ایک کتاب دو مصنف
کتاب کا انتساب نئی نسل کے نام ہے۔ 25ابواب پر مشتمل یہ کتاب واقعی ایک تاریخی دستاویز ہے
کسی بھی ریاست ، حکومت ،سماج کی سیاسی ، سماجی ، انتظامی ، قانونی ، علمی و فکری سمیت معاشی ساکھ کی حیثیت اس ریاست میں موجود آئین و قانون کی حکمرانی سے جڑی ہوتی ہے ۔کیونکہ آج کی جدید ریاستی تصورات میں آئین و قانون کی حکمرانی کی بنیاد پر عالمی سطح پر ریاستوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے ۔ ایسی جدید ریاستیں آئین و قانون کے تابع ہوتی ہیں اور تمام شہریوں اور اداروں کو آئین و قانون کے تابع رکھتی ہیں ۔آئین و قانون کی حکمرانی کسی بھی نظام کی ایک طرف کنجی اور دوسری طرف ریاست کی پالیسی اور ترحیحات کا تعین کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے ۔اسی کو بنیاد بنا کر پارلیمنٹ اور حکومت نظام مملکت چلاتی ہے ۔
پاکستان میں حکمرانی کے نظام کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں ابہام موجود ہیں جس کی وجہ آئین اور قانون صرف طاقت ور افراد یا گرو ہوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ ان خرابیوں کو کسی نے دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس میں محض فوجی حکمرانوں ، عدلیہ اور بیوروکریسی کا ہی قصور نہیں بلکہ سیاسی قیادت بھی برابر کی شریک ہے۔ بالا دست حکمرانوں اورنوکرشاہی کی من مانیوں اور سیاستدانوں کی مفاد پرستیوں کی قیمت پاکستان کے کمزور طبقے چکا رہے ہیں ۔اس میں حکمران طبقات کا کوئی ایک گروہ نہیں بلکہ سب ہی ذمے دار ہیں ۔
پاکستانی صحافت کا ایک بڑا معتبر نام الطاف حسن قریشی کا ہے ۔ 1960سے ان کی ان کی ادارت میں چلنے والا ملک کا معروف ماہ نامہ '' اردو ڈائجسٹ '' ان کی صحافتی ساکھ کو نمایاں کرتا ہے ۔ الطاف حسن قریشی کا صحافت کا سفرچھ سے سات دہائیوں سے جاری ہے اور اس بزرگی میں بھی ان کی علمی و فکر جستجو جاری ہے اور تواتر کے ساتھ لکھ رہے ہیں ۔ وہ روزمرہ کے سیاسی معاملات میں الجھنے کی بجائے کئی برسوں سے فکری کاموں سے جڑے ہیں اور اپنی یاداشتوں پر مشتمل کتابیں بھی لکھ رہے ہیں۔ اس کام میں ان کو اپنے پوتے افنان حسن قریشی کی بھرپور معاونت حاصل ہے ۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیرز )پائنا( نامی تھنک ٹینک کی سربراہی بھی الطاف حسن قریشی کے پاس ہے ۔ انھیں قومی صحافت کا انسائیکلو پیڈیا کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
الطاف حسن قریشی کا تازہ تصنیف '' میں نے آئین بنتے دیکھا '' ہے جس کی جلد اول شائع ہوئی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لا کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکڑ امان اللہ شریک مصنف کے طور پر موجود ہیں ۔ڈاکٹر امان اللہ نئی نسل کو قانون پڑھاتے ہیں۔وہ آئینی اور سیاسی تاریخ کے طالب علم اور استاد کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انھوں نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کررکھی ہے جب کہ عالمی سطح پر پڑھنے اور پڑھانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ ساؤتھ ایشیا یونیورسٹی نیو دہلی میں بھی پڑھاتے رہے ہیں ۔کتاب میں آئینی و قانونی داستان یا دستاویزات کو بہت ہی عام فہم اور دلچسپ پیرائے میں قلم بند کیا گیا ہے ۔الطاف حسن قریشی وڈاکٹر امان اللہ کی یہ مشترکہ تصنیف کو ہمارے دوست قلم فاونڈیشن کے سربراہ علامہ عبدالستار عاصم نے شائع کیا ہے ۔
کتاب کا انتساب نئی نسل کے نام ہے۔ 25ابواب پر مشتمل یہ کتاب واقعی ایک تاریخی دستاویز ہے ۔ علم و فکر اور تحقیق کے طالب علموں کے لیے یہ کتاب بڑی اہم دستاویز ہے ۔ کتاب کے اہم ابواب میں ابتدائی قانونی ڈھانچہ وخود ساختہ تنازعات، حکمرانی سے غلامی ، سرسید کی تعلیمی ،گول میز کانفرنس سے آئین 1935کی تدوین جنگ،قرداد لاہور ،علیحدہ وطن کا قومی مطالبہ ، قائد اعظم کا 11اگست کو اہم خطاب،محمد علی جناح کے دستوری تصورات جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
الطاف حسن قریشی نے اپنے اہم مقدمہ میں تقسیم ہند پر سیاسی ماہدہ ،آئینی تصورات سے پہلی آگاہی ،پاکستان کی طرف ہجرت،جہاد کشمیر کا قضیہ، اسلامی دستور سے وابستگی کی پہلی آزمائش،قدرت کی عجب کرم فرمائی ، چشم کشا تقریر ،رب کریم کی عنایات بے پایاں ، آئین شناسی کی ایک اور آزمائش،دستور شناسی کا وسیع دائرہ پر پیش کیا ہے جو پڑھنے کے لائق ہے ۔بقول ڈاکٹر امان اللہ کے اردو میں یہ پہلی کتا ب ہے ۔جس میں آئین وقانون کے مشکل اور خشک مضامین اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ وہ اپنے اندر بلا کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ معاشرے کی نشوونما کے لیے گہری معنویت اپنے دامن میں لیے ہیں اس میں ان مسلم تحریکوں کا بھی تفصیل سے زکر ہے جن کی بدولت برطانوی عہد میں آئینی اصلاحات کا سلسلہ شروع ہو کر قیام پاکستان پر منتج ہوا ۔کوشش کی گئی ہے کہ آئین وقانون کی شقوں کا حوالہ دینے اور ان کی تعبیر وتشریح کرنے میں کوئی سقم نہ رہ جائے یا ان کے بقول آئین کی روح تک پہنچے کا عمل جس قدر مستحکم ہوگا، اسی قدر آئین کی بالادستی کا منظرنامہ حسین اور خوب تر ہوتا جائے گا اور یہ عمل ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔
الطاف حسن قریشی کی عمر 93برس ہے ۔اس سے قبل ان کی دو کتابیں '' جنگ ستمبر کی یادیں'' اور '' مشرقی پاکستان ، ایک ٹوٹا ہوا تارا'' نے علمی و فکری حلقوں میں کافی شہرت پائی ۔ اس کتاب میں اصل توجہ قیام پاکستان کی کہانی کے گرد گھومتی ہے ۔الطاف حسن قریشی اس کتاب کے دوسرے حصے یا جلد میں قیام پاکستا ن کے بعد کی کہانی کو پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔اصل میں ہمیں دیانت داری سے اس تجزیہ کی ضرورت ہے کہ پاکستان کیونکر ایک سیاسی، جمہوری ، آئینی اور قانونی ریاست کے طور پر اپنی ساکھ کیونکر قائم نہیں کرسکا اور ایسا نہ ہونے میں ایسے کونسی سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کا کیا کردار تھا یا ہے ۔ 1973کے آئین میں ترامیم کی بنیاد پر کیسے جمہوری ریاست کو کمزو رکیا گیااوراس کو کمزو رکرنے کے کون کون کردار تھے ۔ اسی طرح یہ تجزیہ بھی سامنے آنا چاہیے کہ ہمارا موجودہ حالات میں سیاسی ،جمہوری ، آئینی ،قانونی مستقبل کیا ہے ۔مسئلہ محض اسٹیبلیشمنٹ ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں، سیاسی قیادت، سول سوسائٹی ،عدلیہ او رمیڈیا سب نے جمہوری عمل کو کمزور کیا ہے ، اس پر قومی ترجیحات کا تعین ہونا چاہیے۔