یوم بحریہ اور راج شاہی گن بوٹ

جنگ ستمبر میں بھارتی بحریہ کی ناکہ بندی توڑنے والی پی این ایس راج شاہی نے لازوال داستان رقم کی


آفتاب خان September 09, 2024
پی این ایس راج شاہی آج بھی پاک بحریہ کے بیڑے میں شامل اور مکمل طور پر متحرک ہے۔ (فوٹو: فائل)

8 ستمبر کو یوم بحریہ کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کا مقصد 65 اور 71 کی پاک، بھارت جنگوں کے دوران شہدا اور غازیوں کی جرأت و بہادری کی لازوال داستانوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔


تاریخ کے دریچوں میں 71 کی پاک، بھارت جنگ میں بھارتی بحریہ کی ناکہ بندی توڑنے والی پی این ایس راج شاہی کی لازوال داستان رقم ہے۔


آج سے 53 سال قبل پاکستان نیوی کے جنگی بیڑے میں شامل پی این ایس راج شاہی پر سوار عملے کی نامساعد حالات کے دوران انسانی جانوں کے تحفظ کی طویل جدوجہد تاریخ کے اوراق میں زندہ و جاوید ہے۔ 2 طیارہ شکن توپوں کی حامل برطانوی ساختہ جنگی بوٹ نے 71 کی جنگ کے دوران چٹاگانگ (سابق مشرقی پاکستان) سے پیننگ پورٹ (ملائیشیا) تک نہ صرف بھارتی بحریہ کا ناکہ توڑا، بلکہ 1496میل کا سمندری فاصلہ طے کیا۔ پاک بحریہ کی جنگی کشتی میں نیوی کے 43، پاکستان ایئر فورس کے 2 اور قومی ایئر لائن کا ایک افسر سوار تھا۔ اس دشوار گزار اور انتہائی پیچیدہ مشن کے دوران راجشاہی نے بارودی سرنگوں کے طویل علاقے پر پھیلے حصار کو عبور کیا۔



سابقہ مشرقی پاکستان کی آبی گزرگاہوں کی حفاظت کے سبب برطانوی ساختہ جنگی کشتی راج شاہی 8 مارچ 1966 میں پاک بحریہ کے بیڑے میں شامل کی گئی، جس پر 2 عدد طیارہ شکن توپیں نصب تھیں۔ 71 کی جنگ میں جب بھارت نے پاکستانی حدود میں مہم جوئی شروع کی تو اس وقت یہ گن بوٹ کلیدی کردار کی حامل ٹھہری۔ دوران جنگ جب بھارت سے تربیت یافتہ مکتی باہنی نے 1971 کے اوائل میں (ماہ اپریل) ایک اہم قصبے باڑھی سیال پر قبضہ کیا، تو اس کو چھڑانے کےلیے ایک آپریشن کی شروعات کی گئی۔ اس مشن کی تکمیل کےلیے پاک بحریہ نے بری افواج کو راجشاہی کے ذریعے جنگی علاقے میں پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا۔


اس آپریشن کے دوران راج شاہی فائرنگ کی زد میں آئی جس کے باعث کمانڈر لیفٹیننٹ اے کیو خان شدید زخمی ہوئے۔ شام ڈھلنے سے ذرا پہلے پاک افواج نے باڑھی سیال پولیس اسٹیشن پر مکتی بانی سے قبضہ چھڑایا۔ اس مشن میں راجشاہی کے ذریعے ساحلی جیٹیز کو کلیئر کیا گیا۔


مشرقی پاکستان میں بھارتی فروگ مین ٹریننگ کے بعد مکتی باہنی کے کومبیٹ سوئیمرز کے پاکستانی کشتیوں، لانچوں اور چھوٹے حجم کے بحری جہازوں پر حملوں کے تدارک میں پی این ایس راجشاہی دوران جنگ انتہائی کارآمد ثابت ہوئی۔


پاک، بھارت جنگ کے دوران راج شاہی بیتے کئی ماہ کے دوران افواج پاکستان کی معاونت کےلیے مختلف مشنز پر برسرپیکار رہی، تاہم پاکستان کے دولخت (سقوط ڈھاکہ) ہونے کے بعد کپتان سکندر حیات خان کی قیادت میں 16 اور 17 دسمبر کی درمیانی شب راج شاہی چٹاگانگ پورٹ سے روانہ ہوئی۔ گن بوٹ میں نیوی کے 43، پاکستان ایئر فورس کے 2 جبکہ قومی ایئرلائن پی آئی اے کا ایک افسر سوار تھا۔ چٹاگانگ سے ملائیشیا پیننگ پورٹ تک کا مجموعی فاصلہ 1496 سمندری میل کا ہے۔ گن بوٹ راجشاہی نے رات کے وقت سمندر میں جابچا بچھے بارودی سرنگوں کے حصار کو عبور کیا۔



واپسی کے اس سفر کے دوران دشمن ملک کی آبی و فضائی افواج کے ممکنہ حملوں سے بچنے کےلیے صوتی رابطوں کو مکمل طور پر ساکت رکھا گیا۔ 96 گھنٹوں پر محیط یہ سفر کسی بہت بڑی آزمائش سے کسی طرح بھی کم نہیں تھا، کیونکہ تاحد نگاہ پی این ایس راج شاہی موجوں کے رحم وکرم پر تھی، جبکہ قرب و جوار اور بالا فضاؤں میں بھارتی نیوی اور ایئر فورس کے جنگی اثاثے کسی عفریت کی مانند منہ کے دہانے کھولے کھڑے تھے۔


چار دن اور راتوں پر محیط یہ صبر آزما اور اعصاب شکن سفر اس وقت اختتام پذیر ہوا جب 21 دسمبر 71 کو پی این ایس راج شاہی اپنے افسران، جوانوں اور دیگر مسافروں کے ہمراہ ملائیشیا کی بندرگاہ پیننگ پر لنگر انداز ہونے میں کامیاب ہوگئی۔ جس کے بعد طویل و نامساعد حالات سے گزر کر آنے والے 44 مسافر قومی ایئر لائن کی پرواز کے ذریعے وطن واپس پہنچے۔ جبکہ کمانڈر لیفٹیننٹ سکندر حیات خان گن بوٹ راجشاہی کے 7رکنی عملے کے ہمراہ 10 فروری 1972 کو کراچی بندرگاہ پہنچے۔ لیفٹیننٹ سکندر حیات خان کو اس بہادری کے صلے میں ستارۂ جرأت سے نوازا گیا۔


پی این ایس راج شاہی 58 سال گزرنے کے بعد بھی اپنی شاندار اور درخشندہ تاریخ کے ہمراہ پاک بحریہ کے بیڑے میں شامل اور مکمل طور پر متحرک ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔