تاریک گلیوں کے سورج
ذہانت کیا چیز ہے؟ کیا اس کی تقسیم دنیا میں ایک جیسی ہے!مواقع"Opportunities" کس طرح افراد پر اثرانداز ہوتے ہیں
ذہانت کیا چیز ہے؟ کیا اس کی تقسیم دنیا میں ایک جیسی ہے!مواقع"Opportunities" کس طرح افراد پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ تھامس ایڈیسن دنیا کا عظیم ترین سائنسدان تھا۔ ایڈیسن کہتا تھا کہ ذہانت کا زندگی میں کردار صرف ایک فیصد ہے۔ بقیہ نناوے فیصد انسان کی ذاتی محنت اورکاوش ہے۔ وہ سمجھتا تھا کہ انسان اپنی محنت کے بل بوتے پر ذہانت کی ہر معراج کو چھو سکتا ہے۔ اس کی دانست میں لوگوں کو قدرت کی طرف سے تقریباً ایک جیسی ذہنی اسطاعت سے نوازا گیا ہے یعنی صرف ایک فیصد۔ آپ"ایڈیسن" سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر اس سائنسدان نے اپنی محنت کی بدولت آج کے انسان کی زندگی کو مکمل تبدیل کر دیا۔ اس کی بلب کی ایجاد ہی تمام تر روشنی کا ہرکارہ بنی۔
مگر اہلیت کیا ہے؟ کیا اہلیت ذہانت کا نعم البدل ہے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ اہل لوگ میری دانست میں ذہین لوگوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ اہلیت اور محنت اگر مل جائے تو پھر وہ لوگ قوموں کی قسمت کا دھارا بدل د یتے ہیں جیسے ابراہام لنکن یا نیلسن مینڈیلا۔ لیکن ایک عنصر ان لوگوں کے اختیار سے بھی باہر ہوتا ہے۔ وہ ہے زندگی یا نظام میں اپنی اہلیت اور ذہانت کے حساب سے مواقع (Opportunities) پیدا کرنا! اہلیت کو پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کرنا ہی دراصل کسی ترقی یافتہ ملک یا نظام کا کمال ہے۔
ذرا تدبر کیجیے! کہ اگر ڈاکٹر مہاتیر محمد ہمارے ملک میں پیدا ہوتا تو کیا وہ ملک کا صدر یا وزیر اعظم بن سکتا تھا۔ ہمارا نظام اس جیسی آزاد سوچ رکھنے والے لوگوں کو اپنا بدترین دشمن گردانتا ہے۔ آپ دنیا کے کسی مہذب ملک میں نظام کا جائزہ لیں۔ وہ ذہانت کو اہلیت میں بدل دیتے ہیں۔ اور ان دونوں کو ملا کر اپنے ملک کے لیے عظیم سائنسدان، مفکر، ماہر معاشیات اور لیڈر پیدا کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے جیسے ملک ان کی ٹھوکروں میں پڑے ہوتے ہیں۔
آپ کسی اسلامی ملک کو دیکھیے۔ آپکو ذہانت، اہلیت اور مواقع کا توازن نظر نہیں آئیگا۔ میں ملائشیا اور ترکی ترقی پذیر ممالک سمجھتا ہوں۔ یہ ہم سے بہتر ضرور ہیں مگر اصل ترقی یافتہ ممالک سے کوسوں دور! آپ اپنے ملک کو دیکھیے! ہمارے حکمران ان تینوں عناصر کو ماننا یا تسلیم کرنا تودور کی بات، ان سے گھبراتے ہیں۔ کیا ہمارا کوئی سیاسی قائد ذہین اور اہل وزیر کو پسند کرتا ہے۔ ہرگز نہیں! وہ میرٹ سے گھبراتے ہیں بلکہ میرٹ سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ ایک تعلیمی درسگاہ کا انتظامی سربراہ تو شائد کسی دفتری بابو کے ترتیب دیے ہوئے میرٹ پر لگا دیں۔ مگر یہ وزارت اعلیٰ یا وزارت عظمیٰ کو کبھی بھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دینگے! میری بات کی تصدیق ہماری سیاسی زندگی کے المناک اتار چڑھائو سے ہو جائے گی۔ ہمارے قائدین مر جائینگے مگر اقتدار کی مسند پر اپنے خاندان کے علاوہ کسی اور کو نہیں بیٹھنے دینگے۔
لندن میں"آموس ٹرسٹ" انسانی حقوق کی ایک تنظیم ہے۔ اس ٹرسٹ میں لوگ کسی منافع یا کسی لالچ کے بغیر صرف خدمت خلق کرتے ہیں۔ آموس ٹرسٹ نے2010ء میں ایک انتہائی عجیب و غریب فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی مثال2010ء سے پہلے دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اس ٹرسٹ نے بغیر گھر کے حد درجہ غریب بچوں کویعنی"سٹریٹ چلڈرن"، کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا۔"سٹریٹ چلڈرن ورلڈکپ" شروع کیا گیا۔ فٹ بال کے اس کپ میں صرف گلیوں میں پلنے والے بچوں کو حصہ لینے کی اجازت تھی۔ شرط صرف یہ تھی کہ کھلاڑی میچ کے وقت 14 سے16 سال کا ہو۔ اسکو کسی قسم کی کوئی خاندانی سپورٹ نہ ہو اور وہ پوری عمر لاوارث رہاہو۔2010ء میں اس نوعیت کا پہلا ٹورنامنٹ ڈربن یونیورسٹی سائوتھ افریقہ کے گرائونڈ میں کھیلا گیا۔
2010ء میں فٹ بال کے اس عظیم میچ میں برازیل، یوکرین، سائوتھ افریقہ، تنزانیہ، انڈیا اورفلپائن کے بچوں نے حصہ لیا۔ میچ نے فوری طور پر پوری دنیا کی توجہ حاصل کر لی۔ بلکہ یہ میچ بین الاقوامی لاوارث بچوں کے لیے ایک مہم کی شروعات بن گیا۔ دنیا میں فٹ بال کے بہترین کھلاڑی اس میچ کو دیکھنے کے لیے پہنچ گئے۔ وہ کھلاڑی جو اپنے کھیل کی بنیاد پر اربوں روپے سالانہ کماتے تھے، ان بچوں کے لیے کوچ اور ریفری بننا باعث عزت گرداننے لگے۔ اس اچھے کام کو شروع یا جاری رکھنے میں کسی بھی مسلمان ملک نے تعاون نہیں کیا۔ شائد2010ء میں مسلمان ممالک میں کوئی بھی نادار اور لاوارث بچہ نہیںتھا۔ بی بی سی نے اپنا ایک چینل اس میچ کو دکھانے کے لیے مختص کر دیا۔
میچ کے بعد ڈربن اعلانیہ جاری کیاگیا۔ اس میں کہا گیا کہ لاوارث بچوں کو بھی بولنے کا حق حاصل ہے۔ ان کے حقوق کی ہر قیمت پر حفاظت ہونی چاہیے۔انکو جسمانی اور ذہنی اذیت سے محفوظ رکھنا چاہیے۔ان کے پاس صحت اورتعلیم کے یکساں مواقع ہونے چاہیے۔ انکو باعزت زندگی گزارنے کا مکمل حق حاصل ہونا چاہیے۔بے گھر اورلاوارث لڑکیوں نے ڈربن اعلانیہ کے بعد ایک منشور پیش کردیا۔اس کا عنوان تھا۔"میں بھی ایک لڑکی ہوں"۔
ڈربن کی ٹورنامنٹ میں ہر ٹیم میں تین لڑکیاں بھی مدعو تھیں۔ان تمام بچوں اوربچیوں کو منتظمین نے آرٹ تخلیق کرنے کی دعوت بھی دیدی۔ انھوں نے آرٹ کے حیرت انگیز نمونے بناڈالے۔ان کی قابلیت اوراہلیت سے مکمل مرعوب ہو کر کیمرج یونیورسٹی نے ایک نمائش منعقد کی۔لوگ ان کی تصویریں دیکھ کر عش عش کر اٹھے۔ فیصلہ کیاگیا کہ فیفا ورلڈ کپ سے پہلے ان بچوں کا میچ باقاعدگی سے منعقد کروایاجائے گا۔
2014ء اپریل میں بچوں کا یہ نایاب فٹبال ورلڈ کپ برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں منعقد ہوا۔اس میں انیس ممالک سے تعلق رکھنے والے گلیوںمیں مقیم بچے شامل ہوئے۔ اس میں پہلی بار پاکستان کی ٹیم نے بھی شرکت کی۔ کراچی کی ایک سماجی تنظیم"آزاد فائونڈیشن" نے کمال کام کر ڈالا۔ کراچی کی گلیوں میں رلنے والے نایاب ہیرے تلاش کیے گئے۔کوئٹہ کا ایک بچہ فیضان فیاض بھی اس ٹیم کا حصہ بن گیا۔فائونڈیشن کے کوچ رشید نے ان تمام بچوں کو تین ماہ کے لیے انتہائی سخت تربیت کے مراحل سے گزارا۔فٹبال کھیلنے کے لیے یہ نو بچے ٹریننگ کے بعد تبدیل ہو گئے مگر کوچ رشید بھی مکمل طور پر تبدیل ہوگیا۔ان بچوں نے اس کے ذہن کو مکمل بدل کر رکھ دیا۔
پاکستان کی سرکاری فٹبال ایسوسی ایشن نے اس پورے معاملے میں کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کی۔اس کے بعد ایک سرکاری مرحلہ آگیا۔ اس میں آزاد فائونڈیشن اوررشید بے بس ہوگئے۔وہ تھا پاسپورٹ بنوانااورپھر برازیل کا ویزہ لگوانے کامشکل سرکاری کام۔اکثر بچوں کے پاس کوئی بھی کاغذ نہیں تھا۔کراچی پاسپورٹ آفس نے انکو خوب ذلیل کیا۔بالآخر کہیں سے کوئی سفارش کروا کر ٹیم کے پاسپورٹ حاصل کیے گئے۔ذلت اوربے چارگی کے اسی طرح کے مراحل سے گزر کر ٹیم کے اسلام آباد سے ویزے لگوائے گئے۔پاکستان کی نادارترین ٹیم برازیل پہنچ گئی۔
ریوڈی جنیرو میں میچ شروع ہوئے۔ہماری ٹیم نے معجزے کرڈالے۔انھوں نے انڈیا،کینیا اورماریش کی ٹیم کو فنا کردیا۔برازیل کے لوگ پاکستان کی ٹیم کے دیوانے ہوگئے۔ امریکا کی بہترین ٹیم سے بھی میچ برابر رہا۔ان بچوں نے چار میچوں میں اٹھارہ گول کرڈالے۔پاکستان کی ٹیم کو دیکھنے کے لیے پوری دنیا سے لوگ جمع ہوگئے۔وہ ہمارے بچوں کو کھیلتا دیکھ کر پاگلوں کی طرح رقص کرنا شروع کردیتے تھے۔
پوری دنیا کے لوگ ہمارے بچوں کو دیکھ کرپاکستان کے حق میں نعرے لگانے شروع کردیتے تھے۔ہماری ٹیم برونڈی سے ہار گئی۔مگر ہمارے ان بے سہارا بچوں نے بلند کردار کا عظیم مظاہرہ کرڈالا۔انھوں نے ہارنے کے بعد برونڈی کے بچوںکی ٹیم کے ساتھ،ان کی فتح کاجشن منانا شروع کردیا۔اسٹیڈیم کے لوگ پاگل ہو گئے۔ہر طرف"پاکستان زندہ باد"کے نعرے لگنے شروع ہوگئے۔میچ دیکھنے کے شائقین میں سے اکثر اردو سے نا بلد تھے۔ سب لوگ ان بچوں کی خوشی کو دیکھ کر ناچ رہے تھے اورساتھ ہی ساتھ رورہے تھے۔
میرا تو مشورہ ہے کہ ان نو بچوں کو پاکستان کے وزیراعظم،وزراء اعلیٰ اوروزراء کی تربیت کرکے انھیں اپنے جیسا بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ہوسکتا ہے جہاں سب کچھ فیل ہوگیا،وہاںیہی بچے کامیاب ہوجائیں!یہ بے روزگار،نادار،ان پڑھ اور ماں باپ کے بغیرزندہ رہنے والے بچے ہماری قوم کی عظمت کا نشان ہیں!انھوں نے وہ کام کر ڈالا جو پاکستان کے لیے کوئی بھی نہیں کرسکتا!یہ ہمارے شہروں کا اندھیرا نہیں بلکہ یہ تو سورج ہیں!ہماری تنگ اورتاریک گلیوں کے سورج!