قائداعظم کے انتقال پر غیر ملکی اخبارات کے اداریے
روزنامہ تیج دہلی نے 15 ستمبر 1948ء کو لکھا کہ محمد علی جناح ایک بہت بڑی شخصیت کے مالک تھے
قائداعظم محمد علی جناح نومبر 1947ء میں کشمیر مشن کے سلسلے میں لاہور میں مقیم رہے اور ان ہی اعصاب شکن دنوں میں بیمار ہوگئے۔ اس دوران پنجاب کے اس وقت کے گورنر سر فرانسس موڈی کے مہمان رہے۔ ان کے ذاتی معالجین کا خیال تھا کہ قائداعظم سرکاری مصروفیات ختم کرکے علاج پر توجہ دیں۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ 5 جولائی 1948ء کو قائداعظم زیارت بلوچستان چلے گئے۔
ان کے معالج ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے زیارت میں قائداعظم کا طبی معائنہ کرنے کے بعد انہیں مشورہ دیا کہ وہ سرکاری مصروفیات مکمل ختم کردیں، مگر قائداعظم نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور 29 اگست 1948ء کو قائداعظم نے ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کو کہا کہ ''پاکستان کے حصول کے بعد ان کا مقصد زندگی پورا ہوچکا ہے۔'' کرنل الٰہی بخش نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ اس وقت قائداعظم محمد علی جناح کی آنکھوں میں آنسو تھے جس وقت وہ یہ باتیں مجھ سے کررہے تھے۔ 11ستمبر 1948ء کو قائداعظم کو کراچی منتقل کردیا گیا اور اسی دن ان کا انتقال ہوگیا ،انتقال کے وقت قائداعظم کا وزن 70 پونڈ تھا۔
قائداعظم کے انتقال پر پوری دنیا کے اخبارات میں اداریے لکھے گئے جس میں انہیں ایک عہد ساز مدبر اور اصول پرست سیاستدان قرار دیا گیا۔ امریکا کے بااثر اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی 14 ستمبر 1948ء کی اشاعت میں لکھا کہ'' وہ قائداعظم محمد علی جناح تھے، جو ہندوستانی مسلمانوں کے حقیقی رہنما تھے۔ وہ مسلم لیگ کا دماغ تھے اور مسلم قوم کا دل۔ ان کی موت سے پاکستان اپنے عظیم رہنما سے محروم ہوگیا ہے۔'' برطانیہ کے اخبار نیوز کرانیکل نے لکھا ہے کہ'' صرف موت ہی وہ واحد دشمن تھی جس کے سامنے قائداعظم محمد علی جناح نے اپنا سر جھکایا تھا۔''
امریکا کے ایک اور اخبار نیویارک ہیرالڈ ٹریبون نے اپنے اداریے میں لکھا کہ'' قائداعظم کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ اپنا مشن مکمل کرچکے تھے۔ تاریخ سیاست میں تخلیق پاکستان ایک بے مثال معرکہ ہے اس کام کو جو بظاہر ناممکن معلوم ہوتا تھا ،محمد علی جناح نے ممکن کر دکھایا۔ ''قائداعظم کے انتقال پر بھارتی اخبار کے اداریے اور تبصرے بھی اہمیت کے حامل تھے۔
نئی دہلی کے روزنامہ اسٹیٹسمین نے 13 ستمبر 1948ء کو لکھا تھا کہ محمد علی جناح کی عظمت کسی آنکھ سے چھپی ہوئی نہیں تھی ان کی مثال ایک ہیرے کی طرح سے تھی جو انتہائی سخت ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہیرا ہے۔ وہ ایک عظیم اور غیر متزلزل قوت ارادی کے مالک انسان تھے جس استقلال و عزم کے ساتھ انہوں نے اپنے مقاصد حاصل کیے اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے اپنے لیے ایک منزل مقرر کی اور اس پر پہنچ کر ہی دم لیا۔ روزنامہ ہندو دہلی نے 16 ستمبر 1948ء کو لکھا کہ قائداعظم محمد علی جناح مضبوط قوت ارادی کے مالک تھے ان کے ارادے میں حقیقتوں کو مٹانے اور خوابوں کو حقیقت بنانے کی طاقت تھی۔
روزنامہ تیج دہلی نے 15 ستمبر 1948ء کو لکھا کہ محمد علی جناح ایک بہت بڑی شخصیت کے مالک تھے ،ان کی وفات سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ہم نیک نیتی سے محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کو ایک مضبوط ملک ہونا چاہیے۔ روزنامہ الجمیعتہ دہلی نے 15 ستمبر 1948ء کو لکھا کہ'' قائداعظم کے انتقال سے پاکستان اپنے ایک بہت بڑے رہنما سے محروم ہوگیا۔''
روزنامہ پربھات نے قائداعظم کے انتقال پر لکھا کہ'' ہمیں یہ اعتراف کرلینا چاہیے کہ متحدہ ہندوستان کی تمام طاقتیں اس ایک شخص سے شکست کھاگئیں، غیر جانبدار تاریخ لکھنے والے مجبور ہوں گے کہ محمد علی جناح کو دنیا کے بڑے آدمیوں میں شمار کریں یقیناً وہ ایک بڑے آدمی تھے نہ ہوتے تو تاریخ کا رخ نہ پلٹا جاتا۔'' بھارت کے سرکردہ اخبار ہندوستان ٹائمز کی رائے تھی کہ'' قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے زمانہ کی عظیم ترین شخصیت کو للکارا اور بازی جیتی ان کے سیاسی مخالفین بھی یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مسٹر جناح اپنے ارادے کے پکے اور پرخلوص نیت کے مالک تھے۔
ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی ان کی خوبیوں کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ اپنے اندر قلب سلیم رکھتے تھے انہوں نے اپنے دشمن کے مقابلے میں کبھی کوئی اوچھا ہتھیار استعمال نہیں کیا۔ ''روزنامہ ملاپ نے لکھا کہ'' متحدہ ہندوستان نے مسٹر جناح سے زیادہ مضبوط زیادہ مستحکم ارادہ رکھنے والا اور زیادہ سخت آدمی آج تک پیدا نہیں کیا۔ مسٹر جناح نے اپنے سامنے جو نصب العین رکھا اس پر چٹان کی طرح قائم رہے۔ مخالفتوں کے طوفان، نکتہ چینی کی آندھیاں، ناموافق حالات کے بھونچال کوئی بھی انہیں اس جگہ سے ہلا نہیں سکا۔
جہاں وہ ایک بار کھڑے ہوگئے۔'' کلکتہ کے سرکردہ اخبار امرتا بازار پرتیکا نے لکھا کہ'' قائداعظم نے مسلمانوں کو وہ دے دیا جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ اب پاکستانیوں اور ان کی قیادت کا فرض ہے کہ وہ اسے قائم رکھیں پاکستان کو مضبوط اور ترقی یافتہ ملک بنائیں ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔'' روزنامہ صدائے مردم تہران نے اپنی 13 ستمبر 1948ء کی اشاعت میں لکھا کہ'' محمد علی جناح بزرگ ترین رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے ہر قسم کی تکالیف، مشکلات اور مصائب برداشت کرکے پاکستان حاصل کیا۔ قائداعظم کی وفات ایک ایسا عظیم نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔''
ڈیلی ایکسپریس لندن نے لکھا کہ مسٹر جناح کے عزم و استقلال اور محنت و ہمت نے پاکستان کو ایک لڑی میں پرورکھا ہے ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان کو جن مشکلات و مصائب سے گزرنا پڑا ہے یہ آزمائش یعنی قائداعظم کی رحلت سب سے زیادہ کڑی ہے۔ یارک شائر پوسٹ لندن نے لکھا کہ'' مسٹر جناح نے بہت ہی دشوار کام سر کیا۔ کیونکہ ان کے پاس کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہمت و جرأت کا عظیم ذخیرہ تھا۔ سیاستدان کی حیثیت سے باقی لوگوں کی بہ نسبت ان کا درجہ بہت بلند ہے فطرت نے انہیں ایک خاص انعام ودیعت کیا تھا کہ وہ فوراً بات کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے وہ ایسے زبردست سیاستدان تھے کہ کوئی شخص ان کو شکست نہیں دے سکتا تھا۔'' مانچسٹر گارجین لندن نے لکھا کہ'' براعظم ہند کو تقسیم کراکر قائداعظم نے ایسی زبردست کامیابی حاصل کی جو اس سے پہلے کسی ایشیائی مدبر کو حاصل نہیں ہوئی تھی۔''
ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بی بی سی کو دیئے گئے اپنے آخری انٹرویو میں کہا تھا کہ'' قائداعظم جیسا اصول پرست اور حوصلہ مند سیاستدان میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔'' محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ'' قائداعظم محمد علی جناح ایک اصول پرست ،سچے اور دیانتدار سیاستدان تھے۔
قائداعظم کے رفیق کار اور امریکا میں اس وقت کے پاکستانی سفیر ایم ایچ اصفہانی نے اپنی کتاب میں اس وقت لاس اینجلس کیلی فورنیا میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک پاکستانی طالب علم ذوالفقار علی بھٹو کا خط شائع کیا تھا جو ذوالفقار علی بھٹو شہید نے قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد انہیں لکھا تھا ۔ذوالفقار علی بھٹو شہید نے قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کو ایک بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ''یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم اس فیصلہ کن لمحے میں یتیم ہوگئے ہیں کہ جب کسی بھی اور طاقت سے بڑھ کر ہمیں اپنے محبوب، ہر دل عزیز اور باوقار قائداعظم کے بے پناہ لطف و کرم کی ضرورت تھی۔
ہماری بقاء کا انحصار زندگی کے انقلابات کے مقابلے کے لیے لامحدود عزم و ہمت فراہم کرنے پر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس ہمت افزاء تربیت کی بدولت جسے ہمارے قائد نے ہماری رگوں میں پیوست کردیا ہے ہم ان سب رکاوٹوں کا سامنا کرسکتے ہیں جو ہمیں درپیش ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے اور ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اگرچہ قائداعظم ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں تاہم ان کی پاکیزہ اور معصوم روح ہمارے دل و دماغ میں ہمیشہ تروتازہ رہے گی اﷲ تعالیٰ ان کی عظیم روح پر اپنا رحم و کرم کرے اس قدر طویل اور تھکادینے والے کام کے بعد آخر انہیں آرام و سکون حاصل ہوگیا ہے ان کی ساری زندگی اپنی قوم کی فلاح و بہبود اور آزادی کے لیے ایک جدوجہد تھی،جو ہمارے لیے ایک مشعل راہ ہے۔''