حجاب کا عالمی دن
برقعہ یا حجاب کرنا بے حیائی کی جڑ کاٹنے کے مترادف ہے
4 ستمبر حجاب کے عالمی دن کے طور پر اور دنیا کے بعض ممالک میں یہ یکم فروری کو بھی منایا جاتا ہے۔ حجاب ڈے کی بنیاد فرانس میں پڑی، وہاں پر حجاب پہننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی، اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے، اپریل میں ہیملٹن کی مشہور میک ماسٹر یونیورسٹی میں کچھ مسلم اور غیر مسلم طالبات نے حجاب ڈے منایا، کچھ عرصے بعد ہی یہ دن فرانس میں بھی منایا جانے لگا اور پھر کینیڈا کی مسلم خواتین نے یہ دن منانا شروع کردیا اور اب 4 ستمبر کو عالمی طور پر حجاب کا دن منایا جاتا ہے۔
گزشتہ ماہ و سال میں حجاب کے حوالے سے خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، عدالتوں اور بات مقدمات تک پہنچی اور حجاب پہننے والی خواتین کو نہ کہ سنا گیا بلکہ فیصلہ بھی ان کے حق میں آیا۔ عالمی یوم حجاب کا نظریہ ناظمہ خان نے پیش کیا جوکہ امریکا میں مقیم ہیں اور یہ بنگالی نژاد ایک مسلم خاتون ہیں، وہ گیارہ سال کی عمر میں امریکا ہجرت کر گئی تھیں۔
انھیں حجاب کی وجہ سے بہت سی پریشانیوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان مصائب سے نجات پانے کے لیے انھوں نے ایک دن مقرر کیا جوکہ یکم فروری تھا، تمام خواتین کو حجاب پہننے کی ترغیب دی، مذہب اور نسل کی شرط نہیں تھی، حجاب عورت کی حفاظت اور عزت کا ضامن ہے، مسلم خواتین کی پہچان ہے، عفت و پاکیزگی کا استعارہ ہے اور اللہ کے احکام کی بجا آوری ہے۔
حجاب مسلم خواتین کا وہ فخر اور شعار ہے جو اسلامی معاشرے سے بے حیائی کو ختم کرتا ہے، شرم اور غیرت مندی کے تقاضوں کو اجاگر کرتا ہے۔ عورت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوب صورت تحفہ عطا کیا گیا ہے وہ پردے کی شکل میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے ذریعے حجاب کا حکم دیا۔ سورہ نور کی آیت نمبر 30 میں خطاب کا آغاز پہلے مردوں اور پھر عورتوں سے کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
'' اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ ان سے باخبر ہے۔''
''اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں، بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے اور اپنے سینے پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں۔''
اپنا حسن و خوب صورتی ظاہر کرنے سے عورت کا اپنا ہی نقصان ہوا ہے اور شیطان نے اسے برباد کر کے چھوڑا ہے، اس کی تذلیل، قتل و غارت کے قصے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی زینت اور تفریح کا سامان بن گیا ہے، کم علم لوگوں نے اپنے پاس سے نمک مسالہ لگا کر ان قصوں، کہانیوں کو دوست احباب کے لیے مزید تشہیر کا ذریعہ بنایا ہے۔ دشمنوں نے مزے لیے ہیں اور سکون حاصل کیا ہے۔ جیسے ان کے ساتھ ایسا سانحہ پیش نہیں آسکتا ہے، کسی کا مذاق اڑاتے وقت یہ بات سوچنا ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تعلیمات کی نفی کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اخلاق رذیلہ کو اپنانے کے لیے منع فرمایا ہے۔
حیا ایمان کی شاخ ہے، حدیث مبارکہ کے مطابق جس میں حیا نہیں اس میں ایمان نہیں۔''
برقعہ یا حجاب کرنا بے حیائی کی جڑ کاٹنے کے مترادف ہے اور جب عورت بے پردہ ہو جاتی ہے تو اس کی مثال اس سپاہی کی سی ہے جو اپنی زرہ اُتار پھینکتا ہے اور غیر محفوظ ہو جاتا ہے، دشمن آسانی کے ساتھ اسے اپنا تر نوالہ بنا لیتا ہے۔ اسی طرح پردہ عورت کے لیے مضبوط قلعہ ہے، اسلام عورت کو بے مقصد اور بلا ضرورت باہر جانے سے منع فرماتا ہے، آج بے شمار فیشن ایبل خواتین محض ونڈو شاپنگ کرنے کے لیے بازاروں کا رخ کرتی ہیں اور اپنے رب کی ناراضی کا سبب بنتی ہیں۔
یومِ حجاب کے بہت سے فائدے بھی ہیں کہ اس دن کو منانے سے ایک تو یہ کہ دوسری بے پردہ خواتین کو تحریک ملتی ہے اور وہ بھی پردہ کرنے کے اوصاف سے واقف ہوتی ہیں اور پردہ نہ کرنے کے نقصانات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے عزت و وقار کی حفاظت کے لیے اقدامات کرتی ہیں چونکہ دینی حمیت انھیں بے چین کر دیتی ہے کہ اب تک انھوں نے طاغوتی قوتوں کے زیر اثر زندگی بسر کی ہے حجاب تو دور کی بات ہے لباس تک مکمل نہیں پہنا ہے۔
ہمارے پاکستان میں بھی خواتین فیشن کی دوڑ میں آگے رہنا چاہتی ہیں اور ادھورا لباس جس سے شرم و حیا کے تقاضوں کو ضرب لگتی ہے وہ کتنی آسانی کے ساتھ محفلوں میں شرکت کرتی ہیں۔ ان کا یہ عمل کچی عمر کی لڑکیوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ آزادی کے نام پر ہر سال عورت مارچ کا ایک خاص دن مقرر کیا جاتا ہے، لیکن اس آزادی مارچ جو فائدے کی بجائے نقصان دہ ہے اور ان کی سوچ پر شرم سے گردن جھک جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مذہب اسلام کا تمسخر خود اڑانے کے لیے جمع ہوئی ہیں، بہت جلد انھیں منتشر کر دیا جاتا ہے۔
علما نے محض ایک دن کا انتخاب کرکے کسی بھی حوالے سے دن منانا جائز قرار نہیں دیا ہے، جس میں اللہ اور اس کے رسولوں کے دشمنوں کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ ان دنوں کے بارے میں اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ہے، لہٰذا کسی بھی کام کے لیے سالانہ دن مقرر کرنا مذموم بدعت ہے۔
بہتر یہ ہے کہ کسی خاص مقام پر اس مقصد کی افادیت کے لیے قرآنی تعلیمات خصوصاً سورہ نورکا ترجمہ و تفسیر کا بیان اہمیت رکھتا ہے۔ کوئی خاص دن مقرر کرنے کی بجائے جمعۃ المبارک کی اہمیت مسلم ہے۔ اس دن رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ یہی اللہ کا کرم شیطان کو قریب نہیں آنے دے گا اور ذہن اسلامی کاموں کی طرف توجہ دے گا۔ (انشاء اللہ)