ایسے تھے ہمارے قائداعظم

مختلف ممتاز شخصیات کی ’بابائے قوم‘ کے حوالے سے عقیدت اور تجربات


Rizwan Tahir Mubeen September 11, 2024
فوٹو : فائل

ہمیں اپنے پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے دوران بہت سی ایسی شخصیات سے محوِکلام ہونے کا موقع ملا، جنھوں نے بہ نفس نفیس خود قائداعظم کو دیکھا اور سنا تھا، یا پھر ان کی بانی پاکستان سے کوئی نہ کوئی نسبت قائم تھی۔

ان میں 'قائداعظم اکادمی' کے سابق ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر بھی شامل ہیں، وہ 1948ء میں طے شدہ بٹوارا 1947ء میں قبول کرنے کی وجہ قائداعظم کی خرابی صحت بتاتے ہیں، کیوں کہ یہ روایات ہیں کہ انھوں نے اپنی طبی صورت حال کو پوشیدہ رکھا تھا کہ مبادا تقسیم کے مخالفین اس مرحلے کو آگے بڑھوا دیں، تاکہ قائداعظم منظر نامے سے ہٹ جائیں۔

٭ سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس (ر) حاذق الخیری نے ہمیں دیے گئے اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ ''وہ 'قانون' کے شعبے میں ہی قائداعظم سے متاثر ہوکر آئے تھے۔''

٭ ریڈیو پاکستان کے سابق کنٹرولر 'نیوز' رفیع الزماں الزبیری صاحب کو تو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ 'بچہ مسلم لیگ' میں شامل ہوئے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس موقع پر قائداعظم کے ساتھ ایک یادگار تصویر بھی کھنچوائی۔

٭ممتاز صحافی علی اختر رضوی (مرحوم) نے 'سنڈے ایکسپریس' میں قائداعظم کے جنازے کے حوالے سے بتایا تھا کہ انھوں نے 'نوائے وقت' کے دفتر کی جگہ پر کھڑے ہو کر اُن کا جنازہ آتے ہوئے دیکھا،کہتے ہیں ، قائد کے جسد کو 'توپ گاڑی' پر خواجہ ناظم الدین، سردار عبدالرب نشتر، مشتاق گورمانی اور دیگر ارکانِ کابینہ کھینچ رہے تھے۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ قائداعظم کو جس جگہ دفن کیا گیا، یہاں بلامبالغہ 10 ہزار جھونپڑیاں تھیں، قائد کی قبر کے لیے جھونپڑیوں کے درمیان جگہ نکالی گئی اور ان کی میت لے جانے کے لیے مکینوں نے بہت فراخ دلی سے اپنی جھونپڑیاں گرا کر راستہ بنایا، اور پہاڑی پر جائے تدفین کے لیے جگہ خالی کی۔''

٭ سابق ڈی جی 'آئی ایس پی آر' بریگیڈیئر (ر) عبدالرحمٰن صدیقی نے 2018ء میں ہمیں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ''مجھے ایک بار قائداعظم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پشاور میں اپریل 1948ء میں وہ ڈھاکا سے واپسی پر 10دن وہاں رہے تھے۔ وہاں پشاور کلب میں ان کے اعزاز میں پارٹی ہوئی تھی، میں 'سول اینڈ ملٹری گزٹ'' کی طرف سے وہاں نمائندہ تھا۔ میں نے بھی دیگر اخباری نمائندوں کے ساتھ ان سے مصافحہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قائداعظم کو اتنی وجاہت اور رعب دیا تھا کہ آپ ان سے نگاہ ملا کر بات نہیں کر سکتے تھے، لیکن وہ بہت ضعیف ہو چکے تھے، اُن کے چہرے پر وہ تاثرات نہیں تھے، جو ایک ملک بنانے والے یا کام یاب آدمی کے ہوتے ہیں، اس وقت وہ بہت ٹوٹ چکے تھے، کیوں کہ اتنا بڑا فساد ہوا، 10 لاکھ افراد مارے گئے، پھر یہاں آکر بھی لسانی رنگ دیکھے!''

٭ بانی پاکستان کی وفات کے حوالے سے سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے ہمیں اپنے حالیہ انٹرویو میں بتایا تھا کہ ''میرے دادا کا خیال تھا کہ ہندوستان کے بٹوارے سے مسلمانوں کو فائدہ نہیں ہوگا، لیکن وہ پاکستان یا مسلم لیگ کے خلاف نہیں تھے، مجھے یاد ہے کہ ایک دن صبح سویرے دادا، والد اور چچا وغیرہ سب گفتگو کر رہے تھے، پتا چلا کہ قائداعظم کے انتقال کی خبر آئی تھی، انھیں افسوس تھا، لیکن وہ مطمئن تھے کہ قائد کے بعد کے لوگ ملک سنبھال لیں گے۔''

٭ ممتاز براڈ کاسٹر بدر رضوان (مرحوم) نے 2018ء میں 'ایکسپریس' میں شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں بابائے قوم سے ملاقات کے حوالے سے اپنی یادیں ساجھے کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ''1946ء میں قائداعظم حیدرآباد میں دو سگریٹ کمپنیوں کے درمیان مقدمے میں ایک فریق کی طرف سے وکیل مقرر ہوئے۔ وہاں وہ 'نظامِ دکن' کے مہمان خانے میں ٹھیرے، جہاں انھیں دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ اُمڈ آئے، انھوں نے بھی یہاں پہلی اور آخری بار قائداعظم کو دیکھا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ یہ مقدمہ تین دن چلے گا، اس حساب سے انھوں نے اپنے موکل سے تین ہزار روپے فیس لی، لیکن جب دوسرے روز ہی مقدمہ ختم ہوگیا، تو انہوں نے ایک ہزار روپے واپس کردیے۔ وہاں قیام کے دوران قائداعظم نے 'نظامِ دکن' سے بھی ملاقات کی، انھوں نے 'نظامِ دکن' کے خفا ہونے پر اُن کے سامنے سلگایا گیا سگریٹ بجھا دیا تھا۔''



٭ سابق صحافی اور جامعہ کراچی کے شعبہ اِبلاغ عامہ کے سابق مسند نشیں ڈاکٹر نثار احمد زبیری نے 2022ء میں شائع شدہ انٹرویو میں بتایا کہ ''ضلع شاہ گنج میں مسلم لیگ کے ایک جلسے میں، میں نے قائداعظم کی شان میں نظم 'مسلم ہے قوم، قوم کی تلوار ہے جناح' پڑھی، جس کے لیے والد نے مجھے بڑے بھائی کی شیروانی پہنائی، جو میرے ٹخنوں تک آ رہی تھی۔ والد نے نظم پڑھنے پر مجھے ایک روپیا انعام دیا، تب یہ بہت بڑی رقم تھی۔ وائسرائے اور سرحدی کمیشن نے تقسیم میں بے ایمانی کی، یہ انگریزوں کی کانگریس نوازی تھی اور دوسرا قائداعظم کو اپنی بیماری کی وجہ سے جلدی تھی، جو انھوں نے کسی پر ظاہر نہیں کی تھی، انھیں خدشہ تھا کہ بعد میں شاید یہ بھی نہ ملے۔''

٭ ممتاز محقق ڈاکٹر رضا کاظمی نے دو سال قبل ہمیں دیے گئے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ 11 ستمبر 1948ء کو 'ماری پور' سے آتے ہوئے قائداعظم نے ملٹری سیکریٹری سے کہا تھا کہ آمد کا ذکر نہ کیا جائے۔ ان کے ملٹری سیکریٹری ہی نے ان کے لیے ایمبولینس لی، وہ واپسی پر اتفاقاً خراب ہوگئی، کوئی بھی گاڑی خراب ہوسکتی ہے، لیکن ہمارے ہاں اس واقعے کو بھی غلط رنگ دیا گیا، اور یہ نہیں بتایا کہ دوسری ایمبولینس منگانے پر جب لیاقت علی کو قائد کی آمد کی خبر ہوئی، تو وہ بھی ایمبولینس کے ساتھ ساتھ پہنچے تھے۔''

٭ صحافی نذیر خان (مرحوم) نے ہمیں دیے گئے انٹرویو میں ہندوستان کی یادیں کچھ یوں تازہ کی تھیں: ''لگ بھگ 1946ء میں جب سردار قیوم اور پیر صاحب بانکی شریف مسلم لیگ میں شمولیت کے لیے قائد کی رہائش گاہ 10، اورنگ زیب روڈ آئے، تو 'مسلم لیگ نیشنل گارڈ' کی طرف سے انھیں پورے اعزاز سے قائد کے کمرے تک لے جانے والوں میں وہ بھی شامل تھے، طویل ملاقات کے بعد جب قائد مہمانوں کو رخصت کرنے باہر آئے، تو بچوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرداً فرداً سب سے مصافحہ کیا۔ یہ اُن کی قائداعظم سے واحد ملاقات تھی۔''

٭ بزرگ براڈکاسٹر ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی بٹوارے کے سمے نو برس کے تھے، وہ کہتے ہیں ''اُس عمر کا بچہ اُتنا ہوشیار نہیں ہوتا تھا، جتنا آج ہے۔ تاہم پاکستان زندہ باد اور لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان کے نعرے سماعتوں میں محفوظ ہیں، جون 1947ء میں انھیں قائداعظم کا آل انڈیا ریڈیو پر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا بھی خوب یاد ہے۔''

٭ سابق صوبائی مشیر اقبال یوسف بتاتے ہیں کہ انگریز کراچی کو دارالحکومت بنانے کا مخالف تھا۔ اسے پتا تھا کہ آیندہ 50 برسوں میں ہانگ کانگ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس لیے وائسرائے نے قائداعظم کو لاہور کو دارالحکومت بنانے کا کہا، پنجاب کی نوکرشاہی کی منشا بھی یہی تھی، جب این اے فاروقی نے یہ پیغام قائداعظم کو دیا، تو انھوں نے کہا 'میں فیصلہ لیتا ہوں، ڈکٹیشن نہیں!'

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔