سرکاری اخراجات کنٹرول کرنے کا مسئلہ

وفاقی وزارت خزانہ کے نوٹیفکیشن میں جو کچھ بتایا گیا ہے، وہ درست سمت میں اٹھایا گیا ایک قدم ہے


Editorial September 08, 2024

وفاقی حکومت جب سے قائم ہوئی ہے، تب سے وہ غیرضروری اخراجات کنٹرول کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف بھی اس حوالے سے اپنی تجاویز پیش کر چکا ہے۔ اگلے روز وزارت خزانہ نے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس کے مطابق سرکاری اخراجات کنٹرول کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے کچھ فیصلے کیے ہیں، اس نوٹیفکیشن کے مطابق وفاقی حکومت نے نئی گاڑیاں و دیگر سازو سامان کی خریداری کے علاوہ سرکاری خرچے پر بیرون ملک علاج اور غیر ضروری دوروں پر پابندی عائد کردی ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق یہ پابندی حکومت کی کفایت شعاری کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے لگائی گئی ہے تاہم اس پابندی کا اطلاق ایمبولینسز، فائرفائٹنگ گاڑیوں، اسکول بسوں، سالڈ ویسٹ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی خریداری پر نہیں ہو گا، اسپتالوں، لیبارٹریز، زراعت، کان کنی اور تعلیمی اداروں میں استعمال ہونے والا ساز و سامان بھی اس پابندی سے مستثنیٰ ہو گا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق نئی پوسٹوں کے اجراء اور عارضی پوسٹوں پر بھی پابندی ہو گی، تین سال سے خالی آسامیاں ختم کر دی جائیں گی، تاہم پی ایس ڈی پی کے تحت جاری منصوبوں کے لیے سامان کی خریداری اور عارضی پوسٹوں پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہو گا۔

وفاقی وزارت خزانہ کے نوٹیفکیشن میں جو کچھ بتایا گیا ہے، وہ درست سمت میں اٹھایا گیا ایک قدم ہے۔ ابھی اس حوالے سے مزید کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی حکومت جب مختلف قسم کی پابندیاں عائد کرتی ہے تو اس میں بہت سے چونکہ چنانچہ اور اگرمگر کی گنجائش چھوڑ دی جاتی ہے۔ پاکستان میں سرکاری خزانے کا بے جا استعمال ان اگرمگر اور چونکہ چنانچہ کی وجہ سے جاری رہتا ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ وزارت خزانہ کے نوٹیفکیشن میں جن جن شعبوں کو استثنیٰ دیا گیا ہے، کیا ان کی ڈیمانڈز اور ضرورت حقائق پر مبنی ہے۔ اس کی پڑتال کیسے کی جائے گی اور اگر کسی چیز کی امپورٹ کی اجازت ملتی ہے اور وہ بیرون ملک سے امپورٹ کر لی جاتی ہے، لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ اس میں کوئی ہیرپھیر نہیں ہوا ہو گا۔

پاکستان کو جہاں غیرضروری اخراجات کم کرنے ہیں، وہاں ایسے محکموں کا بھی جائزہ لینا ہے، جو قانونی وجود تو رکھتے ہیں لیکن وہ غیرفعال ہیں یا ان کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر بڑے شہروں کے میونسپل اداروںکا اسٹرکچرل اور انتظامی نیٹ ورک کی فعالیت کو چیک کرنا اور یہ دیکھنا کہ میونسپلٹی کے اداروں کے ملازمین کام بھی کر رہے ہیں یا نہیں۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ بہت سی اتھارٹیز قائم کر کے میونسپل کارپوریشنز کے مختلف کام ان کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ جیسے سالڈ ویسٹ، گلیوں اور شاہراہوں کی صفائی کا کام، پارکنگز کا نظام، باغات اور شجرکاری وغیرہ کا کام وغیرہ کارپوریشن سے الگ کر کے اتھارٹیز کے سپرد کر دیا گیا ہے۔

یوں دیکھا جائے تو میونسپل کارپوریشنز ایک ایسا مریض بن گیا ہے جو وینٹی لیٹر پر پڑا محض سانس لے رہا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایسی صوبائی اور وفاقی وزارتیں ہیں جو محض بیوروکریٹس کو کھپانے کے لیے بنائی گئی ہیں، ایسی وزارتوں میں سیاسی بھرتیاں ہوتی ہیں۔ اگر سیاسی حکومتیں ہیں تو وہ مختلف ایم این ایز یا ایم پی ایز کو کھپانے کے لیے ایک وزارت کو کئی وزارتوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ جیسے پنجاب میں ایلیمنٹری ہیلتھ کے لیے ایک وزیر ہے جب کہ بڑے اسپتالوں کی نگرانی اور دیگر کاموں کے لیے ایک الگ وزارت صحت ہے۔

یہی کچھ وزارت تعلیم میں ہو رہا ہے۔ پنجاب میں محکمہ ٹرانسپورٹ موجود ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سرکاری شعبے میں ٹرانسپورٹس موجود ہی نہیں ہیں۔ اب محکمہ ٹرانسپورٹ کے افسران اور ملازمین کیا کام کرتے ہیں، کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ اسی طرح دارالحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی ادارے بھی موجود ہیں لیکن وہاں زمین کی خرید وفروخت اور رہائشی اسکیمیں سی ڈی اے کے پاس ہیں۔ سی ڈی اے کسی وزارت ہاؤسنگ کے تحت کام نہیں کرتی بلکہ وزارت داخلہ کے انڈر ہے۔

اب اسلام آباد میں بلدیاتی ادارے کیا کرتے ہیں، یہ بھی سوچنے والی بات ہے۔ اسی طرح محکمہ زراعت اور خوراک ایک ہی وزارت ہوا کرتی تھی۔ اب یہ بھی الگ الگ ہے۔ ظاہر ہے جتنے محکمے ہوں گے، اتنے ہی زیادہ افسروں کی بھی ضرورت ہو گی اور ماتحتوں کی بھی۔ محکمہ آثار قدیمہ کو ہی لے لیں۔ کم از کم لاہور میں تو والڈ سٹی کے نام سے ایک الگ ادارہ بنا دیا گیا ہے۔ جو کام محکمہ والڈ سٹی کر رہا ہے، کیا محکمہ آثار قدیمہ یہ نہیں کر سکتا۔ اور اب محکمہ آثار قدیمہ کی کارکردگی کا اندازہ لگانا ہو تو تاریخی مقامات کا دورہ کر کے لگا سکتے ہیں۔

ایک وزارت کا نام وزارت بہبود آبادی بھی ہے۔ اب اس وزارت کا کام سوائے بروشرز وغیرہ اور کتابچے چھاپنے کے اور کچھ نہیں ہے۔ اس کے لیے بھی ایک وزیر رکھا جاتا ہے، سرکاری افسر رکھے جاتے ہیں اور ان افسروں کے ماتحت سرکاری ملازم رکھ لیے جاتے ہیں۔ اسی طرح صوبائی سطح پر ایک محکمہ لائف اسٹاک ہے۔ یہ محکمہ بھی زیادہ تر کتابچے چھپوانے کا کام کرتا ہے۔ محکمہ جنگلات کی کارکردگی کا ثبوت ہمارے جنگلات کا کم ہوتا ہوا رقبہ ہے۔

اب ضلعی سطح پر گیمز وارڈنز بھی تعینات ہیں۔ جنگلی حیات کے تحفظ کا بھی ڈیپارٹمنٹ ہے لیکن جنگلی حیات کا کتنا تحفظ ہو رہا ہے، یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزارت سیاحت بھی ہے حالانکہ پاکستان میں جتنی سیاحت ہوتی ہے، اس کے لیے کسی محکمے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ملازمین کی فہرست دیکھیں تو یہ تعداد سیکڑوں ہزاروں میں ہے۔ اسمبلیوں میں پروٹوکول افسروں کی بھرمار ہے۔

اس کے علاوہ دوسرا بے شمار عملہ ہے، ان سب کو تنخواہیں سرکاری خزانے سے ملتی ہیں۔ یہ سب محترم اسپیکر صاحبان کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ ایوان صدر، ایوان وزیراعظم، گورنر ہاؤسز، وزرائے اعلیٰ کی رہائش گاہوں، اسٹیٹ گیسٹ ہاؤسز اور سینیٹ کے افسروں اور ملازمین کی تعداد کا شمار کریں تو یہاں بھی تعداد ہزاروں میں ہو گی۔

یہ لوگ کیا کام کرتے ہیں، عام آدمی کو اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ ان کے حوالے سے قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں کبھی بحث بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی اخراجات کا تخمینہ اسمبلیوں میں زیربحث آتا ہے۔ یہ تو صرف ٹپ آف دی آئس برگ ہے۔ سرکاری اللوں تللوں کا تو شمار ہی کوئی نہیں۔ اب بھی وفاقی حکومت اور وزارت خزانہ نے جو پابندیاں عائد کی ہیں، اس سے قبل بھی کئی حکومتیں اس قسم کے اعلانات اور نوٹیفکیشنز جاری کرتی رہی ہیں لیکن اخراجات ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔

جب تک عوام کے منتخب نمائندے، اپنی نمائندگی کا حق ادا کرنے پر تیار نہیں ہوں گے، اس وقت تک غیرضروری اخراجات میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ جب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے دعویدار ارکانِ اسمبلی اپنے استحقاق، اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے سوا کوئی اورکام کرنے پر تیار نہ ہوتے ہوں تو بیوروکریسی، اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اور فوجی افسران اپنی مراعات اور تنخواہیں کم کرنے پر کیسے تیار ہوں گے۔

پاکستان کا محکمہ شماریات ایک تو ہر ہفتے مہنگائی کا تخمینہ لگاتا ہے اور پھر ششماہی اور سالانہ رپورٹ بھی مرتب کرتا ہے۔ اس ادارے کی رپورٹوں کے مطابق مہنگائی کم ہوئی ہے جب کہ افراطِ زر بھی کم ہوا ہے۔ لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ بجلی کے نرخوں میں پونے دو روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے اور اب حتمی وفاقی حکومت نے اس پر حتمی فیصلہ کرنا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ پاکستان میں بجلی، گیس اور توانائی کے دیگر ذرائع کی قیمتیں پہلے ہی خاصی زیادہ ہیں۔

ادھر سینیٹ کے اجلاس میں وزارت سمندر پار پاکستانیز نے بتایا کہ سال 2019 سے اگست 2024 تک تقریباً 33 لاکھ پاکستانیوں کو بیرون ملک بھیجا گیا ہے، بیرون ملک پی ایچ ڈی مطالعوں کے لیے کل 3 ہزار ایک اسکالرز گئے تھے،ایک ہزار 126 اسکالرز تعلیم مکمل کرچکے، 1810 زیر تعلیم ہیں،بیرون ملک جانے والے 65 اسکالرز مطالعہ مکمل کرنے کے بعد واپس نہیں آئے۔

واپس نہ آنے والے اسکالرز سے بطور جرمانہ 11 کروڑ 32 لاکھ روپے وصول کیے جاچکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سرکاری ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ سرکاری افسران طویل چھٹیاں لے کر بیرون ملک چلے جاتے ہیں، ان کے بچے پہلے ہی ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ بیرون ملک طویل چھٹیاں گزار کر آتے ہیں، وہاں گرین کارڈ، مستقل رہائش یا ملٹی پل ویزے لگوا کر پاکستان میں دوبارہ آ کر افسری کرنے لگتے ہیں۔

ایسی ایک نہیں، ہزاروں بلکہ لاکھوں مثالیں پاکستان میں موجود ہیں۔ بیوروکریٹس، نظام انصاف اور دیگر ریاستی اور آئینی اداروں کے افسران کے خاندان امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، جرمنی، اسپین اور فرانس میں رہ رہے ہیں لیکن وہ پاکستان میں حکمرانی کا مزہ لے رہے ہیں۔ جب تک اس سلسلے کو بند نہیں کیا جائے گا، پاکستان میں سیاست اور معیشت دونوں ٹھیک نہیں ہو سکتیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔