میں انسانیت کے بارے میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ جس ڈگر پر رواں ہے یہ بربادی کا راستہ ہے۔ یہ کسی دیوانے کی بڑ نہیں بلکہ ایک جہاں دیدہ اور وسیع المطالعہ طویل العمر شخص کی سوچ کا نچوڑ ہے۔ یہ شخص اپنی ذات میں انجمن اور کثیر الجہت ہے جس کے خیالات اور طرز زندگی پر ایک عالم فریفتہ ہے۔
جنوبی امریکا کے دو بڑے ممالک یعنی برازیل اور ارجنٹائن کے درمیان ایک چھوٹا سا ملک ہے یوراگوئے، یہ شخص ہوزے موہیکا José Mujica 2010-15 کے درمیان یوراگوئے کا صدر رہا۔ دنیا میں اس وقت اس کی شہرت دنیا کے ایک انوکھے صدر کے طور پر ہوئی جس نے صدارتی محل میں رہنے کے بجائے اپنے چھوٹے سے فارم ہاؤس پر ہی رہنے کو ترجیح دی۔ کسی پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر اپنی پرانی واکس ویگن فوکسی پر خود ڈرائیو کرکے آنا جانا شعار کیا۔
کسی نے اسے دنیا کے غریب صدر کا نام دیا اور کسی نے فلاسفر صدر کا۔بہرحال اپنی سادہ طرز زندگی اور بائیں بازو کے واضح خیالات کے سبب وہ دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ رہے بلکہ آج بھی دنیا ان کے بارے میں جاننے کی خواہش مند رہتی ہے۔ ہوزے موہیکا اس وقت 89 برس کے ہیں۔ اس سال اپریل میں انھیں کینسر کی تشخیص ہوئی جس کے بعد انھوں نے کیموتھراپی شروع کروائی۔اپنی بیماری کے بارے میں جب انھوں نے دنیا کو مطلع کیا تو ایک بار پھر میڈیا ان کے خیالات جاننے لگا اور ان کی صحت کے بارے میں اپڈیٹ کے لیے لپکا۔
ان کی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز آئے۔ یورا گوائے کو 1973 سے 1985تک آمریت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران میں وہ ایک گوریلا فائٹر کے طور پر مزاحمتی تحریک کا حصہ رہے۔ انھیں دس بارہ برس کے لگ بھگ جیل کی سزا کاٹنی پڑی۔ دو دفعہ فرار ہوئے لیکن پھر گرفتار ہوئے۔ آمریت کے بعد یوروگوئے دھیرے دھیرے جمہوریت کی جانب گامزن ہوا۔ بائیں بازو کے خیالات اور سماج میں روشن خیالی کے سبب یہ ملک اپنے خطے اور دنیا بھر میں ایک دلچسپ مثال کے طور پر جانا جاتا ہے۔
حال ہی میں ہوزے موہیکا کا ایک انٹرویو نیو یارک ٹائمز میں شایع ہوا۔ اس گفتگو کا ایک ایک لفظ دور رس اور فلسفیانہ معانی سے بھر پور ہے۔ اس انٹرویو سے چند سوال جواب آپ کی نذر
سوال: آپ کی صحت کیسی ہے؟
میری ریڈی ایشن تھیراپی شروع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر کا خیال ہے کہ کیموتھراپی اچھی ہوئی ہے لیکن میں ڈھیر ہو گیا ہوں۔
(خود گویائی کرتے ہوئے) میرا خیال ہے یہ انسانیت جس ڈگر پر ہے اپنی بربادی کے راستے پر ہے۔
آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟
دیکھیں ہم اپنا بہت سا وقت غیر اہم چیزوں پر ضایع کرتے ہیں۔ یورو گوئے کی آبادی صرف 35 لاکھ ہے جب کہ اس ملک میں ہر سال پونے تین کروڑ سے زائد جوتے امپورٹ کیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخر میں کوڑا کرکٹ جمع کر رہے ہیں اور اس کے لیے کام کرنے کی تکالیف اٹھاتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ جب آپ بلاوجہ کی ضروریات سے اپنے آپ کو بچا لیتے ہیں تو وہی وقت آپ اپنی زندگی پر صرف کر سکتے ہیں۔ جب آپ کی ضروریات بڑھتی ہیں، آپ اپنے اخراجات بڑھاتے ہیں تو مارکیٹ اکانومی آپ پر سوار ہو جاتی ہے، اور یوں وہ ہم سب کی زندگیاں چھین لیتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک ہی زندگی ہے اور اسے ختم بھی ہونا ہے۔ہمیں زندگی کو معنی خیز بنانے کی ضرورت ہے دولت کمانے اور خواہشات کے پیچھے بھاگنے سے کہیں بہتر ہے ہم خوشیوں کے لیے جدوجہد کریں۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ انسانیت اور انسان اسے بدل پائے گا؟
تبدیل کر سکتا ہے لیکن مارکیٹ اکانومی بہت مضبوط ہے۔ اس نے غیر مرئی انداز میں تصرف پر استوار مضبوط کلچر پیدا کیا ہے جو اب ہم سب پر حاوی ہے۔ہم خریداری کے لیے زندہ ہیں، اس خریداری کے لیے دولت اکٹھی کرنے کے کام کے لیے زندہ ہیں۔ اپنے قرض ادا کرنے کے لیے زندہ ہیں ، قرض بہت حد تک ایک مذہب یا عقیدے کی صورت ہم پر مسلط ہو گیا ہے، یوں سمجھ لیں کہ انسان "پھنس" گیا ہے۔We are kind of Screwed up
لگتا ہے آپ پر امید نہیں ہے؟
نہیں بنیادی طور پر انسان ہونے کے ناطے پر امید ہوں لیکن جب میں غور کرتا ہوں تو مایوسی کا سامنا دیکھتا ہوں۔
صدارتی رہائش گاہ کے بجائے آپ نے اپنے فارم ہاؤس پر رہنے کو کیوں ترجیح دی؟
صدارتی رہائش گاہ چار منزلہ عمارت تھی، چائے پینے کے لیے تین بلاک دور مخصوص جگہ جانا پڑتا تھا، فضول! انھیں چاہیے وہاں ہائی اسکول بنا دیں۔
کیا خواہش ہے کہ لوگ آپ کو کیسے یاد رکھیں ؟
میرے پاس ایک شئے ہے؛ لفظ کا جادو۔ کتاب انسان کی سب سے بڑی ایجاد ہے۔ یہ شرمناک ہے کہ لوگ اس قدر کم پڑھتے ہیں۔ ان کے پاس وقت ہی نہیں!
آجکل لوگ موبائل فونز پر بہت سی ریڈنگز کر لیتے ہیں ؟
میں نے اپنا فون چار سال پہلے پھینک دیا تھا۔ مجھے اس سے وحشت ہونے لگی، سارا دن نان سینس باتیں۔ ہمیں اپنے اندر کے آدمی سے بات کرنے کا ہنر سیکھنا چاہیے۔ یہی اندر کا آدمی تھا جس نے مجھے اس وقت بچائے رکھا جب میں کئی سال تنہا تھا، یہ میرے ساتھ رہا۔
آپ کہہ رہے ہیں کہ موبائل فون نقصان دہ ہیں؟
فون کا قصور نہیں، ہم ہی ہیں جو ابھی اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ ہم نے اس کا استعمال تباہ کن طریقوں سے کیا۔ ہم نے ٹیکنالوجی میں اپنی اخلاقیات سے کہیں زیادہ ترقی کی ہے!
آپ کی بات بجا لیکن یہ ڈیجیٹل دنیا تو یہاں نئے دور کے نقیب کے طور پر موجود ہے!
کوئی بھی چیز انسان کا نعم البدل نہیں ہے۔ ہم اور آپ گفتگو کر رہے ہیں یہ گفتگو الفاظ پر مبنی ہے۔ ہم روبوٹ نہیں ہیں ہم نے سوچنا سیکھا ہے، ہم جذبات اور گوشت پوست سے بنے انسان ہیں۔اس انسان کو اندر زندہ رکھنا اصل چیلنج ہے۔