شیشہ گر
یہ بات خوش آئند ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو حوالے سے ہماری ایکسپورٹ میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے
بہت سے بحران سہی مگر آگے بڑھ رہے ہیں۔پاکستان کی معیشت ایک سمت پکڑ رہی ہے۔برآمدات میں دو ماہ کے اندر ایک خاطر خواہ اضافہ یعنی پندرہ فیصد کا اضافہ نظر آرہا ہے۔بیس فیصد اضافہ بیرونی ترسیلات میں ریکارڈ کیا گیا ہے، اگر بیرونی ترسیلات میں اضافہ ایسے ہی جاری رہا تو اگلے مالی سال تک بارہ سے تیرہ ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا۔جس کی وجہ سے کرنٹ اکا ؤنٹ خسارہ نہ صرف کم ہوگابلکہ بیرونی قرضے اتارنے کے لیے ایک خطیر رقم بھی میسر ہوگی۔یہ منزل طویل اور راستہ کٹھن۔ہمارے حالات کچھ اس طرح سے ہیں جو میر تقی میر صاحب اپنے الفاظ میں پرو گئے۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا
ریاست اور معیشت اس دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور معیشت ایک سازگار ماحول میں پروان چڑھتی ہے۔ماضی سے لے کر اب تک یہ بات ہمارے سامنے آئی ہے، جب بھی یہاں سیاسی بحران نے جنم لیا، ہماری معیشت متاثر ہوئی۔مگرریاست جس بحران کا اس وقت مقابلہ کر رہی ہے ، اس نے نہ صرف معیشت کو بری طرح متاثر کیا بلکہ ریاست کی ساخت کو بھی خطرے میں ڈالا۔اس وقت ایسا کہنا کہ اس بحران کو پسپا کردیا گیا ہے قبل از وقت ہوگا۔اس بحران کی شدت میں کمی ضرور ہوئی ہے مگر یہ بحران کسی نہ کسی صورت میں ابھر سکتا ہے۔
ہم نے اپنے انسانی وسائل کو جہاد پالیسی میں خرچ کیا، انتہاپسندی کی نرسریوں کی بھینٹ چڑھادیا۔اب جب ہماری پالیسی میں تبدیلی آئی تو ہم نے سمجھا کہ ہم کیا کر رہے تھے؟ایسی کوئی پالیسی ہمارے پڑوسی ممالک نے نہیں اپنائی۔ نہ ہی ہندوستان اور نہ ہی بنگلہ دیش نے اپنے انسانی وسائل کواس طرح استعمال کیا۔ہمارے برعکس انھوں نے اپنے انسانی وسائل کو معیشت کی بہتری کے لیے استعمال کیا۔انکی شرح نمو اوسطا ّ سات فیصد بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں معیشت کی تشریح بھی واضح نہیں ۔ ہم نے اسمگلنگ ، منشیات و غیرہ قانونی اسلحہ کے کاروبار کو اپنی معیشت سمجھا اوران مقاصد کی ترجمانی کرنے والے ریاست اور سیاست میں بڑھ چڑھ کر پیش ہوئے۔ایک مخصوص بیانیے کو پروان چڑھایا گیا۔فتوؤں کا بازار گرم کیا گیا، کسی کو پرکھنے کا پیمانہ یا تو غدار تھا یا پھر محبِ وطن!جو تنقید کرتے وہ کیمونسٹ کہلاتے یا پھر سوویت یونین کے ایجنٹ اور جو ''سرقلم کردو'' کے طبل بجاتے ، افغانستان میں Strategic Depth کی بات کرتے، افغان مذہبی سیاسی شخصیات اور ان کے لڑاکو مجاہدین کہتے، وہ محب ِ وطن۔
ہمارے ملک میں جس طرح کی ذہن سازی کی گئی خاص کر ہماری نوجوان نسل کی۔ ہمارے ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کی اوسط عمر تیس سال ہے ،اس طرح ہم دنیا کی نوجوان قوم میں شمار ہوتے ہیں جو معیشت کو پروان چڑھانے کے لیے بنیادی ستون کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کا استعمال اس ملک کی معاشی ترقی کے لیے نہ ہو سکا۔جاپان، چین اور یورپ اسوقت معاشی بحران کا سامنا صرف اس لیے کر رہے ہیںکہ انکی آبادی کی اکثریت نوجوان نسل نہیں ۔
نوجوان کے معنی ہیں تعلیم یا پھر کام میں مصروف رہنا۔ہماری بجٹ کا کتنا حصہ اس قوم کے نوجوانوں کی تعلیم پر مختص کیا جاتا ہے؟یہاں پر ایک مثال ہم دے سکتے ہیں سندھ حکومت کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جس کو ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے کرپٹ ترین محکمہ قرار دے دیا۔پرائمری اسکول نہ ہو نے کے برابر ہیں اور اگر ہیں تو وہ تعمیری لحاظ سے زبوں حالی کا شکار ہیں۔لگ بھگ اسی لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں اور جو لاکھوں کی تعداد میں اساتذہ ہیںوہ گھوسٹ اساتذہ ہیں جو اپنی ڈیوٹی پر آنے کی زحمت ہی نہیں کرتے اور ایسی ہی صورتحال کم وبیش تمام صوبوں کی ہے۔
انسانی وسائل یا پھر ایک فرد کا اولین یا اہم ترین کام ہے، کسی ہنر سے آراستہ ہونا اور پھر اسی ہنر کو اپنا پیشہ بنا کر روزی کمانا اور اس ہنر کو اپنا ذریعہ معاش بنانا۔اس کے برعکس یہاں اکثریت نوجوانوں کو بہتر تعلیم نہ مل سکی، جو چھوٹے بڑے کام وہ مارکیٹ میں کرتے ہیں اور اپنے کنبے کا پیٹ بھرتے ہیں جو مہنگائی کی وجہ سے اس قدر ناکافی ہے کہ ان کے ذہن میں ایسے منفی خیالات تو ابھرتے ہونگے کہ محنت کرکے کمانے کی بجائے کیوں نہ وہ کوئی غیر قانونی کاروبار کرکے اپنا گزارہ کرے۔
بہ حیثیت ریاست ہمیں اسوقت معیشت سمجھنے کی انتہائی ضرورت ہے۔ایسا وقت آچکا ہے کہ پوری دنیا ایک نئے سسٹم میں داخل ہو رہی ہے۔آرٹیفشل انٹیلی جنس نے دنیا میں دھوم مچادی ہے اور اس نئے سسٹم میں ایسی ہی ریاست کامیاب ہو گی جس کے پاس بھرپور ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر ہوگا۔یہ بات خوش آئند ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو حوالے سے ہماری ایکسپورٹ میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔بس ایک ہی ایسا دریچہ کھلا ہے جہاں کبھی اچھی خبر سننے کو مل جاتی ہے۔اسی شعبے میں ہمارے نوجوان ترقی کرکے ، اس شعبے کو اپناذریعہ معاش بنا کر ملک کو اربوں ڈالر کما کر دے سکتے ہیں۔
آج سے پندرہ سال پہلے بنگلہ دیش نے اپنی گارمنٹ انڈسٹری کو مضبوط بنا کر اپنی خواتین کو روزگار دیکر ان کو معاشی طور پر با اختیار بنایااورآج بنگلہ دیش میں انکی گارمنٹ کی صنعت لگ بھگ تیس ارب ڈالر ذرِ مبادلہ کی مد میں کما کر دیتی ہے۔اسکے برعکس پاکستان میں بجلی اسقدر مہنگی ہے کہ اگر ہم صنعتوں کا جال بچھانا بھی چاہیں تواس پر لاگت دہری پڑ جاتی ہے اور ہم اپنی گارمنٹ یا پھر دوسری صنعتی مصنوعات بین الاقوامی مارکیٹوںنہیں بیچ سکتے۔ ایسی تمام باتیں ثانوی ہوجاتی ہیں جب ملک کو بحران کا سامنا ہو۔ہمیں اس سیاسی اور معاشی بحران سے نکلنا ہوگا۔اسکے بعد جو بھی ترجیحات ہیں، ان پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھے کر کے بٹھانا ہوگا تاکہ مستقبل کا درست طور پر تعین کرکے اور انھیں بنیادوں پر ایک مارکیٹ بیسڈ پالیسی ترتیب دی جائے۔
آزادی کے ستتر سال بعد ہم آج ایک نئے موڑ پر کھڑے ہیں۔اب یہ ملک اس طرح سے نہیں چل سکتا۔لگ بھگ سو ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے، آئی ٹی سروسز اور ترسیلات کی مد میں۔آنے والے دس سالوں میں ایسا ہونا ممکن ہے مگر اس سمت میں ایک جامع سیاسی اور معاشی حکمت عملی بنانی ہوگی۔ان ستتر سالوں میں ہم نے نا انصافیوں کی تمام حدیں پار کرلی ہیں، وہ انصافیاں چاہے عورتوں کے حقوق کے لیے ہوں، اس ملک کی عوام کے بنیادی حقوق کے لیے ہوں، انھیں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہوں، ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کے لیے ہوں یا پھر صوبوں کے ساتھ ہوں اور خاص کر بلوچستان کے ساتھ۔جب کہ انھیں ناانصافیوں کی بنیاد پر ہم 1971 میں بہت بڑے سانحے سے گزر چکے ہیں۔اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے تمام راستے انصاف، آئین و قانون کی بالادستی ، ایک مضبوط بیانیے اور غیر مسخ شدہ تاریخ سے نکلتے ہیں کیونکہ ریاست کو چلانا کسی اناڑی کا کام نہیں بلکہ خود ایک شیشہ گر کا کام ہے۔