دو کروڑ بدنصیب بچے

پاکستان دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے


Dr Tauseef Ahmed Khan September 14, 2024
[email protected]

پاکستان دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 2 کروڑ سے زیادہ ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری نے عالمی یومِ خواندگی کے موقعے پر اپنے روایتی پیغامات میں اس عزم کا اظہارکیا ہے کہ حکومت نے ایک دفعہ پھر ان بچوں کو اسکول بھیجنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔


سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو واقعی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع مل گیا توکیا واقعی اتنی بڑی تعداد میں بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرسکیں گے؟ گزشتہ سال ساتویں مردم اورگھر شماری کے تفصیلی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال 23.37 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کی عمریں 5 سے 16 سال کے درمیان ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 20.30 ملین بچے کبھی اسکول گئے ہی نہیں اور 5.34 ملین بچے اسکول میں داخل تو ہوتے ہیں مگر پانچویں جماعت پہنچنے تک یہ اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔


میاں شہباز شریف نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو ان اعداد و شمارکو دیکھ کر گزشتہ سال تعلیمی ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ کیا۔ میاں شہباز شریف کی حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جامع اقدامات کا فیصلہ کیا۔ ان اقدامات میں نصاب میں ٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا بھی شامل ہے۔ صدر آصف زرداری نے اس موقعے پر اپنے پیغام میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور نچلے طبقات کے لیے تعلیمی وظائف کا خاص طور پر ذکرکیا۔ صدر کا کہنا ہے کہ ہر ضلع میں لڑکوں کے لیے 4 ہزار اور لڑکیوں کے لیے ساڑھے 4 ہزار روپے کے وظائف دیے جا رہے ہیں۔


ان وظائف سے 9.7 ملین بچے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس عمر کے غریب طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے 102,000 اسکالر شپ بھی دینے کی اسکیم شروع کی گئی، مگر ان بیانات کے باوجود پاکستان میں صورتحال خاصی خراب ہے۔


پاکستان خواندگی کے تناسب کے اعتبار سے قریبی ممالک سے خاصا پیچھے ہے۔ پاکستان میں خواندگی کا تناسب 62.3 فیصد ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق مردوں میں یہ تناسب 72.5 فیصد اور خواتین میں تناسب 51.5 فیصد ہے جب کہ بھارت میں خواندگی کا تناسب 81 فیصد ہے۔ یہ بالغوں کی خواندگی کا تناسب ہے جب کہ 15 سے 24 سال کے نوجوانوں میں یہ تناسب 91.76 فیصد کے قریب ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں خواندگی کا تناسب 74.66 فیصد ہے۔ ( یہ اعداد و شمار 2022کے ہیں)۔ جب کہ 15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں یہ تناسب 92 فیصد ہے۔


اسی طرح پاکستان اور پڑوسی ممالک سے تعلیمی بجٹ کا موازنہ کیا جائے تو یہ حقائق ظاہر ہوتے ہیں کہ پاکستان میں موجودہ مالیاتی سال کے لیے تعلیم کا بجٹ 1,776.2 بلین رکھا گیا ہے جو ملک کی جی ڈی پی کا 1.77 فیصد ہے جب کہ بھارت نے موجودہ مالیاتی سال کے لیے تعلیم کے لیے 12 بلین ڈالر کی رقم مختص کی ہے۔ یہ رقم کل بجٹ کا 2.5 فیصد ہے جب کہ بنگلہ دیش میں 2022کے بجٹ میں جی ڈی پی کا 11.73 فیصد مختص کیا گیا تھا۔ بنگلہ دیش میں حالیہ بحران کی بناء پر تعلیم کے بجٹ میں کمی کی گئی ہے۔ یہ کل جی ڈی پی کا 1.69 فیصد کے قریب ہے۔


قیام پاکستان کے ساتھ ہی نئی ریاست نے خواندگی کی شرح کو صد فی صد کرنے کے بارے میں کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا تھا۔ یہ بھی وجہ تھی کہ شعبہ تعلیم میں بجٹ کے کل جی ڈی پی کا بھی 1 فیصد سے کم رہا ۔ جب یونیسکو اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ماہرین نے حکمرانوں کو سمجھانا شروع کیا کہ صد فی صد شرح خواندگی کا مقصد حاصل کیے بغیر غربت ختم نہیں ہوسکتی، ناپائیدار ترقی ممکن ہے۔ اس کے ساتھ ہی گزشتہ سال کے آخری عشرہ میں یونیسکو نے مسلسل اس بات پر زور دیا کہ ترقی پذیر ممالک میں تعلیم کے لیے کل بجٹ کا 5 فیصد جی ڈی پی تعلیم کے لیے مختص کرنا چاہیے۔


18ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد نیا قومی مالیاتی ایوارڈ N.F.C نافذ ہوا اور تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوا تو تمام صوبوں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ صوبوں نے اپنے بجٹ کا خاصا حصہ تعلیم کے لیے مختص کرنے کا بار بار اعلان کیا۔ صرف صوبہ سندھ کی مثال لی جائے تو صوبائی حکومت نے موجودہ بجٹ (2024-25) میں تعلیم کے لیے 454 بلین روپے مختص کیے، اگرچہ صوبے کی تعلیمی ضروریات کے لیے یہ رقم کم ہے مگر اتنی زیادہ بڑی رقم کے شفاف استعمال کے لیے خبریں ذرایع ابلاغ میں چھائی ہوتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کی کل تعداد 48,932 ہے جن میں سے 43 ہزار اسکول باقاعدہ کام کر رہے ہیں، باقی اسکول صرف کاغذات پر قائم کیے گئے ہیں۔


ان اسکولوں کی عمارتوں پر تعلیم دشمن عناصرکا قبضہ ہے۔ پولیس اور انتظامیہ ان اسکولوں میں تعلیم دشمن عناصر سے خالی کرانے میں قطعی طور پر ناکام رہی ہے۔ محکمہ تعلیم سندھ کے ڈائریکٹر جنرل مانیٹرنگ اینڈ انسپکشن زین العابدین انصاری کا کہنا ہے کہ پورے سندھ میں 6 ہزار 134 اساتذہ ایسے ہیں جو کبھی اپنے اسکول نہیں گئے مگر ان کے اکاؤنٹس میں باقاعدگی کے ساتھ تنخواہیں موصول ہوجاتی ہیں۔


اسی طرح افسروں نے سخت کوششوں کے بعد اس بات کا پتہ چلایا کہ سندھ کے 58 اساتذہ بیرون ممالک گئے ہوئے ہیں مگر حکومت سندھ ان غیر حاضر اساتذہ کو باقاعدہ تنخواہیں بھجواتی ہے۔ حکومت سندھ نے اسکولوں میں تعلیمی فیس مکمل طور پر معاف کی ہوئی ہے اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ اسکولوں کے طلبہ کے لیے ہر سال اربوں روپے کی کتابیں شایع کرتا ہے مگر ہر سال مہینوں طلبہ کو کتابیں نہیں مل پاتی ہیں۔ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بھی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ بلوچستان خواندگی کے اعتبار سے دیگر صوبوں سے بہت پیچھے ہے۔ بلوچستان میں خواتین میں خواندگی کی شرح تو انتہائی تشویش ناک ہے۔ پختون خوا میں جنونی عناصر طالبات کے اسکولوں کو نشانہ بناتے ہیں۔


وفاق اور چاروں صوبوں کے تجزیے سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت دوکروڑ بچوں کو اسکول میں داخل کرانے کے لیے سنجیدہ نہیں۔ ترقیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یونین کونسل کی سطح سے ہر بچے کو اسکول میں داخل کرانے کے لیے اس کے والدین کو وظیفہ، اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی، بچوں کو ناشتہ، یونیفارم اورکتابیں وکاپیاں فراہم کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار ہونا چاہیے تاکہ والدین کو یہ احساس ہوکہ بچوں کوکام کے بجائے اسکول بھیجیں گے تو ان کا مالی نقصان نہیں ہوگا۔ بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش وغیرہ میں حکومتوں نے غریب والدین کو اسی طرح کی مراعات دی تھیں۔ یہی وجہ ہے ان کے ہاں خواندگی کا تناسب اتنا بڑھ گیا۔ یہ بچے تعلیم کے ذریعہ Human Capital تیار ہوتا ہے اور یہ Human Capital ہی ترقی کا ضامن ہے۔ حکومت واقعی خواندگی کا تناسب صد فی صد کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنی ساری پالیسیوں کو ازسرِنو ترتیب دینا ہوگا اورکرپشن کو ختم کرنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں