ہم سب مکمل خطرے میں ہیں
کسی بھی ملک کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لیے دو صلاحیتوں کا ہونا نہایت ضروری ہے
کرزیزٹوف کیسلوسکی کہتا ہے '' میں خود کو زیادہ پسند نہیں کرتا، اس لیے میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو اکثر نہ دیکھوں۔ میں نے ایک بار ٹاکنگ ہیڈزکے عنوان سے ایک دستاویزی فلم بنائی تھی۔ میں نے لوگوں سے دو سوال پوچھے۔ ''آپ کون ہیں'' اور ''آپ کیا چاہتے ہیں؟'' اس کے بعد میں نے اپنے آپ سے یہ سوالات پوچھے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
میں نہیں جانتا کہ میں کون ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میں کیا چاہتا ہوں، اگرکچھ بھی ہے تو، میں کچھ سکون اور خاموشی چاہتا ہوں، لیکن میں نے اسے کبھی حاصل نہیں کیا اور میں شاید کبھی نہیں کروں گا۔ اس لیے مجھے وہ کبھی نہیں ملے گا جو میں واقعی چاہتا ہوں۔''
ہمیشہ خیال رکھیے کہ دھند میں سفر اختیار نہ کریں کیونکہ یہ ایک خطرناک عمل ہے اور ذہنی دھند تو بہت ہی زیادہ خطرناک ہے، اس کے ساتھ سفرکرنا تو اپنے آپ کو مکمل خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے، اگر ہم اپنے ملکی ڈرائیوروں کا بغور معائنہ کریں تو ہم پر یہ وحشت ناک انکشاف ہوگا کہ وہ سب کے سب شدید ذہنی دھندکا شکار ہیں، اس لیے اس وقت ہم سب کے سب مکمل خطرے میں ہیں، ہم میں سے کسی کو نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ آیندہ کیا ہونے والا ہے اور یہ بھی کہ ڈرائیور بھی اپنے اگلے لمحے سے ناواقف ہیں، اس لیے آئیں، سب سے پہلے تو ہم سب اپنے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیں اورکسی بھی انہونے حادثے کے لیے تیار رہیں چونکہ ابھی وقت ہے ہمارے پاس اس لیے آئیں، اپنے ڈرائیوروں کے بارے میں کچھ باتیں کرتے ہیں۔
ہم سب اس سے تو واقف ہی ہیں کہ دھند کیسے پیدا ہوتی ہے آئیں! یہ پتہ چلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذہنی دھند پیدا ہونے کے کیا اسباب ہیں، جب کسی انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا ہوجائے کہ وہ ناگزیر ہے اور اس جیسا کہ کوئی دوسرا سمجھ دار ہی نہیں اور وہ جو چاہے جیسا چاہے کرے اسے روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں اور نہ ہی کسی کو یہ اجازت حاصل ہے تو پھر وہ شدید ذہنی دھند کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کی سوچ صرف اپنی ذات کی حد تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے کیونکہ اس دھند کی وجہ سے وہ اپنے علاوہ اورکچھ سوچنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے پھر لالچ، خود غرضی اور بے حسی اس کی سو چ کو دبوچ لیتی ہیں، اس لیے اسے اپنے سوا اورکچھ دکھائی نہیں دیتا ہے، ذہن میں رہے، اس ذہنی دھند کا شکار ملک میں صرف حکمران ہی نہیں ہیں بلکہ ہمارے بیوروکریٹس، مذہبی رہنما ، جاگیردار، سرمایہ دار سب کے سب اس کی ہی لپیٹ میں ہیں اس ذہنی دھند کی وجہ سے سارا ملک انتشارکی لپیٹ میں آگیا ہے۔
ایک دو اداروں کو چھوڑکر باقی ہر ادارے میں خاک اڑتی پھر رہی ہے ہر جگہ مکمل افراتفری اور نفسا نفسی نے قبضہ کر لیا ہے۔ جے ایس ناکس نے کہا تھا '' امریکا کا عظیم صحرا آیڈا ہونیو میکسیکو یاآریزونا میں واقع نہیں۔ یہ تو ہر متوسط امریکی کے ہیٹ کے نیچے ہے۔ عظیم امریکی صحرا کوئی حقیقی صحرا ہونے کے بجائے ذہنی صحرا ہے '' اگر یہ ہی بات ہمارے لیے بھی کہی جائے تو آپ بتائیں کیا غلط ہوگا۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ علم ہے کہ وہ ملک میں انتشار پھیلا کر اسے کہاں لے جا رہے ہیں؟کیا انہوں نے خطے اور دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں پرگہری نظریں رکھی ہیں،کیا وہ ہر متوقع یا غیر متوقع صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
کیا انہیں یہ بھی علم ہے کہ ملک ناگزیر ہوتے ہیں شخصیات نہیں۔ ہم سب کی بقاء اسی میں ہے کہ ان کی ذہنی دھند کو مٹانے کے لیے جنگی بنیادوں پرکام کیا جائے، اگرآپ کبھی واشنگٹن میں کانگریس کی لائبریری میں جائیں تو آپ کو چھت پر انگریزی شاعر پوپ کے پانچ الفاظ منقوش نظر آئیں گے '' ترتیب کائنات کا پہلا اصول ہے'' اس لیے ملک کو چلانے کے لیے پہلا اصول ترتیب ہی ہوتا ہے۔ امریکا کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چارلس ایونز ہیوازکے الفاظ میں '' زیادہ کام کرنے سے اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے انتشار، پراگندگی، پریشانی اور بے ترتیبی سے مرتے ہیں'' ہاں اپنی پراگندہ قوتوں اور خیالوں کی وجہ سے کیونکہ انہیں کام کبھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔
کسی بھی ملک کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لیے دو صلاحیتوں کا ہونا نہایت ضروری ہے اول ! سوچنے کی صلاحیت دوئم ! کاموں کو ان کی اہمیت کی ترتیب سے کرنے کی صلاحیت۔ عظیم ماہر نفسیات ولیم جیمز لکھتاہے '' جوکچھ ہم ہیں اور جوکچھ ہمیں ہونا چاہیے اگر ان دونوں کا موازنہ کیا جائے تو اس وقت ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم صرف نیم بیدار ہیں۔
ہم اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے بہت تھوڑے حصے کو استعمال کر رہے ہیں۔ میں صاف الفاظ میں یہ کہوں گا کہ افراد انسانی اپنی حدود سے بہت دور رہتے ہیں وہ مختلف قسم کی قوتوں کے مالک ہیں جنھیں استعمال کرنے میں وہ ناکام رہتے ہیں'' یہ ہی بات ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان پر بھی لاگو ہوتی ہے جو شدید ذہنی دھند کے مالک ہیں وہ سب کے سب نیم بیدار ہیں ہر چیز سے لاتعلق، لاعلم،انسانیت سے کوسوں دور، اپنے آپ میں مگن، وہ گوشت پوست کے ڈھیرکے علاوہ اورکچھ نہیں۔
اب ہمارے پاس سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ اس ذہنی دھند کے خاتمے کا آغازکیسے ہوگا اورکون کرے گا؟ اس معاملے میں تو ہم خود ذہنی دھند کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں عظیم شاعر رابرٹ سروس کی ایک نظم کا مندرجہ ذیل اقتباس یاد رکھنا چاہیے ''جب آپ جنگل میں راستہ بھول چکے ہوں اور ایک بچے کی طرح خوفزدہ ہوں جب آپ کو ہر طرف موت نظر آتی ہو، تو ایسی حالت میں پستول نکال کر مرنے مارنے پر تیار نہ ہوجائیں جہاں تک ممکن ہو زندگی کے مصائب کا مقابلہ کریں اگر زندگی نے آپ سے اچھا سلوک نہیں کیا توگھبرانے کی ضرورت نہیں۔
آپ جوان ہیں آپ کی رگوں میں خون موجیں مار رہا ہے، ہمت اور استقلال سے کام لیں۔ شکست کا رونا رو کر مر جانا بڑا آسان کام ہے مگر ناکامی اور ناامیدی کا مقابلہ دل سے کرنا انسان کا شعار ہے مرنا آسان ہے مگر مر مرکر جینا مشکل ہے، لیکن زندگی نام ہے مرمر کے جئے جانے کا''، یاد رکھیں نپولین، وا لنگٹن، لی،گرانٹ، فوچ، ہر بڑے فوجی جرنیل نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ جو فوج جیتنے کا تہہ کرچکی ہے جس فو ج کو اپنی قابلیت پر ناز ہے، اسے فتح کے لیے کوئی اور چیز درکار نہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں اپنی جنگی کشتی کو چارلٹن کی بندرگاہ میں نہ لے جانے سے متعلق ایڈمرل ڈوپاں نے نصف درجن کے قریب دلائل دیے تھے۔ ایڈمرل فاراگٹ اس کی باتیں بغور سننے کے بعد کہنے لگا ''ایک وجہ تو آپ نے بیان ہی نہیں کی'' '' وہ کون سی ہے؟ ایڈمرل ڈوپاں نے سوال کیا۔ اس نے جواب دیا '' آپ کو خود پر یقین نہ تھا کہ آپ ایسا کرسکیں گے'' ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال اب ضرورکرناچاہیے کہ کیا حادثہ ہی ہمارا نصیب ہے یا پھر ترقی،آزادی،خوشحالی اور مسرتیں ہمارا بھی مقدر ہوسکتی ہیں اگر آپ پلٹ کر یہ سوال کریں گے کیسے'' تو یاد رکھیں اس کا جواب ہر بڑے فوجی جرنیل پہلے ہی دے چکے ہیں۔