معیشت بہتر عوام کو بھی ریلیف دیں

متوسط اور غریب صارف سولر انرجی کی استطاعت نہیں رکھتا، وہ مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہے


Editorial September 11, 2024
(فوٹو: فائل)

اگست کے مہینے میں ترسیلات زر تین ارب ڈالر رہیں، جو کہ گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 40.5 فی صد زیادہ ہے، ایک دوسری خبر میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے پاور سیکٹر کا گردشی قرضوں کے حجم پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ شیئر کردہ پلان میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ مزید ایک سو ارب روپے بڑھے گا۔

دوست ممالک یا بین الاقوامی مالیاتی اداروں یا بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر پر انحصار، پاکستانی معیشت کو بڑی حد تک سہارا فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ بلاشبہ عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹس میں پاکستان کی معاشی صورتحال کو اطمینان بخش قرار دیا گیا ہے اور اس توقع کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ آنے والے سال مزید بہتر ہوں گے۔ ملک میں امن وامان میں بھی بہتری آئی ہے اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔

ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ دوسری طرف ایسے لوگ جو معاشی ماہر کہلاتے ہیں، وہ جب تک حکومت کا حصہ ہوتے ہیں،تب تک سب ٹھیک ہوتا ہے، اگر کسی وجہ سے عہدہ چھوڑنا پڑ جائے تو میڈیا کے سامنے جاکرانکشافات کرتے ہیں کہ معیشت ڈوب چکی ہے، دیوالیہ نکل چکا ہے، کوئی ملک قرضہ دینے کو تیار نہیں، آئی ایم ایف نے بھی انکارکر دیا ہے۔ اس قسم کا رویہ درست نہیں ہے۔

معیشت کو کچھ ساختی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ چیلنج یہ ہے کہ شہریوں کی مالی مشکلات کیسے کم کی جائیں؟ ملک کا درمیانہ اور نچلا طبقہ مہنگائی اور افراط سے سخت متاثر ہے۔ مثلاً ادویات کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے ۔ بجلی اور گیس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ تعلیم یافتہ، ہنر مند اور غیر ہنرمند نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح بھی بلند ترین سطح پر ہے۔ڈاکٹرزاور انجینئرز تک بے روزگار ہیں۔میتھیمیٹکس،کیمسڑی، فزکس جیسے سائنسی مضامین میں ایم فل اورپی ایچ ڈی نوجوانوں کو ملازمتیں نہیں مل رہی ہیں۔

توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ بجلی کے خسارے اور غیر ہدف شدہ سبسڈیز کو دورکیا جا سکے۔ پاکستان کو اپنی برآمدات پر مبنی صنعتوں جیسے کہ ٹیکسٹائل، زراعت اور فارماسیوٹیکلزکی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے ٹیکنالوجی، تحقیق، ترقی اور مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ ملکی پیداوار کو فروغ دے کر اور مقامی صنعتوں کو ترقی دے کر درآمدات کو کم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ اس سے ملک کا درآمدات پر انحصار کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

بڑے بڑے صنعتکار اور کارخانہ دار یا صاحب حیثیت لوگ ٹیکس سے مستثنیٰ سولر انرجی کا سسٹم لگوا کر سسٹم سے آؤٹ ہو چکے ہیں لیکن متوسط اور غریب صارف سولر انرجی کی استطاعت نہیں رکھتا، وہ مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہے۔

کچھ یہی معاملہ بیمار صنعتوں کی نجکاری کا ہے، ادھر ٹیکس وصولی کا یہ عالم ہے کہ 30 لاکھ تاجروں کے ہدف میں سے صرف 200 نے رضاکارانہ طور پر رجسٹریشن کرائی۔ پھر کہا گیا اگر ٹیکس نہیں دیں گے تو نان فائلرز کے پانچ لاکھ سم کارڈز بلاک کر دیے جائیں گے۔ اس پر بھی انکار میں جواب آیا کہ ایسا کرنے میں قانونی قدغنیں ہیں۔ دراصل ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکامی گورننس کی ناکامی ہے۔ جب ایک عام آدمی کی 50 ہزار ماہانہ تنخواہ 10 دنوں میں ختم ہو جاتی ہے، اس سمیت لاکھوں تنخواہ دار ملازمین سے ٹیکس لیا جا سکتا ہے تو پھر ریاست تاجروں سے انکم ٹیکس کیوں نہیں لے سکتی۔

پاکستان جغرافیائی اعتبار سے جس جگہ واقع ہے اس کے اطراف میں آدھی سے زیادہ دنیا بستی ہے۔ چین اور ہندوستان سائنسی اور معاشی ترقی میں پاکستان سے زیادہ ہے۔ ہمارے پاس بے پناہ وسائل ہیں ، پاکستان وسط ایشیاء اور روس کے لیے دروازے ہے، اگر ہم اپنی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان ممالک کی درآمدات کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے اور خاص طور پر ان کا جو دور کے ممالک سے آتی ہیں تو اگر ان میں سے جو ہم بنا سکتے ہیں وہ بنا لیں اور وہ بین الاقوامی معیار پر پورا بھی اترتی ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ سستی لیبر اور کرایہ کی بچت کے ساتھ اچھے معیار کی سستی اشیاء ہم سے نہ خریدی جائیں۔

پاکستان میں بہت سے صنعتی ادارے ہیں جن کو اگر سہولیات دی جائیں اور سپورٹ دی جائے تو وہ مقامی سطح پر وہ مصنوعات تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنھیں ہم درآمد کر کے قیمتی زرمبادلہ ضایع کر رہے ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور شفاف طریقہ کار کے تحت پرائیویٹائزیشن کے عمل سے ہم صنعتی ترقی کے اہداف پورا کرنے کی طرف درست سمت میں بڑھ سکتے ہیں۔ہماری شپنگ انڈسٹری اور بندرگاہوں کا نظام بہت کمزور ہے جنھیں بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ جب معاشی ترقی ہو رہی ہو تو تجارتی خسارہ بھی کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں رہ جاتا۔ امریکا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک پچھلے پچاس سال سے تجارتی خسارے کا شکار ہیں۔ اگر امپورٹ سے آپ کی معاشی گروتھ بڑھتی ہے تو اسے بڑھنے دینا چاہیے۔

قرضے لینے میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ہم قرضوں کو درست طریقے سے خرچ کریں اور معاشی اور صنعتی ترقی کے لیے استعمال کریں۔معاشرے کا تنخواہ دار طبقہ معیشت اور مارکیٹ کو پروان چڑھانے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے جب کہ پے درپے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے تنخواہ دار طبقہ کے لیے اب اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا محال ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ صنعت کاروں پر سپر ٹیکس یا ایکسٹرا ٹیکس لگانے کے بجائے انھیں آزادی سے سی ایس آر ماڈل کے ذریعے فلاحی کاموں پر خرچ کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ دوسری طرف ٹیکس ریفارمز کی بھی بہت ضرورت ہے۔

پاکستان میں اس وقت ٹیکسٹائل کی چار سو سے زائد انڈسٹریز کام کر رہی ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کو مسابقتی رکھنے اور اس شعبے کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ پاکستان کی کل برآمدات میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

دنیا کے تمام بڑے ٹیکسٹائل برانڈز پاکستان میں تیار ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی صنعتی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک مقابلاتی نرخوں پر بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی، جدید صنعتی انفرااسٹرکچر اور مواصلاتی نیٹ ورک، ہنر مند، تجربہ کار ورکرز، جدید بینکنگ، دوستانہ ٹیکس نظام نہ پایا جاتا ہو۔ ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ کیا ہی اچھا ہو اگر صنعتی و معاشی ترقی کے لیے ماضی میں قائم کیے گئے پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن جیسے اداروں کو دوبارہ سے فعال کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانے کی طرف بھی کوئی دھیان دیا جائے۔

پاکستان میں حکومت کا خاطر خواہ ٹیکس ریونیو اکٹھا نہ کرنے کے پیچھے غیر موثر ٹیکس اصلاحات ہیں۔ بہت سے سروس سیکٹرز اور کاروبار آج بھی ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ کاروباری حضرات اور ٹیکس حکام کی ملی بھگت اور سسٹم میں موجود خامیوں کی وجہ ٹیکس چوری ہوتا ہے۔ ٹیکس کے محکمے میں بھی ریفارمز کی شدید ضرورت ہے جس میں نئی بھرتیاں اور ریگولیٹری قوانین سر فہرست ہیں۔

دوسری طرف ملکی خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے بجٹ کے وسائل کی ایک بڑی رقم استعمال کر رہے ہیں، جو کہ ملک خزانے کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی پر بھی اثر ڈالتے ہیں۔ بنیادی طور پر بدعنوانی اور نا اہلی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ان اداروں کی طرف سے اپنی پیداواری صلاحیتوں، استعداد وغیرہ کو بہتر بنانے کے لیے کوئی موثر کوشش نہیں کی جاتی ہے۔

اب بہر طور معیشت کی تجدید کرنا ہو گی، اہم توجہ زراعت اور صنعت پر ہونی چاہیے، ایسے شعبے جو نئی اور مستقل ملازمتیں پیدا کر سکیں۔ اسی طرح جدید ٹیکنالوجیز اورکمپیوٹرز، سافٹ ویئر اور انفارمیشن فیلڈز بہتر مواقع پیش کر سکتی ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو باعزت روزگار حاصل کرنے کے قابل بنانے کے لیے حکومت کو ان شعبوں پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مگر اس کے لیے سیاسی ہم آہنگی اور استحکام بھی ازحد ضروری ہے۔

اس کے بغیر اس قسم کی معاشی تبدیلی ممکن نہیں۔ پاکستان میں موجودہ محاذ آرائی کی سیاست معاشی بحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو سیاسی تنازعات کو ختم کرنے اور معاشی مسائل پر اپنی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر انسانی فلاح و بہبود اور روزگار کے مواقع کے لیے یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اس کی اتحادی جماعتیں معاشی تنظیم نو کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔