پاکستان میں سیاسی بحران کے معیشت پر اثرات

حالیہ برسوں میں سیاسی بحرانوں کی شدت نے معیشت کو منفی طریقے سے متاثر کیا ہے


ضیا الرحمٰن ضیا September 13, 2024
معیشت کی کمزوری کی وجہ سے ملک کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں سیاسی بحران اور اداروں کی سیاسی جانبداری نے معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ جب بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام کی لہر اٹھتی ہے، اس کا براہ راست اثر معیشت پر پڑتا ہے۔


پاکستان میں حالیہ برسوں میں سیاسی بحرانوں کی شدت نے معیشت کو منفی طریقے سے متاثر کیا ہے، جس کے نتائج ملکی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں نمایاں ہیں۔ پہلا اور سب سے اہم اثر معیشت کی کمزوری کا ہے۔ سیاسی بحرانوں کے دوران حکومت کی پالیسی سازی اور عملدرآمد میں تعطل آتا ہے، جس کی وجہ سے معیشت کی ترقی کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔ جب حکومتیں مختصر مدتی ہوتی ہیں اور مسلسل تبدیلیاں آتی ہیں، تو یہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کرتی ہیں۔ سرمایہ کاری کے منصوبے منجمد ہوجاتے ہیں، اور نئے سرمایہ کاروں کی آمد کم ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع کم ہوجاتے ہیں اور معیشت کی نمو رک جاتی ہے۔


پاکستان کی سیاسی تاریخ میں متعدد مواقع پر ہم نے دیکھا ہے کہ جب حکومتوں کی تبدیلیاں ہوئیں یا سیاسی بحران نے سر اٹھایا، تو معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ان بحرانوں کے دوران سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی آئی، جس کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی اور معیشت کی ترقی کی رفتار میں سست روی آئی۔ مختصر مدتی حکومتوں کے عدم استحکام کی وجہ سے اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہا، جس نے معیشت کی پائیداری کو متاثر کیا۔


اداروں کی سیاسی جانبداری بھی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ جب عدالتیں یا دیگر ادارے سیاسی دباؤ میں آکر فیصلے کرتے ہیں، تو یہ قانونی اور کاروباری ماحول کو غیر یقینی بناتا ہے۔ اداروں کی جانبداری اور ان کی غیر معیاری کارکردگی سرمایہ کاروں کےلیے عدم اعتماد پیدا کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں میں رکاوٹیں آتی ہیں اور معیشت کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


پاکستان میں اداروں کی جانبداری کی مثالیں متعدد بار سامنے آئی ہیں، جن میں عدلیہ اور دیگر اداروں کے فیصلے سیاسی اثرات کا شکار رہے ہیں۔ اس قسم کی جانبداری سے قانونی نظام کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور کاروباری برادری میں عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ جب ادارے اپنی آزادی اور غیر جانبداری کے اصولوں پر عمل نہیں کرتے، تو کاروباری فیصلے غیر مستحکم ہوجاتے ہیں اور اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں آتی ہیں۔


معیشت کی کمزوری کے نتیجے میں ملکی ساکھ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب معیشت کی حالت غیر مستحکم ہوتی ہے، تو بین الاقوامی برادری میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے، جیسے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف، پاکستانی معیشت کی حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے قرضوں کی شرائط سخت ہوجاتی ہیں اور بین الاقوامی امداد کی دستیابی کم ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ، غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کو ایک غیر محفوظ سرمایہ کاری کا مقام سمجھنے لگتے ہیں، جو ملکی معیشت کی مزید کمزوری کا باعث بنتا ہے۔


پاکستان کی معیشت کی کمزوری کی وجہ سے ملک کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے، جو کہ تجارتی تعلقات اور بین الاقوامی سرمایہ کاری پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کی بحالی کےلیے اقتصادی استحکام اور مضبوط پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب معیشت کمزور ہوتی ہے، تو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی حیثیت کمزور ہوجاتی ہے، جس سے عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی برآمدات کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح، داخلی سطح پر بھی عوامی اعتماد کم ہوتا ہے۔ سیاسی بحران اور اداروں کی جانب داری عوام کے درمیان عدم اعتماد کو بڑھاتی ہے۔ عوام حکومت اور معیشت کے متعلق منفی تصورات رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے وسائل کی سرمایہ کاری میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ اس کا براہ راست اثر ملکی معیشت کی ترقی اور استحکام پر پڑتا ہے۔


عوام کی جانب سے عدم اعتماد کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام اور اداروں کی غیر جانبداری ہے۔ جب عوام حکومت اور اداروں پر اعتماد نہیں کرتے، تو وہ اپنے مالی وسائل کی سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں معیشت کی ترقی کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔ عوامی اعتماد کی بحالی کےلیے ضروری ہے کہ سیاسی اور ادارہ جاتی نظام میں اصلاحات کی جائیں اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔


یہ صورتحال پاکستان کےلیے ایک بڑا چیلنج ہے، جسے حل کرنے کےلیے سیاستدانوں، اداروں اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ سیاسی بحرانوں کو ختم کرنے اور اداروں کی غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے اقدامات کرنا ضروری ہیں تاکہ معیشت کی بحالی ممکن ہوسکے۔ اقتصادی استحکام کے بغیر، پاکستان کی عالمی ساکھ میں بہتری کی امید کرنا مشکل ہے، اور اس کے اثرات مستقبل میں بھی محسوس کیے جائیں گے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں