کراچی میں سڑکوں کے ٹھیکے دینے کیلئے مانیٹرنگ یونٹ بنایا جائے گا فاروق ستار
وزیراعظم نے کے فور کیلئے 50 ارب اور کراچی کے انفرااسٹرکچر کیلئے 15 ارب روپے دینے کا عندیہ دیا ہے، رہنما ایم کیو ایم
ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے چیئرمین ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ وزارت ہاؤسنگ کے تحت ایک مانیٹرنگ یونٹ بنایا جائیگا جو کراچی میں سڑکوں کی تعمیر کے ٹھیکے دے گا۔
ہفتے کو وفاق ایوانہائے تجارت و صنعت پاکستان میں میڈیا ٹاک اور تاجر و صنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ وزیراعظم نے کے فور کے لیے مجموعی طور پر 50 ارب روپے، کراچی کے انفرااسٹرکچر کے لیے 15 ارب روپے، حیدرآباد کی ترقی کے لیے 5 ارب روپے جبکہ نواب شاہ، سکھر اور میرپورخاص کی ترقی کے لیے ایک، ایک ارب روپے فراہم کرنے کاعندیہ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 130 اضلاع کو اگر آرٹیکل 140 اے کے تحت اختیارات دیے جائیں تو یہ اضلاع ترقی کا انجن بن جائیں گے اور ملک کے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے۔ ملکی ترقی معیشت کی بحالی کے لیے بلدیاتی حکومت کی ترقی ناگزیر ہے۔ چین سمیت دیگر ممالک کی ترقی کا راز اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی ہے۔ صرف شنگھائی کی برآمدات 400 ارب ڈالر ہیں اگر موقع دیا جائے تو صرف کراچی 600 ارب ڈالر کی برآمدات دے سکے گا۔
فاروق ستار نے کہا کہ ایک سال میں آپ نئی ایم کیو ایم دیکھیں گے، اگلے بلدیاتی اور عام انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان 50 فیصد نشستیں حاصل کرے گی، بجلی کی موجودہ قیمت صنعتوں اور گھروں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ کے الیکٹرک کے خلاف مظاہرہ کیا لیکن ابراج کے جانے کے بعد کے الیکٹرک کے اپنے حالات بھی اچھے نہیں ہیں، کے الیکٹرک کا سرچارج اور پبلک ہولڈنگ ٹیکس اگر ختم ہو جائے تو معیشت میں مزید بہتری ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میئر کراچی کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے تو اب کراچی کی سڑکوں کا مسئلہ کیوں ہے۔ پیپلزپارٹی کے مئیر اور وزیر بلدیات ہیں جو سڑکوں کی درستگی کے ذمہ دار ہیں۔ ایم کیو ایم اپنے ایم این ایز کا فنڈ بھی مختص کیا ہے۔ ایم این ایز فنڈ کے 10 تا 15 ارب روپے سے شہر کی سڑکوں کو بہتر بنائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت بحران کی زد میں ہے جو سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ نجکاری کا عمل صرف پی آئی اے یا 6 ڈسکوز تک محدود نہیں، نجکاری کی فہرست میں 84 ادارے ہیں جس میں ایچ بی ایف سی، اسٹیل ملز، روز ویلٹ ہوٹل اور 6 ڈسکوز شامل ہیں جبکہ متعدد اداروں کے غیراستعمال شدہ اراضی کی بھی نجکاری کی جائے گی۔
فاروق ستار نے کہا کہ اس وقت کے حالات یہ ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی بھی نجکاری ہونی چاہئے کیونکہ کرکٹ کے شعبے میں وسیع آمدنی ہے، اگر اس پر توجہ دی جائے تو کافی بہتری لائی جاسکتی ہے، کاروبار کرنا حکومت کا کام نہیں ہے لہذا اس جملے کو حلف نامے میں شامل کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یکم اکتوبر کو پی آئی اے کی نج کاری لائیو اسٹریم ہوگی۔ پی آئی اے کے 6 بولی دھندگان میں ایک بین الاقوامی بولی دھندہ ہے۔ آئی پی پیز کو پاکستانی عوام کا واسطہ دینا چاہیے کہ اپنے منافع میں سے کچھ نقصان برداشت کرلیں۔ آئی پی پیز کے معاہدے بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ہوئے۔ سال 2014 میں ان معاہدوں کی تجدید مسلم لیگ ن کی حکومت میں ہوئی۔
فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم سیاست سے ماورا ہوکر آئی پی پیز مسائل کے حل کے لیے اسٹینڈ لیا ہے۔ اگر ایس آئی ایف سی کو بھی کامیاب ہونا ہے تو اسے بھی آئی پی پیز کے مسئلوں سے نمٹنا ہوگا۔ قانونی طور پر کوئی ڈسکو 7 گھنٹوں سے زائد لوڈشیڈنگ نہیں کرسکتی۔ 9 سالوں میں اسٹیل ملز کا 500 ارب روپے کا نقصان ہوا یہ کس کا قصور ہے۔