شامل ہیں۔ پہلے تو یہ سلسلہ خاموشی سے ہوتا تھا، اب باقاعدہ ان خاندانوں کی بھارت کی طرف ہجرت کی خبریں شایع ہوتی ہیں، مگر حیرت کی بات ہے کہ صوبائی حکومتوں نہ وفاقی حکومت نے ہندو خاندانوں کے ملک چھوڑنے کا نوٹس لیا۔ جب کچے کے علاقے میں پانی جمع ہوتا ہے تو ڈاکوؤں کی سرگرمیاں تیز ہوجاتی ہیں۔
کراچی اور لاہور کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں اعلیٰ افسر جمع ہوتے ہیں۔ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کی منصوبہ بندی ہوتی ہے، دونوں صوبائی حکومتیں ان آپریشن کے لیے کروڑوں روپے کی اسپیشل گرانٹ منظور کرتی ہیں۔ پولیس حکام آپریشن کا تجربہ کرتے ہیں۔ کچھ نامور ڈاکوؤں کی ہلاکت کا کریڈٹ لیا جاتا ہے اور دونوں صوبوں کی پولیس کے سربراہ یہ فخریہ اعلان کرتے ہیں کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کا قلع قمع ہوگیا مگر چند ہی ہفتوں بعد شہریوں کے اغواء اور ہلاکتوں کی خبریں آنے لگتی ہیں۔ یوں کروڑوں روپے کی خصوصی گرانٹ سے ہونے والے آپریشن کی ناکامی کا اعلان ہوجاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ دونوں صوبوں کی پولیس گزشتہ دس برسوں سے ان ڈاکوؤں کے خاتمے میں کیوں ناکام رہی ہے؟ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایک منظم گروہ افغانستان سے اسلحہ باقاعدگی سے ان ڈاکوؤں کو فراہم کرتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ڈاکوؤں کے نمایندے سابقہ قبائلی علاقوں اور افغانستان سے اسلحے کی خریداری کے لیے جاتے ہیں۔ چند ماہ قبل پولیس نے سندھ کے وزیر اعلیٰ کے ایک مشیرکی گاڑی سے اسلحہ برآمد کیا تھا۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ یہ اسلحہ ڈاکوؤں کے لیے تھا۔ بعد میں یہ مشیر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اسلحہ انھوں نے اپنے خاندان کے تحفظ کے لیے حاصل کیا تھا۔
اپر سندھ اور رحیم یار خان میں یہ بات عام ہے کہ چاروں صوبوں کی پولیس، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکار، قبائلی سردار اور منتخب نمایندے ڈاکوؤں کو اسلحے کی فراہمی میں کہیں نہ کہیں کردار ادا کرتے ہیں۔ ایچ آر سی پی کے کندھ کوٹ سے تعلق رکھنے والے رہنما امداد کھوسو کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کا تعلق غریب خاندانوں سے ہوتا ہے مگر ان کے سرپرست منتخب اراکین، جاگیردار، سردار اور سرکاری افسران ہیں۔ یوں کبھی بھی ان ڈاکوؤں کی مکمل سرکوبی نہیں ہو پاتی۔
اب تو ڈاکو اتنے مضبوط ہیں کہ انھوں نے اپنے مستقبل کا لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر واضح کیا ہے کہ کچے کے علاقے میں پولیس کی چوکیاں قائم نہیں ہونے دیں گے، اگر اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ اور کراچی کی حکومتیں واقعی ڈاکوؤں کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں تو پھر ایک مربوط آپریشن ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔