دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں کی عالمی سطح پر اس لیے پذیرائی کی جاتی ہے کہ یہ یونیورسٹیاں علمی آزاد ی کا مظہر ہیں۔ گزشتہ صدی کے عظیم فلسفی برٹن رسل علمی آزادی کے عظیم پیامبر تھے۔ پاکستانی پروفیسر حمزہ علوی کو علمی آزادی کا حق استعمال کرنے پر امریکا اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں کے دروازے بند کردیے گئے تھے۔
پاکستان میں معروف اساتذہ پروفیسر ایرک سپرے، ممتاز حسین، پروفیسر کرار حسین ، ڈاکٹر مبارک علی ، پروفیسر امین مغل، ڈاکٹر انیس عالم، ڈاکٹر مہدی حسن، ڈاکٹر ظفر عارف، ڈاکٹر نیر وغیرہ نے علمی آزادی کے تحفظ کے لیے اپنی ملازمتیں داؤ پر لگائیں اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر ریاض احمد آج بھی یونیورسٹی کی خودمختاری اور علمی آزادی کے ادارے کے تحفظ کی جنگ میں مصروف ہیں۔
ڈاکٹر ریاض احمد نے کراچی یونیورسٹی سے اپلائیڈ کیمسٹری کے شعبہ میں ایم ایس سی کیا اور پھر وہ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے جہاں وہ کارل مارکس کے نظریات سے متاثر ہوئے۔ برطانیہ کی یونیورسٹیوں کے علمی آزادی کے ادارہ کی اہمیت کو انھوں نے محسوس کیا اور پھر 90کی دہائی میں کراچی یونیورسٹی کے اپلائیڈ کیمسٹری کے شعبہ میں لیکچرار تعینات ہوئے۔ ڈاکٹر ریاض احمد ایک مارکسی وادی کی حیثیت سے اساتذہ کی تنظیم سازی کی طرف مائل ہوئے۔
ڈاکٹر ریاض کا شمار ان اساتذہ میں ہوتا ہے جو کم عمر میں کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا درجہ بلند کر کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ادارہ قائم ہوا تو ایچ ای سی کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن نے اساتذہ کے تقرر اور ترقیوں کے لیے ایسے قواعد تیار کیے جو اساتذہ کے مفادات کی صریحاً خلاف ورزی تھے۔
اس وقت ڈاکٹر ظفر سیفی وائس کراچی یونیورسٹی کے چانسلر تھے۔ ڈاکٹر ریاض نے ایک اور ترقی پسند استاد ڈاکٹر قدیر اور دیگر اساتذہ کے ساتھ مل کر ایچ ای سی کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمتی تحریک کو منظم کیا۔ اس تحریک کی بناء پر ایچ ای سی کو اپنی بعض پالیسیوں پر نظرثانی کرنی پڑی۔ ڈاکٹر ریاض احمد نے اپنے وقت کو صرف کراچی یونیورسٹی تک ہی محدود نہیں کیا بلکہ شہر میں چلنے والی کئی مزاحمتی تحریکوں میں بھی حصہ لیا۔ وہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں متحرک رہے اور انھیں کئی دفعہ راتیں تھانوں کے لاک اپ میں گزارنی پڑیں۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے سابق صدر ڈاکٹر ظفر عارف کو راولپنڈی کے ایک سیاسی مقدمہ میں گرفتار کیا گیا اور انھیں 9 ماہ تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔
اسی زمانہ میں سینئر اساتذہ نے ڈاکٹر عارف کی رہائی کے لیے آواز اٹھائی۔ ان میں سب سے توانا آواز ڈاکٹر ریاض احمد کی تھی۔ ڈاکٹر ریاض کو کئی دن تک کراچی جیل میں راتیں گزارنی پڑیں۔ ان کی رہائی کے لیے سول سوسائٹی کی تنظیموں اور کراچی یونیورسٹی اساتذہ کی نمایندہ تنظیم نے احتجاجی مہم منظم کی جس پر ڈاکٹر ریاض کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان کے خلاف جعلی مقدمہ درج کیا گیا اور جعلی گواہ پیدا کیے گئے مگر عدالت نے ان کی ضمانت قبول کرلی۔
گزشتہ سال اساتذہ نے ڈاکٹر ریاض کو سنڈیکیٹ کا رکن منتخب کیا۔ نئی انتظامیہ کے دور میں سنڈیکیٹ جیسے بنیادی ادارہ پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کی گئیں۔ اس کے اجلاس قانون کے مطابق منعقد نہیں ہوئے۔ ڈاکٹر ریاض نے یونیورسٹی کوڈ کے تحت سنڈیکیٹ کے اجلاس قانون کے مطابق انعقاد کروانے کے لیے مسلسل کوشش کی۔ یونیورسٹی میں گزشتہ چھ ماہ سے بعض عناصر کی غیر قانونی سرگرمیوں کی خبریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ 80کی دہائی میں ایل ایل بی کے امتحانات کے بارے میں کوئی خفیہ تحقیقات ہورہی ہیں۔
بعض ملازمین نے یہ بھی کہا تھا کہ ایل ایل بی کے ماسٹر رجسٹر یونیورسٹی کی حدود سے باہر چلا گیا۔ ڈاکٹر ریاض کو جمعہ کو یونیورسٹی سنڈیکیٹ کا ایجنڈا موصول ہوا تو پتہ چلا کہ 10 سے زیادہ آئٹم اس اجلاس میں زیرِ غور آئیں گے۔
ان میں ایک شق کے مطابق ایک سابق طالب علم کی ایل ایل بی کی ڈگری منسوخ کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ڈاکٹر ریاض نے فوراً یونیورسٹی کوڈ کی مدد حاصل کی پتہ چلا کہ یونیورسٹی کوڈ کے صفحہ 431 پر تحریر کیا گیا ہے کہ امتحانی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی تحقیقات کے لیے یونیورسٹی سنڈیکیٹ Unfair Meansکمیٹی قائم کرے گی جو معاملہ کی تفصیلی تحقیقات کرے گی اور جس طالب علم کے خلاف شکایت موصول ہوئی ہے ،اسے پہلے اظہارِ وجوہ کا نوٹس دیا جائے گا اور متعلقہ طالب علم ذاتی طور پر کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا مؤقف بیان کرے گا، مگر سنڈیکیٹ میں اس دفعہ Unfair Meansکمیٹی نہیں بن پائی اور نا ہی متعلقہ طالب علم کو طلب کیا گیا۔
مگر ڈسپلن کمیٹی کی ایک صفحے کی رپورٹ کو ایجنڈا میں شامل کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر ریاض نے گزشتہ ہفتہ کو گھر سے روانہ ہوتے ہوئے اس بارے میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر ایک ٹویٹ کیا۔ ڈاکٹر ریاض اپنے گھر سے نکلے تھے کہ انھیں تھانہ لے جایا گیا اور مختلف تھانوں میں منتقل کیا جاتا رہا۔ ڈاکٹر ریاض کی اہلیہ صوفیہ حسین جو فارن کوالیفائیڈ کمپیوٹر انجینئر ہیں کو شام کو ڈاکٹر ریاض کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی۔ وہ تھانے گئیں۔ ان کی ملاقات ڈاکٹر ریاض سے کرائی گئی۔ صوفیہ حسین کی اطلاع پر سول سوسائٹی کی تنظیموں کے کارکن ، اساتذہ اور طلبہ تھانہ پہنچے۔ تھانہ والوں نے پہلے ڈاکٹر ریاض سے متعلق کوئی اطلاع دینے سے انکار کیا مگر جب ذرایع ابلاغ کے ذریعہ یہ خبر عام ہوئی تو ڈاکٹر ریاض کو رہا کردیا گیا۔
کراچی یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی دفعہ جس سابق طالب علم کے خلاف شکایت موصول ہوئی اس کو صفائی کا موقع دیے بغیر ایل ایل بی کی ڈگری منسوخ کردی گئی۔ کراچی یونیورسٹی نے اپنی پریس ریلیز میں سابقہ طالب علم کا نام ظاہر نہیں کیا مگر اب یہ مکمل طور پر واضح ہوگیا کہ یہ طالب علم کون ہیں۔
بہادرآباد تھانے کے ایس ایچ او کا ایک بیان اخبارات میں شایع ہوا تو پتہ چلا کہ آرٹلری میدان ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں 2017 میں ڈاکٹر ریاض کے خلاف دو مقدمات درج تھے پولیس والوں نے انھیں مفرور سمجھا اور ان مقدمات کی تحقیقات کے لیے ڈاکٹر صاحب کو تھانے لے آئے۔ بعد میں پولیس حکام کو پتہ چلا کہ ڈاکٹر ریاض ان دونوں مقدمات میں باعزت بری ہوچکے ہیں ۔
یونیورسٹی کے بعض افراد جو غیر تدریسی عملہ کی نمایندگی کرتے ہیں یونیورسٹی کے مؤقف کی حمایت میں بیانیہ اختیار کرنا پڑا۔ بیرونی دباؤ پر کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے گھٹنے ٹیک دیے، یوں علمی آزادی کا ادارہ مخدوش ہوگیا۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنظیم نے یومِ احتجاج منایا ۔ 50 اور 60 کی دہائیوں میں اراکین اسمبلی کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے پولیس کی طاقت استعمال ہوتی تھی مگر یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے پولیس کا استعمال ایک ایسی روایت ہے جس کی ہر شخص کو مذمت کرنی چاہیے مگر جب علمی آزادی کے ادارے کو تحفظ حاصل نہیں ہوگا تو یونیورسٹیوں کا معاشرہ میں بنیادی کردار ختم ہوجائے گا۔