فلسطین انسانی حقوق کے علمبردارکہاں ہیں
اب تو امریکا سمیت کئی ممالک بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کرچکے ہیں
غزہ میں اسرائیلی بربریت کوگیارہ ماہ مکمل ہوگئے ہیں لیکن فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔میڈیا کی اطلاعات کے مطابق مزید 61 فلسطینیوں کو قتل کیا گیا ہے۔ادھر برطانیہ اور امریکا کی انٹیلی جنس سروسزکے سربراہوں نے خبردارکیا ہے کہ اس وقت ورلڈ آرڈر اس حد تک خطرے میں پڑگیا ہے، جس کا سرد جنگ کے بعد کبھی مشاہدہ نہیں کیا گیا۔
اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف کا خوف ہے، نہ اقوام متحدہ کا۔ روس، چین اور ایران کا بھی اسے کوئی ڈر نہیں ہے ۔ اسرائیل گیارہ ماہ سے مسلسل غزہ میں آگ اور خون کا کھیل کھیل رہا ہے اور فلسطینوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔لیکن دنیا خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ امریکا اور مغربی یورپی ممالک کی قیادت ڈبل گیم کھیل رہی ہیںجب کہ اوآئی سی ، عرب لیگ سوائے بیانات جاری کے عملاً غیرفعال ہیں۔ روس، چین اور ہندوستان اپنے مفادات کے مطابق کبھی آر اور کبھی پار کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔
اسرائیل میں نیتن یاہوحکومت کے خلاف احتجاج ہورہا ہے، عالمی سطح پر ہر ملک کے دانشور اور اہل قلم اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، عوام پورے میں دنیا میں مظاہرے کرچکے ہیں لیکن اسرائیل اپنے منصوبے کے مطابق آگے بڑؑھ رہاہے۔ عالمی قیادت، مسلم حکمرانوں کی غفلت، بے بسی و سنگ دِلی فلسطینیوں کی تباہی کا اصل سبب ہے۔
دنیا کے کسی ملک میں زلزلہ آجائے یا سیلاب یا پھر کوئی اور قدرتی آفت، عالمی برادری مل کر اس کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہے۔ پولیو سمیت پانچ خطرناک بیماریوں کا خاتمہ ہو یا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ، ہر جگہ عالمی تعاون قابل دید ہے لیکن عالمی تنازعات مثلاً فلسطین اور کشمیر پر سب خاموش رہتے ہیں۔ آج حالات یہ ہیں کہ دنیا کے 195آزاد ممالک میں سے صرف 22 ممالک، پاکستان، سعودی عرب، قطر، ایران، ملائیشیا، بنگلہ دیش، لیبیا، لبنان، کویت، افغانستان، عراق، انڈونیشیا، الجیریا، جبوتی، عمان، یمن، تیونس، برونائی، شام، صومالیہ، شمالی کوریا اور کوموروس نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جب کہ 6 ممالک کیوبا، مالدیپ، مالی، موریطانیہ، نائجیریا اور وینز ویلا نے اسرائیل کو تسلیم کر نے کے بعد اپنی حمایت واپس لے لی اور تعلقات ختم یا معطل کردیے۔
انڈوشیا میں مشرقی تیمور کی آزادی کے لیے عالمی برادری نے غیرمعمولی کاوش کی اور چند برسوں میں مشرقی تیمورآزاد ملک بن گیا، اسی طرح جنوبی سوڈان کو بھی جلد آزاد ملک بنا دیا گیا لیکن فلسطین اور فلسلطینی آج بھی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کاش! ایسی پھرتی فلسطین کے نہتے عوام پر اسرائیلی مظالم کے جواب میں بھی نظر آتی۔ سوالات تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن جن سوالات کا پہلے سے ہی علم ہو ان کا کیا پوچھنا۔ آج کا اسرائیل شام، اردن، لبنان کے علاقوں پر بھی قابض ہے۔1947کی فلسطین جنگ اور1967 کی 6 روزہ جنگ سے لے کر 1993کے اوسلو معاہدے تک ذرا ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی مظالم کم ہو ئے نہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاسکی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ مزید ممالک جن میں کچھ اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، نے ناجائز ریاست کو جائز تسلیم کر لیا بلکہ اب تو امریکا سمیت کئی ممالک بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کرچکے ہیں۔ فلسطینیوں پر امداد کے دروازے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔
غزہ کے جنوبی علاقے رفح میں کئی لاکھ فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی ہیں۔ جنگ میں اس علاقے کو سیف زون کہا گیا ہے لیکن اب اسرائیل رفح میں پناہ گزین فلسطینیوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن ایک طرف تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری طرف امریکا سے بھاری اسلحہ اسرائیل کو دیا جارہا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ جو بائیڈن نے کہا کہ اگر اسرائیل نے اب رفح پر حملہ کیا تو اسلحے امداد روک دوں گا، پھر خبر آئی کہ اسرائیل کا زمینی حملے کے خدشے کے پیش نظر امریکا نے اسرائیل کو بارودی امداد کی کھیپ روک دی ہے۔
اس اعلان سے اسرائیل کو امریکا کی طرف سے ملنے والی بارودی امداد میں رتی برابر کمی نہیں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ 2016 میں امریکا اور اسرائیل کے درمیان ہتھیاروں کی فراہمی کے 10 سالہ سمجھوتے پر دستخط ہوئے تھے اور 2028 تک کی مدت کا جو اسلحہ اور بارود ہے وہ پہلے سے ہی پائپ لائن میں موجود ہے۔ ایسے میں امریکا کا اسرائیل کو یہ دھمکی دینا کہ اگر رفح میں شہریوں پر حملہ ہوا تو وہ امداد روک دیں گے، سرا سر جھوٹ ہے۔ ان سب تکلیف دہ خبروں میں فلسطین کے حوالے سے اچھی خبر یہ آئی کہ یورپی ملکوں سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا آغاز ہوگیا ہے۔ناروے، آئرلینڈ اور اسپین نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اسرائیل نے یہاں سے ان ملکوں سے اپنے سفیر بطور احتجاج واپس بلا لیے ہیں، کولمبیا نے مغربی کنارے کے شہر رملہ میں سفارت خانہ کھولنے کا اعلان کیا، بولیویا نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارت تعلقات منقطع کرنا شروع کردیے ہیں۔
اسرائیل اور مصر سختی سے غزہ کی سرحدوں کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ حماس تک ہتھیار نہ پہنچیں۔ دوسری جانب غرب اردن میں بین الاقوامی طور پر مانی جانے والی فلسطینی حکومت ہے جس میں فتح تنظیم کا اہم کردار ہے۔ تاہم غرب اردن غربِ اردن کہلانے والے اس چھوٹے سے علاقے میں 86 فیصد فلسطینی ہیں جب کہ 14 فیصد لوگ اسرائیلی آباد کار ہیں جو ایسی بستیوں میں رہتے ہیں جو ایک دوسرے سے عموماً فاصلے پر موجود ہوتی ہیں۔ زیادہ تر اسرائیلی بستیاں 70، 80 اور 90 کی دہائی میں تعمیر ہوئی تھیں مگر گزشتہ 20 برس میں ان کی آبادیوں میں دگنا اضافہ ہوا۔ اسرائیل ان بستیوں کو پانی اور بجلی جیسی سہولیات فراہم کرتا ہے اور ان کی حفاظت اسرائیل کی فوج کرتی ہے۔
آج مغربی دُنیا خود کو سب سے زیادہ تہذیب یافتہ اور امن کی علم بردار قرار دیتی ہے۔ اقوامِ متحدہ جنگوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز بلند کرتی ہے، جب کہ یونیسیف سمیت یو این او کے دیگر ذیلی ادارے خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کے نام پر بے تحاشا رقم خرچ کرتے ہیں، لیکن غزہ میں قتل عام بھی جاری ہے۔ فلسطینی باشندوں پر وحشیانہ بم باری کے علاوہ اسرائیلی فوج بھی مظالم کے پہاڑ توڑنے میں مصروف ہے۔ اسرائیلی فوجی آئے روز نہتے، معصوم فلسطینیوں کے گھروں میں زبردستی داخل ہو جاتے ہیں اورگھروں میں گُھس کر توڑ پھوڑ کے علاوہ خواتین، بچوں اور بزرگوں کو زدو کوب بھی کرتے ہیں۔
اس اشتعال انگیزی سے اسرائیل نے ایک ایسے خود مختار ملک کو اس جنگ میں ملوث کیا ہے جو مشرق وسطیٰ کی جنگ میں براہ راست فریق نہیں ہے۔ کئی سرحدی تنازعات اور بھاری فوجی موجودگی والے علاقوں کی وجہ سے اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کی سرحدوں پر حالیہ پرتشدد واقعات سے قبل ہی کشیدگی پائی جاتی تھی۔ اب جب کہ امریکا نے بھی اس خطے میں اپنی عسکری قوت بڑھا دی ہے، چیلنج یہ ہے کہ اسرائیل اور حماس کے اس تنازع کو ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہونے سے روکا جائے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع کے موجودہ حالات کو سمجھنے کے لیے جب بھی تاریخ کی جانب دیکھا جائے گا تو اس میں پانچ جون 1967 کو شروع ہونے والی جنگ کا تذکرہ لازمی آئے گا۔
معصوم لڑکوں اور نوجوانوں کو کسی جُرم کے بغیر ہی گرفتار کرلیتے ہیں اور اُن پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ اسرائیل کے ان انسانیت سوز مظالم پر پاکستان سمیت پوری دُنیا سراپا احتجاج ہے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس سمیت دُنیا بھر سے فلسطینیوں کی حمایت میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود فیصلہ ساز عالمی قوتوں کا ضمیر مستقلاً سویا ہوا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نکالا جائے کیونکہ اسرائیل نے نسل کشی کے گھناؤنے اقدامات کے بعد فلسطینیوں کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ موجودہ صورتحال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا، ساری دنیا کی مشترکہ ذمے داری ہے کیونکہ اسرائیل سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔
عام شہریوں، آبادیوں، اسپتالوں، صحافیوں کو نشانہ بنانا کھلم کھلا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہے، اگر اسرائیل کی دہشت گردی کو نہ روکا گیا تو فلسطین کے بعد اردگرد کے دوسرے ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔دنیا کی بڑی اور اثرو رسوخ رکھنے والی حکومتوں کا اس وقت اسرائیل پر دباؤ ڈالنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کرے اور وہاں موجود شہریوں کے لیے آنے والی بیرونی امداد کا راستہ نہ روکے، اگر فلسطینیوں کی جاری نسل کشی نہ روکی جا سکی تو یہ انسانیت کی ناکامی ہوگی۔