افواج پاکستان کے عزم کو سلام
وطن عزیز کے کروڑوں امن پسند شہریوں کی طرح ہماری بھی دلی دعا اور خواہش یہی تھی
وطن عزیز کے کروڑوں امن پسند شہریوں کی طرح ہماری بھی دلی دعا اور خواہش یہی تھی کہ دہشت گردی کے خاتمے کی کوئی راہ عافیت نکل آئے۔ اسی لیے ہم نے امن مذاکرات کی کامیابی سے بڑی زبردست توقعات وابستہ کی ہوئی تھیں اور ہمیں اس مبارک دن اور گھڑی کا شدت سے انتظار تھا کہ یہ خوش خبری سننے کو ملے کہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوگئے ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہماری تمام خوش فہمیوں اور نیک خواہشات پر پانی پھر گیا اور پرامن مذاکرات کے سلسلے کو کسی کی نظر بد کھا گئی اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات کی صورت میں برآمد ہوا۔ معلوم نہیں وہ کون سی نادیدہ قوتیں ہیں جو پرامن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے درپے تھیں۔
مثل مشہور ہے کہ گھی اگر سیدھی انگلیوں سے نکل آئے تو اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں۔ ورنہ تو پھر اسے ٹیڑھی انگلیوں ہی سے نکالنا پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نہ صرف حکومت بلکہ پوری قوم کی یہی خواہش تھی کہ تمام معاملات باہمی گفت و شنید اور افہام و تفہیم سے مذاکرات کی میز پر طے پا جائیں۔ عوام کی اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے حکومت نے اپنی جانب سے انتہائی ضبط و تحمل کا ثبوت دیتے ہوئے صلح و آشتی کی پیش کش کی اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا حالانکہ ملک کے بعض حلقوں کو اس پالیسی سے اختلاف تھا جب کہ بعض حلقوں کے اس معاملے میں تحفظات تھے۔
مگر حکومت نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے مذاکرات کی راہ اختیار کرنے کو ہی ترجیح دی۔ مذاکرات کے آغاز میں دوسرے فریق کی جانب سے بھی کچھ اس طرح کے اشارے مل رہے تھے کہ شاید یہ بیل منڈھے چڑھ جائے گی۔ مگر شاید دوسری جانب سے اسے حکومت کی کمزوری سے تعبیر کیا گیا یا پھر مخالف قوتوں نے مذاکرات کے دوسرے فریق کو گمراہ کن مشورے دے کر راہ راست سے ہٹا دیا۔ واللہ عالم۔ وجوہات چاہے جو بھی ہوں، انجام کار مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔
فارسی کی ایک کہاوت ہے کہ تنگ آمد بہ جنگ آمد۔ چنانچہ حکومت کے پاس اس کے سوائے اور کوئی اپائے باقی نہیں رہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہتھیار اٹھانے کا وہ راستہ اختیار کرے جو وہ نہیں چاہتی تھی۔ دنیا جانتی ہے کہ حکومت کو یہ اقدام بادل نا خواستہ کرنا پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں اسے پوری قوم کی مکمل اور بھرپور اخلاقی حمایت حاصل ہے۔ آخر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ امن عامہ کا قیام اور عوام کی جان کا تحفظ حکومت کی سب سے بڑی آئینی ذمے داری ہے۔ جو حکومت لوگوں کی جان و مال کی حفاظت نہ کرسکے اسے حکمرانی کا نہ تو قانونی حق حاصل ہوتا ہے اور نہ اخلاقی۔ لہٰذا حکومت کے پاس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مسلح کارروائی کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار باقی نہیں تھا۔ حکومت نے یہ قدم بہ حالت مجبوری ملک کی بقا و سلامتی اور عوام کے وسیع تر مفاد میں اٹھایا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک کے حالات سے عوام کو شدید تشویش لاحق ہے جس میں بیرون ملک مقیم وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جو دن بہ دن محنت کے ذریعے اور اپنا خون پسینہ ایک کرکے وطن عزیز کے خزانے کو بیش قیمت غیر ملکی زر مبادلہ سے بھرنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان ان کی توجہ کا مرکز ہی نہیں بلکہ ان کی جان ہے۔ چونکہ میڈیا نے زمین کی طنابیں کھینچ کر دکھ دی ہیں چنانچہ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی اپنے ملک کے بارے میں پل پل کی خبروں سے باخبر رہتے ہیں۔ ہم اس بات کے عینی شاہد ہیں۔جس وقت کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا اس وقت ہم مسقط میں تھے۔ جس وقت اس حملے کی خبر وہاں پہنچی تو بہت سے لوگ سو چکے تھے اور بعض سونے کی تیاری کر رہے تھے۔
یقین کیجیے کہ اس سنسنی خیز اور ہولناک خبر نے تمام پاکستانیوں کی نیندیں اڑا دیں۔ خوف اور تشویش سے سب کے چہرے فق ہوگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی۔ جن لوگوں نے وطن عزیز جانے کے لیے رخت سفر باندھا ہوا تھا ان کی حالت ناقابل بیان تھی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ سب کے سب غیر یقینی کا شکار تھے۔ مسقط کے مقامی اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر شایع ہوئی جس سے پاکستان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا اور خواہ مخواہ کی رسوائی اور جگ ہنسائی ہوئی۔
دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والوں کو بھی کم سے کم اتنا احساس تو ضرور ہونا چاہیے کہ پاکستان کے دم سے ہی ان کا بھی وجود قائم و دائم ہے۔ ہمارے منہ میں خاک۔ اگر خدانخواستہ وطن عزیز کے وجود کو ہی کوئی زک پہنچتی ہے تو پھر کسی کا بھی کوئی ٹھکانہ باقی نہیں رہے گا۔ اپنے وطن کو کسی بھی صورت کوئی نقصان پہنچانا ایسا ہی ہے جیسے جس شاخ پر ہم بیٹھے ہوئے ہوں اور اسی کو کاٹ بھی رہے ہوں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب شاخ ہی باقی نہ رہے گی تو آشیانہ کہاں رہے گا؟
بہرحال ملک میں دہشت گردی کے ہمیشہ کے لیے خاتمے اور امن و امان کے قیام کے لیے شروع کیا گیا آپریشن ضرب عضب اپنے انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ دریں اثنا افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے اپنے حالیہ دورہ وزیرستان کے دوران اپنے خطاب میں واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جائے گا اور انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نشان عبرت بنایا جائے گا۔ جنرل راحیل شریف نے فوجی آپریشن میں شامل تمام افسران اور جوانوں کی زبردست حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں ہدایت کی کہ مقامی اور غیر ملکیوں سمیت تمام دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک تمام دہشت گردوں کا پورے ملک میں تعاقب کیا جائے گا۔
انھوں نے افسروں اور جوانوں کی ہمت اور جرأت مندی کی بھی تعریف کی اور کہا کہ عوام کی بھرپور حمایت و تعاون سے ہم انشاء اللہ پاکستان کو بہت جلد دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلا دیں گے۔ آرمی چیف نے ریاست کی رٹ کی بحالی کے لیے آپریشن کے متاثرین کی قربانیوں اور ہمت کو بھی سراہا اور کہا کہ ملک بھر سے آئی ڈی پیز کے لیے ملنے والی زبردست امداد بھی قابل تحسین ہے۔ انھوں نے اس عزم کو دہرایا کہ فوج اپنے قبائلی بھائیوں کو آزمائش کی اس گھڑی میں اکیلا نہیں چھوڑے گی اور انھیں ریلیف پہنچانے کے کام میں حکومت اور دیگر اداروں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گی۔
اس میں شک نہیں کہ وطن عزیز کی بقا و سلامتی کے لیے افواج پاکستان نے ہمیشہ بڑا زبردست کردار ادا کیا ہے۔ پاک افواج کو اس وقت جو چیلنج درپیش ہے وہ بھی کچھ کم اہم اور مشکل نہیں ہے لیکن قوم کو اپنی فوج کی ہمت اور جرأت اور حب الوطنی کے جذبے پر پورا اعتماد اور اسے پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے وہ اس چیلنج سے بھی کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہوکر دکھائے گی۔
بلاشبہ اپنی نوعیت کی یہ انتہائی مشکل مہم ہے مگر یہ بات بھی نہایت امید افزا ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ پوری پاکستانی قوم وطن عزیز کی بقا و سلامتی کی خاطر اپنے شیر دل فوجی افسران اور جوانوں کی پشت پر کھڑی ہوئی ہے۔ جہاں تک پاکستانی فوج کا تعلق ہے تو اسے جو ذمے داری سونپی گئی تھی اس نے اسے پورا کردکھایا ہے آگے حکومت کا کام ہے کہ وہ بھی اپنا کردار اسی طرح احسن طور پر ادا کرکے دکھائے اور یہ ثابت کردے کہ واقعی اس کے نزدیک ملک و قوم کا مفاد تمام سیاسی اور گروہی مفادات سے مقدم ہے۔