کراچی کے شہری کب تک…

شہر کی بڑی اہم سڑکوں کے علاوہ شہر کے چھوٹی سڑکوں فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan September 11, 2024
[email protected]

پہلے چھوٹی بڑی جھیلیں بنتی تھیں، اب گڑھے پڑ گئے ہیں۔ اس صورتحال سے موٹر سائیکل والے ہی نہیں، کار والے بھی سخت پریشان ہیں۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ سڑکوں کی زبوں حالی کی بناء پر موٹر سائیکل چلانے والے اگر حادثے کا شکار نہ بھی ہوں تو وہ کمر کے درد میں ضرور مبتلا ہورہے ہیں۔ شہر کے آرتھو پیڈک سرجنز کے پاس مریضوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1990 میں کراچی میں سڑکیں 7400 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اب سڑکوں کی لمبائی 10,000 کلومیٹر تک پھیل گئی ہے۔

سماجی تبدیلی کی تحریک کے کارکن اور معروف آرکیٹیکٹ عارف حسن کے معاونین زاہد فاروق نے شہر کی صورتحال کو یوں بیان کیا ہے'' کراچی شہر ملک کی مجموعی معیشت میں 70 فیصد کے قریب وسائل مہیا کرتا ہے اور صوبائی سطح پر 95 فیصد مالی وسائل کراچی مہیا کرتا ہے۔سائٹ ایریا شیرشاہ چورنگی سے لے کر غریب آباد عیسی نگری کے پل تک دونوں طرف کی سڑک خستہ حالی کا شکار ہے۔حالیہ مہینوں میں نارتھ ناظم آباد میں برساتی نالوں کو وسعت دی گئی اور سڑکوں کی ازسرنو تعمیر کی گئی لیکن کے ڈی اے چورنگی سے لے کر ضیاء الدین اسپتال تک جو سڑک غیر ملکی قرضوں سے ازسر نو تعمیر ہوئی ہے وہ دوبارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔

ایم اے جناح روڈ کے کیپری سینما کے سامنے سیونتھ ڈے اسپتال کے اطراف سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔لیاقت آباد ڈاکخانہ کے پل سے تین ہٹی تک سڑک کے دونوں پر گھڑے پڑ چکے ہیں ، کھدائی کا عمل دن میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے گاڑیاں گزرنا مشکل ہو گیا ہے ، خصوصاً موٹر سائیکلوں کے حادثات بڑھ چکے ہیں۔ دیگر ممالک میں سڑکوں پر بارش کا پانی بہتا ہے اور ہمارے ہاں پانی میں سڑکیں بہہ جاتی ہیں۔

ہاں ہو سکتا ہے کہ بارشوں کے بعد سڑکوں کی ایک بار پھر اربوں روپے لگا کر مرہم پٹی کر دی جائے لیکن کیا شہر کی کم آمدنی والے علاقوں کی جو سڑکیں ہیں ان کی مرمت بھی ہو پائے گی ؟ کیا ٹاونز کی سطح پر اضافی مالی وسائل صوبائی حکومت ان کو مہیا کرے گی؟ شہر میں صرف ایم اے جنا ح روڈ ، شہید ملت روڈ اور شاہراہ فیصل ہی سڑکیں نہیں شہر کی چھوٹی سڑکوں کو بھی کراچی کے باسی اپنے روزمرہ کی تعلیمی معاشی سماجی ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

شہر کی بڑی اہم سڑکوں کے علاوہ شہر کے چھوٹی سڑکوں فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔مین ہولز پر ڈھکن رکھنے کی ضرورت ہے اور گھڑوںکو بھرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہر میں ٹریفک حادثات کم ہوں شہر کی فضائی آلودگی پر قابو پایا جاسکے۔ سول انجینئرنگ کے ماہر پروفیسر سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ دنیا میں بارشیں بھی ہوتی ہیں اور سخت گرمی بھی پڑتی ہے مگر وہاں موسم کا سڑکوں پر اثر نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی کی سڑکوں کی تعمیر میں تعمیرات سے متعلق قوانین کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور ناقص مٹیریل استعمال ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی منصوبے کے لیے ایک ہزار روپے منظور ہوتے ہیں تو ٹھیکیدار کو پانچ سو روپے کے قریب رقم ملتی ہے باقی سب مختلف عہدوں پر تعینات افسروں کے پاس کمیشن کے طور پر چلی جاتی ہے۔ جب بھی بارش ہوتی ہے تو سڑکوں پر پانی تو جمع ہوتا ہی ہے کھلے مین ہول بھی موت کے کنویں بن جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہیروئنچی گٹر کے ڈھکن لے جاتے ہیں اور کباڑیوں کو بیچ دیتے ہیں۔

بلدیہ کراچی اور واٹر بورڈ کے پاس ان ہیروئنچیوں کا کوئی علاج نہیں ہے۔ موجودہ میونسپل کمشنر افضل زیدی نے پولیس سے مدد طلب کی ہے۔ صورتحال اتنی خراب ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو نے کراچی کی سڑکوں کی دوبارہ تعمیر کے بارے میں رپورٹ طلب کی ہیں۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سامنے تفصیلی رپورٹ جمع کرادی ہے۔ کراچی میں بلدیات کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ مختلف ٹاؤنز کی انتظامیہ نے بارش کے دوران فعال کردار ادا نہیں کیا، یوں صورتحال زیادہ خراب ہوگئی۔

بلدیہ کراچی پر پیپلز پارٹی اور اتحادیوں کی حکومت ہے۔ شہر کے 13 ٹاؤن پیپلز پارٹی کے پاس، 9 جماعت اسلامی اور 3 تحریک انصاف کے پاس ہیں، مگر لیاری ٹاؤن سے لے کر لانڈھی اسٹیل ملز تک سڑکوں کی ایک جیسی حالت ہے۔ لیاری ٹاؤن پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے مگر لیاری ٹاؤن کے چیئرمین بھی فنڈز اور اختیارات نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں۔ شاید صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ بلاول بھٹو زرداری تک کو کراچی کی سڑکوں کا نوٹس لینا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اب سندھ کی حکومت کو بھی اس بارے میں کچھ کرنا پڑگیا ہے۔ سندھ حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے آکٹارے ضلع ٹیکس Octroi ZillaTaxکی مدد سے صوبہ بھر کی ہر یونین کونسل کی گرانٹ میں اضافہ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

حکومت سندھ کے فیصلہ کے تحت اب آکٹارے ٹیکس کی مد میں 5لاکھ سے 15لاکھ روپے تک کی رقم فراہم کی جائے گی۔ کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے ہر یونین کونسل کی آمدنی میں 140 فیصد تک اضافہ ہوگا۔ حکومت سندھ ہر ماہ اس ٹیکس کے حصہ کے طور پر 12لاکھ روپے کی رقم یونین کونسل کے حوالے کرے گی۔ اس فیصلے کا اطلاق موجودہ مالیاتی سال سے ہوگا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات 15 جنوری 2023کو منعقد ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ نیا بلدیاتی نظام بھی قائم ہوا تھا ۔

اس نظام کے تحت اختیارات میئر سے ٹاؤن کمیٹی اور ٹاؤن سے یونین کونسل تک منتقل ہونے تھے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے بنائے ہوئے قانون کا پاس نہیں کیا اور ٹاؤنز اور یونین کونسل کو اختیارات اور فنڈز منتقل نہیں کیے جس کے نتیجے میں یہ منتخب ادارے بے اختیار ہوگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر میں پانی کی فراہمی اور سیوریج کے نظام کو بہتر بنانے سے سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کا کام نہ ہوسکا۔ اخبارات میں مستقل یہ خبریں شایع ہوئیں کہ مون سون کی بارشوں سے قبل نالوں کی صفائی نہیں ہوئی۔ اس طرح گٹر لائنوں کو صاف نہیں کیا گیا۔ بے ہنگم تعمیرات کی وجہ سے پانی کا رخ سڑکوں کی طرف ہوا جس کا یہ بھی نتیجہ نکلنا تھا کہ بارش ہوتے ہی سندھ کی سڑکیں تالاب بن گئیں اور اب شہری گڑھوں پر سفر کرکے اس کمریں تڑوارہے ہیں۔

بارش ساری دنیا میں ہوتی ہے۔ سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ پانی کی نکاسی کے لیے لائن تعمیر کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں زیادہ بارش ہوتی ہے تو پانی اپنی مخصوص گزرگاہوں کے ذریعہ محفوظ تالابوں میں منتقل ہوتا ہے اور پھر بارش کے پانی کو آبپاشی سمیت دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے اکابرین نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کو تسلیم کرنے کوتیار نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بارش سے پہلے ہی سیویج کا نظام بہت سے مقامات پر ناکارہ ہے۔ بارش کے پانی نے اس نظام کو مکمل طور پر ناکارہ کردیا ہے، اگر پیپلز پارٹی نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کے نظریے کو حقیقی طور پر تسلیم کرے اور یونین کونسل اور کونسلر کو بااختیار کیا جائے تو کراچی کے شہری بھی دنیا کے دیگر شہروں کی طرح بارش سے وہی لطف اٹھا سکیں گے جو دنیا بھر میں شہری لطف اٹھاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں