انارکی سے …
ستتر سالوں کی مدت میں ہم الیکشن کمیشن کو بااختیار اور مضبوط نہیں بنا سکے
ہمارا سیاسی منظر نامہ کچھ اس طرح سے ترتیب ہو رہا ہے کہ ایک سیاسی قوت اس ملک میں انتشار، فساد اور عدم استحکام چاہتی ہے اور دوسری سیاسی قوت سیاسی اور معاشی استحکام چاہتی ہے۔ جمہوری ریاستوں میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں، حکومت کی کارکردگی پر بات کرتی ہیں، حکومت کی پالیسی میں موجود خامیوں کو اجاگر کرتی ہیں، بری حکمرانی یا کرپشن کے بارے میں حزب اقتدار پر تنقید کرتی ہیں، تجاویز دیتی ہیں، اگر حکومت اصلاح احوال کے لیے اقدامات نہیں کرتی تو پارلیمنٹ کے اندر احتجاج کرتی ہیں، آئین اور قانون کے دائرہ میں رہ کرکبھی جلسے یا پھرکبھی ہڑتال کا آپشن استعمال کرتی ہیں۔
ہمارے ملک میں احتجاج منفی مقاصد کے لیے ہوتا ہے اور اس معاملے میں ہم حدود سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ کبھی ہم آئی ایم ایف کو درخواست لکھتے ہیں کہ پاکستان کو بیل آوٹ پیکیج نہ دیا جائے، یعنی ملک کو دیوالیہ ہونے دیا جائے۔ مہنگائی بڑھے اور ڈالرکی قیمت بڑھے تو خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں، ملک کا دیوالیہ ہوجائے تو واہ! واہ! جو سیاسی پارٹی عام انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آتی ہیں یا اقتدار سے محروم رہتی ہیں، وہ ایسا کرتی ہی کیوں ہیں؟ پاکستان میں ہر الیکشن کو متنازعہ بنایا گیا، ہارنے والوں نے انتخابات کو تسلیم نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن کو دہائیوں سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے،آج نتیجہ یہ کہ الیکشن کمیشن اپنی ساکھ کے بحران کا شکار ہے۔
ستتر سالوں کی مدت میں ہم الیکشن کمیشن کو بااختیار اور مضبوط نہیں بنا سکے۔ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانا کبھی ترجیح ہی نہیں رہی۔ اسی لیے ہمیں اقتدار ملتا نہیں ہے، ہمیں اقتدار پر قبضہ کرنا ہوتا ہے اور اقتدار کو پانے کے لیے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے دیگر لوازمات کا پورا کرنا لازمی ہے۔ مثال کے طور پر اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ سر پر ہونا ضروری ہے، عدالتوں کا مہربان ہونا ضروری ہے اور ساتھ ہی بلیک اکانومی کا تعاون بھی لازم ہے۔
اسی روش پر چلتے چلتے آج ہم اس مقام پر ہیں جہاں تمام جمہوری تقاضے، رواداری اور طور طریقوں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب ایک علی امین گنڈا پورکی گالیاں اور بدزبانی ہی کافی ہے، اگر ایسے اطوار پر حکومت اپنا ردِ عمل نہ دکھائے تو ان صاحبان کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے اور اگر حکومت جواب دے تو ادھم مچایا جاتا ہے، عدالتوں نے سانحہ نو مئی کو سنجیدگی سے نہ دیکھا۔
جنرل فیض حمید نے ریاست کے اندر اپنی ایک ریاست بنائی ہوئی تھی، جس کا نیٹ ورک بہت مضبوط تھا۔حکومت اب آئینی ترامیم کی طرف جا رہی ہے۔ ان ترامیم کے لیے حکومت کو دوتہائی اکثریت حاصل ہے یا نہیں، یہ بات بھی کچھ واضح نہیں ہے۔ اسی اثناء میں ایک سابق جرنیل کا کورٹ مارشل ہوتا ہے۔ ایک نئی نفسیات نے جنم لیا، وہ لوگ جو یہ سمجھتے تھے کہ یہ شخص بہت طاقتور ہے، ان کو مایوسی سے دوچار ہونا پڑا۔ لکی مروت میں پولیس نے بغاوت کردی۔
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ وہ خود افغانستان جاکر طالبان حکومت سے بات چیت کریں گے۔ بانی پی ٹی آئی اور طالبان کے تعلق کے بارے میں جو باتیںکہی جا رہی ہیں، وہ سچ ہونے جا رہی ہیں۔ افغان پالیسی کے بہت سے زاویے ہیں، یہ صرف ایک پالیسی نہیں بلکہ اس کے معاشی پہلو بھی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ لگ بھگ سات یا آٹھ ارب کی اسمگلنگ ان شمال مغربی اور جنوبی مغربی بارڈرز پر ہوتی ہے۔
پاک افغان بارڈر کی بات کریں تو سمجھیں کہ اسمگلروں، دہشت گردوں اور افغان مہاجرین کے لیے یہ سرحد ہے ہی نہیں۔ ان بارڈرز پر نہ صرف اسلحہ کی اسمگلنگ، منشیات کا کاروبار، ڈالر کی اسمگلنگ، گندم کی اسمگلنگ، لگثری موٹر وہیکلز کی اسمگلنگ اور پٹرول کی اسمگلنگ کی جاتی ہے، جو لوگ اس اسمگلنگ سے مستفیض ہوتے تھے، چاہے وہ افغانستان کے طالبان ہوں، یا چمن ، لورائی لائی، کوئٹہ اور بلوچ ایریاز کا مخصوص ٹولا ، انھوں نے مشترکہ مفاد کی خاطر ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیے ہیں۔
ہماری اشرافیہ( ان میں پنجاب اور سندھ کے سرمایہ دار بھی شامل ہیں) جو چند ججزکے فیصلوں کی وجہ سے محفوظ اور امیر سے امیر ترہوئی تھی، وہ بھی اس نیٹ سے جڑے ہوئے ہیں۔ان کو پروپیگنڈا کرنا آتا ہے۔ یہ پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل وڈیجٹل میڈیا جیسے پلیٹ فارم پر قابض ہونا جانتے ہیں۔ سرمایہ بے حساب ہے، ترقی یافتہ ممالک میں کاروبار ہیں، غیرملکی پاسپورٹ ہیں۔
پاکستان نے فائر وال نصب کر ان پراپیگنڈا کوکنٹرول توکیا ہے مگر پھر بھی اشرافیہ کا یہ شاطر گینگ فیک نیوز پھیلانے کے ماہر ہے۔ یہ صرف اس بات پر مات کھا جاتے ہیں کہ کسی جلسہ، دھرنا اور ہڑتال کی کال پر پاکستان کے عوام کو اکھٹا نہیں کر پاتے۔ اسٹریٹ پاور سے محروم ہیں۔ اب چونکہ ان کے لیے نو مئی کو دہرانا آسان نہیں ہے تو ان کی تربیت گالم گلوچ، بدتہزیبی، جھوٹ پر جھوٹ بولنے ، ملک میں عدم استحکام کی فضا بنانے اور فیک نیوز پھیلانے کی ہو رہی ہے۔ ان لوگوں میں کوئی صلاحیت نہیں کہ وہ کوئی منظم اور مضبوط سیاسی جدوجہد کرسکیں۔ یہ لوگ جتنی نشستیں لے کر اسمبلی میں پہنچے ہیں، یہ ان کی حقیقی زمینی مقبولیت سے زیادہ ہیں۔ فیض حمید سے منسلک لوگوں نے بھی دھاندلی کی۔
ان کی تمام عدم استحکام پھیلانے کی حرکات کو دھچکا لگتا ہے جب معاشی طور پر اچھی خبریں سننے کو ملتی ہیں، خاص کر ترسیلاتِ زر میں اضافہ جو پچھلے سال کی نسبت اس سال اگست میں 64% بڑھ گیا۔ اسٹیٹ بینک نے 2%سود کی شرح میں کمی کی ہے، ان حالات میں پاکستان کے لیے یہ کوئی چھوٹی خبر نہیں۔ اسٹیٹ بینک کے اس اقدام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ افراطِ زر پر قابو پایا جا رہا ہے۔
اچھی خبر یہ بھی ملی کہ آئی ایم ایف کی 25 September, 2024 کی بورڈ میٹنگ میں پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر امداد کی منظوری بورڈ کا ایجنڈا ہے، جس کا مطلب پاکستان نے پندرہ ارب ڈالر سعودی عرب اور چین سے Roll-overکروا لیے ہیں۔ پاکستان نے معاشی اعتبار سے ایک سمت پکڑ لی ہے، جو لوگ پاکستان میں عدم استحکام کے خواہاں تھے وہ نا امید ہوئے، مگر اب بھی اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان کی سرحد سے ملحق پاکستان علاقوں میں ایک شورش ہے اورکچھ لوگ ہمارے یہاں سے اس کو ہوا دے رہے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی اور ان کے ساتھی اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ ہٹ دھرمی اور منفی سیاست انھیں اس مقام پر لے آئی ہے، جسے کے آگے آگ کا دریا ہے اور پیچھے اتھاہ گہری کھائی ہے۔ آنے والے چند ہفتے اس بات کا تعین کریں گے۔ کیا خان صاحب اور ان کی کچن کیبٹ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ بحران پر قابو پانے کے لیے ان کے پاس کیا حکمتِ عملی ہے؟ یہ بات تو عیاں ہے ان کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہیں۔ ان کی تبدیلی کی کارکردگی بھی ہمارے سامنے ہے۔ یہ ملک وہ طالبان کے حوالے کرنا چاہتے تھے، بات اب دور تک جاچکی ہے۔
یہ معاملہ اب مودی، ٹرمپ یا بولسنارو یا کسی اور پاپولر لیڈرکا نہیں رہا۔ اب یہ تصادم ان قوتوں کے درمیان ہے جن کا پہلا نمایندہ ایوب خان تھا، پھر ضیاء الحق تھا جو اپنے مالی،گروہی مفادات، سرکاری نوکریوں پر قبضے اور اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے انتہاپسند مذہبی سوچ کو آئینی وقانونی تحفظ فراہم کرتی چلی آرہی ہیں۔ پاکستان کی یہ استعماری قوتیں اپنے رہن سہن ،طور اطوار میں یورپی ہیں، ان کی تعلیم بھی مغربی ہے لیکن سوچ و نظریات رجعت پسندانہ ہیں۔ موقع پرستی ، دوعملی ، اخلاقی پستی اور دوروغ کوئی ان قوتوں کی گھٹی میں شامل ہے ۔ اب کیا ان قوتوں کا ملک کے نظام پر ستر برس سے چلا آرہا قبضہ اب ٹوٹ رہا ہے؟ شاید اس سال کے ختم ہونے تک اس بات کا تعین بھی ہوجائے۔