جمیل مرغز یار تھا گلزار تھا

جمیل مرغز کا یوں اچانک بچھڑ جانا بھی دل کو ٹکڑے ٹکڑے کرگیا ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq September 14, 2024
[email protected]

خوشحال خان خٹک نے کہا ہے کہ


ہرسومرہ کہ والوزی پہ ختکہ کہ پہ برہ


مرگ لکہ د باز دے پہ ہوا وہی کونترہ


ترجمہ۔کبوتر کتنا بھی اڑے۔یہاں وہاں اوپر نیچے قلابازیاں کھائے لیکن موت ایک باز ہے اسے دبوچ ہی لیتا ہے۔موت کو''باز'' اور زندگی کو کبوتر کی یہ تشبیہہ ہر لحاظ سے نہایت حسب حال، موزوں اور بلیغ ہے۔ایک تو اس میں زندگی کی خوبصورتی اور موت کی بدصورتی کا مفہوم ہے دوسرا اس میں اچانک خلاف توقع اور ناگہانی وناگمانی کے معنی بھی ہیں۔ اگرچہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ موت کو خلاف توقع کہنا ہی غلط ہے کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ اس کی بھی پیدائش ہوجاتی ہے ہمیشہ ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہے اور کسی کو بھی اس سے بچنے کی امید نہیں ہوتی۔موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے آج تک انکار کیا جاسکا ہے۔نہ کیا جارہا ہے اور نہ ہی کیا جائے گا


ایک دن سب کو چکانا ہے عناصر کا حساب


زندگی چھوڑ بھی دے موت کہاں چھوڑتی ہے


بلکہ زندگی اور موت کا معاملہ وہی انڈے اور مرغی کا معاملہ ہے کہ مرغی جب پیدا ہوتی ہے تو ساتھ ہی اس کے پیٹ میں انڈا بھی پیدا ہوتا ہے اور اگر انڈا پیدا ہوتا ہے تو اس کے اندربھی مرغی ہوتی ہے۔ انسان جب پہلی سانس لیتا ہے تو سانسیں کم ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔کوئی پہلا قدم رکھتا ہے یہ اس کا آخری قدم تک سفر بھی شروع ہوجاتا ہے۔جو جنما وہ مرے گا بھی ضرور۔جو آیا ہے اس کا جانا بھی طے ہے۔مطلب کہ آغاز و انجام ابتدا اور انتہا جڑواں ہوتے ہیں۔ایک نہیں دو ہوتے ہیں۔


اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو


تیر پر اڑکے بھی نشانے لگے


ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے


بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے


لیکن ''کبوتر''خوش جنم ہوتا ہے۔وہ بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ہے۔یہ سمجھے بغیر کہ بلی کی آنکھیں اس کی آنکھیں نہیں ہوتی بلکہ بلی کی ہوتی ہیں


لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے


اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے


ہو عمر خضر بھی تو کہیں گے بوقت مرگ


ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے


لیکن ان تمام حقائق کے باوجود۔حسب توقع ہونے کے باوجود اٹل ہونے کے باوجود دکھ تو ہوتا ہے، صدمہ تو ہوتا ہے درد تو ہوتا ہے۔کسی کا یوں اچانک بچھڑ جانا کوئی معمول کی بات نہیں کیونکہ ''امید'' کی ایک کرن انسان کو ہمیشہ بہلائے رکھتی ہے


یہی ہے کچھ خواب چند امیدیں


ان ہی کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو


جمیل مرغز کا یوں اچانک بچھڑ جانا بھی دل کو ٹکڑے ٹکڑے کرگیا ہے۔ کسی کو سان گمان بھی نہ تھا کہ اتنا ہنستا مسکراتا اور متحرک انسان یوں اچانک چلا جائے گا وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے


آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر


اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر


اور ہمیں تو دکھ اس لیے زیادہ ہے کہ ہمارا اور ان کا رشتہ ہنسی خوشی کا تھا جب بھی ملتے تھے ایک دوسرے پر چوٹیں کرکے چونچیں مار کر دونوں ہی خوش ہولیتے تھے


اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا


بہت ہے ملاقات مسیحا و خضر سے


اس کے گاؤں کا نام''مرغز''جس کا تلفظ mar ghuzتھا لیکن ہم اسے اپنے نوشہرہ کے لہجے میں بگاڑ کر ایک گالی بنالیتے تھے اور جب جمیل کو مارتے تھے تو اس کی مسکراہٹ دیدنی ہوتی تھی اور یہ مسکراہٹ اس کی باقاعدہ''ٹریڈمارک'' جو ہمیشہ اس کے ہونٹوں سے چپکی رہتی تھی اور سامنے والے کو شکار کرلیتی تھی


وہ رلاکر ہنس نہ پایا دیر تک


روکے جب میں مسکرایا دیر تک


عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہم مردہ پرست لوگ ہیں زندگی میں کسی کی قدر نہیں کرتے لیکن اس کے بچھڑنے پر تعریف کے پل باندھتے ہیں۔لیکن اس کے معنی وہ نہیں جو نکالے جاتے ہیں بلکہ انسان کی فطرت ہی ایسی ہے کہ جو چیز ہمیں حاصل ہوتی ہے ہمارے پاس ہوتی ہے دستیاب ہوتی ہے اپنی ہوتی ہے اس کی قیمت اس وقعت اور اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا بلکہ وہ چیزیں زیادہ پرکشش ہوتی ہیں جو ہماری رسائی اور دستیابی سے دور ہوتی ہیں ہماری جیب میں اگر دنیا بھر کی دولت ہو تو پھر بھی کوئی احساس نہیں ہوتا لیکن ایک کھویا ہوا معمولی سکہ ہمیں ہمیشہ یاد آتا ہے


دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے


مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے تو سونا ہے


دیکھا جائے تو عشق و محبت کا سارا فلسفہ ہی ''رسائی'' اور''نارسائی'' کا ہے۔ایک شخص یا دو لوگ ایک دوسرے کی محبت میں جاں تک سے گزر جاتے ہیں لیکن جب وہ دونوں ایک دوسرے کو''حاصل'' کر لیتے ہیں تو پھر دونوں ہی بہت جلد ایک دوسرے سے اوب کر بیزار ہوکر''یہاں وہاں'' آنکھیں مارنے لگتے ہیں۔


مجھ سے ملنے کے وہ کرتا تھا بہانے کتنے


اب گزارے گا مرے ساتھ زمانے کتنے


مطلب یہ کہ کھو جانے کا یہ احساس ہی جاں لیوا ہوتا ہے۔جمیل مرغز پیشے کے لحاظ سے وکیل تھا لیکن کالم لکھنا اس کا جنون تھا۔کیونکہ وہ کالم اس کے اندرونی''بھاپ'' کا اظہار ہوتا تھا۔اور جو کچھ بھی لکھتا تھا دل سے لکھتا تھا، کمائی یا دکھاوے کے لیے نہیں لکھتا تھا ۔ حافظ شیرازی کے ایک شعر کا ترجمہ ہے کہ میں رباب کی آواز سے اپنی بات کہتا ہوں کیونکہ میرے اندر کی دیگ سے میرا سینہ جل رہا ہے۔اسے بہت سارے دکھ لاحق تھے اس ملک کے،اس نظام کے، اس معاشرے کے اور عوام کے۔اس ناہمواریت کے جواب ہمارا مقدر بن گئی ہے۔ حالانکہ بہت سارے لوگ


شداں کہ درکنارہ می رختند


ہزارگونہ سخن دردہان و لب خاموش


ترجمہ۔اور پھر ایسا ہوا کہ بہت سارے لوگ دل میں بہت کچھ لیے ہوئے اور ہونٹ سیے ہوئے درکنار ہوگئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں