ایک قصۂ پارینہ
اس ڈیم کی تعمیر سے وافر مقدار میں سستی بجلی دستیاب ہو گی، سیلابوں سے نجات ملے گی
رومن سلطنت میں عیسائیت کو جب مقامِ قبولیت سے نوازا گیا تو چرچ انتظامیہ نے حضرت عیسیٰ ؑکی زندگی پر مبنی کئیGospelsمیں سے صرف چار کتابوں کو چن کر عہد نامۂ جدید یعنی New Testament کا لازمی حصہ قرار دیا۔ اس وقت تقریباً 300کے قریب گاسپلز موجود تھے۔ چار کو منتخب کرنے کے بعد باقی تمام گاسپلز پر پابندی لگا دی گئی اور انھیں Apocrypha کہا گیا یعنی وہ کتابیں جن کو رکھنا،پڑھنا یا ذکر کرنا بہت بڑا جرم ،کارِ غلط اور گناہ ہے۔
پاکستان پانی کی قلت کا شکار ملک ہے لیکن پھر بھی یہاں کوئی بڑا ڈیم نہیں بننے دیا جاتا اور سب سے موزوں ڈیم یعنی کالا باغ ڈیم کا ذکر Apocrypha ہے۔یہ غالباً 1992-1993 کی بات ہے ہم نیپا پشاور میں زیرِ تربیت تھے۔نیپا انتظامیہ نے ایک شام عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کو دعوت دی کہ وہ اپنے ماہرین کی ٹیم کے ساتھ نیپا آئیں اور شرکائے کورس کو کالاباغ ڈیم پر اپنے تحفظات سے آگاہ کریں۔نیپا انتظامیہ نے واپڈا کے اس وقت ممبر واٹر جناب شمس الحسن صاحب کو دعوت دی کہ وہ بھی اپنی ٹیم کے ساتھ آئیں اور اس محفل میں اے این پی کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات پر شرکائے کورس کی رہنمائی کریں۔ جناب شمس الحسن صاحب بعد میں واپڈا کے چیئرمین بھی رہے۔
جناب شمس الحسن کا اپنا تعلق چونکہ خیبر پختون خواہ صوبے سے ہی تھا اس لیے شاید ان سے بہتر کوئی اور مہمان شریکِ گفتگو نہیں ہو سکتا تھا۔گفتگو کے دوران یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ ممبر واٹر کے فراہم کردہ ڈیٹا اور دلائل کا اے این پی ٹیم کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔جناب شمس الحسن یہ باور کرانے میں کامیاب ہو رہے تھے کہ کالا باغ ناگزیر ہے لیکن اے این پی ٹیم پروجیکٹ کی مخالفت برائے مخالفت کر رہی ہے۔ان کے لیے اس پروجیکٹ کی مخالفت ایک سیاسی کھیل تھا۔شاید اسی وجہ سے بعد میں پشاور میں ہی ایک ایسی بریفنگ کے اختتام پر بیگم نسیم ولی خان نے کہا تھا کہ کالاباغ ڈیم اگر سونا بھی ہے تو ہم اس سونے کے خریدار نہیں۔
آبی ماہرین کی ایک ٹیم 1953 میں بڑے ڈیموں کے ابتدائی جائزے کے لیے پاکستان آئی۔ ماہرین کی اس ٹیم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ یوں تو پاکستان میں کئی جگہیں ڈیموں کے لیے مناسب ہیں لیکن سب سے موزوں جگہ کالا باغ کے مقام پر ہے۔ یہاں اگر ڈیم بنایا جائے تو یہ کبھی نہ ختم ہونے والا یعنی ایک Perpetual ڈیم ہوگا۔اس ڈیم کی عمر ایک ہزار سال ہو گی کیونکہ یہ Siltسے کبھی نہیں بھرے گا۔
ماہرین کے مطابق یہ ڈیم کوئی 6 سال میں تعمیر کے مراحل طے کر کے کمیشن ہو جائے گا۔ملک میں جب زرعی اصلاحات ہوئیں تو نواب کالا باغ جناب امیر محمد خان نے اپنی 22ہزار ایکڑ زمین زرعی کمیشن کے حوالے کی۔اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ زمین کالا باغ ڈیم کے لیے بہت موزوں ٹھہرے گی۔کالاباغ گاؤں سے ڈیم کی سائٹ 16 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔تربیلا ڈیم سے یہ سائٹ 194کلومیٹر فاصلے پر ہے۔حالانکہ یہ ایک بہت کارآمد منصوبہ اور موزوں ترین جگہ ہے لیکن یہ منصوبہ ابتدا سے ہی نزاع کا شکار ہو گیا اور اب تو یہ ایک قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔
حکومتِ پاکستان کی دعوت پر آبی ماہرین کی ٹیم ایک مرتبہ پھر 1980 میں پاکستان آئی۔اس ٹیم نے دوبارہ قرار دیا کہ کالا باغ ڈیم معاشی اور تکنیکی اعتبار سے ایک بہت مفید منصوبہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس پر ساڑھے تین ارب روپے کی لاگت متوقع تھی۔
اس ڈیم سے3600 میگاواٹ بجلی پیدا ہونی تھی۔ پانی سے پیدا ہونے والی یہ بجلی بہت سستی پڑنی تھی اور صنعتوں کو سستی بجلی ملنے سے سستی پراڈکٹس تیار ہو کر بین الاقوامی مارکیٹ میں بآسانی مقابلہ کر سکتی تھیں۔ ہر منصوبے کے کچھ منفی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ڈیم بننے سے پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے ملحقہ علاقوں سے کچھ آبادیوں کو نقل مکانی ضرور کرنی پڑتی۔ منصوبے میں ان متاثر ہونے والوں کی آبادکاری کا تفصیلی منصوبہ بھی شامل تھا تاکہ نئی جگہ پر یہ لوگ زندگی کی تمام سہولیات کے ساتھ آباد ہوں۔
کالاباغ ڈیم پر ابتدا سے ہی خیبر پختون خواہ کے شدید تحفظات تھے۔بعد میںصوبہ سندھ اور بلوچستان بھی اعتراض کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔صوبہ پختون خواہ کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ کالاباغ ڈیم بننے سے نوشہرہ کا شہر پانی میں ڈوب جائے گا۔اس اعتراض میں کوئی جان نہیں۔کیونکہ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد 915 فٹ ہے اور یہ اونچائی نوشہرہ کی نچلی سطح سے بھی 20فٹ کم ہے۔اس طرح نوشہرہ ڈوبنے کا خدشہ بے بنیاد ہے۔دوسرا اعتراض یہ تھا کہ نوشہرہ،مردان اور ملحقہ علاقے کی زمین سیم و تھور کا شکار ہو جائے گی۔اس اعتراض میں بھی کوئی جان نہیں کیونکہ جب ڈیم کے پانی کی زیادہ سے زیادہ اونچائی ہی ان علاقوں کی زمین سے بہت نیچے ہو گی تو سیم و تھور کیسے پیدا ہو گی۔تیسرا اعتراض یہ تھا کہ خیبر پختون خواہ کی آبادی بے گھر ہو جائے گی۔یہ صحیح ہے کہ کچھ آبادی کو ضرور نقل مکانی کرنی ہو گی۔تخمینے کے مطابق کل ایک لاکھ بائیس ہزار نفوس کو نقل مکانی کرنی ہو گی۔
78 ہزار افراد پنجاب سے اور 42 ہزار کے پی کے سے متاثر ہونے تھے،جن کی آبادکاری کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی گئی تھی۔سندھ کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ دریائے سندھ کا پانی روک لیا جائے گا اور سندھ کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔منگلا اور تربیلا ڈیموں کے بننے سے پہلے سندھ کو 35 ملین ایکڑ پانی دستیاب ہوتا تھا۔ ان ڈیموں کی تعمیر سے سندھ کو اس کے حصے کے پانی سے زیادہ پانی ملنے لگا اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے پر سندھ کو 1.6 ملین ایکڑ اضافی پانی ملنا تھا۔سندھ کا ایک اور اعتراض یہ تھا کہ دریائے سندھ کنارے مینگرو فارسٹ پانی کی کمی سے تباہ ہو جائے گا۔پہلی بات تو یہ کہ دریائے سندھ میں پانی بڑھے گا،کم نہیں ہو گا ۔مینگرو فارسٹ کل 2 لاکھ 94 ہزار ایکڑ پر پھیلے ہوئے ہیں۔
دریائے سندھ کنارے مینگرو فارسٹ صرف 7ہزار ایکڑ پر محیط ہیں۔دریائے سندھ میں پانی بڑھنے سے مینگروز کو پھلنے پھولنے میں مدد ہی ملنی تھی۔سندھ کے لوگوں کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کالا باغ کے مقام پر پانی سے بجلی بننے سے سندھ کو وہ پانی ملے گا جس میں سے بجلی نکال کر اس کے اندر سے طاقت سلب کر لی جائے گی۔اس اعتراض پر کیا کہا جائے۔صوبہ بلوچستان یوں تو کالا باغ ڈیم سے براہِ راست متاثر نہیں ہوتا لیکن ڈیم بننے سے کچھی کینال کے ذریعے اضافی پانی ملے گا۔
مناسب وقت پر ڈیم کی تعمیر نہ ہونے سے اس کی لاگت میں بے پناہ اضافہ ہو چلا ہے۔پاکستان میں ہر سال30ملین ایکڑ فٹ پانی ڈیم نہ ہونے سے ضایع ہو جاتا ہے۔ہر سال بہت سے علاقے سیلاب کی آفت کا شکار ہوتے ہیں۔فصلوں ،مویشیوں،جنگلی حیات اور جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔اچھے معاشرے ایک ایک زندگی کی حفاظت کرتے ہیں۔
اور زراعت کے لیے پانی مہیا ہو گا۔ اس کے علاوہ 20بلین روپوں کا فائدہ ہو گا۔ڈیم کی تعمیر تبھی ہونی چاہیے جب کے پی کے، سندھ اور بلوچستان اس پر راضی ہوں۔ جناب عمران خان کے پی کے سے منظوری دلا کر پاکستان پر بہت بڑا احسان کر سکتے ہیں۔ اسی طرح جناب زرداری اور بلاول سندھ کی ہاں کرا کے یہی احسان کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ کے پی کے اور سندھ کی ہاں آنے کے بعد موجودہ وزیرِاعلیٰ ٰبلوچستان جناب سرفراز بگٹی ضرور اپنا مثبت حصہ ڈالیں گے۔خدا کرے کہ ہم ایک قوم کی طرح سوچنا شروع کریں اور پاکستان کے عوام کے مفاد کو مقدم رکھیں۔