پنجاب کے 93 ہزار سرکاری ملازمین پلاٹس ملنے کے منتظر
فاونڈیشن میں ترجیحی سسٹم ختم کر کے سنیارٹی کے حساب سے پلاٹ دینے جا رہے ہیں
پنجاب حکومت کی نااہلی، مؤثر میکنزم اور افسران کی عدم دلچسپی کے باعث پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے 93 ہزار سرکاری افسران و ملازمین ممبران پلاٹس لینے کے لیے انتظار کی سولی پر لٹک رہے ہیں جبکہ پنجاب ہاؤسنگ فاونڈیشن کے افسران انھیں طفل تسلیاں دیکر جلد پلاٹ ملنے کی امید دلا رہے ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون اور روزنامہ ایکسپریس کو حاصل دستاویزات کے مطابق پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کا قیام 2004ء میں عمل میں آیا اس وقت ایک لاکھ 44 ہزار سرکاری محکموں کے افسران و ملازمین نے درخواستیں دیں، 20 ہزار نے درخواست دینے کے بعد رابطہ نہیں کیا اور انہیں فارغ کر دیا گیا اب ایک لاکھ 24 ہزار ممبران میں سے 17 ہزار نے پلاٹ نہ لینے پر اپنے پیسے محکمہ سے واپس لے لئے، مجموعی طور پر اب تک 13 ہزار ممبران کو پلاٹ مل چکے ہیں جبکہ 93 ہزار ممبران کو پلاٹ ملنا ابھی باقی ہیں۔
ریکارڈ کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد گریڈ ایک سے گریڈ 7 تک ملازمین کو 5 مرلہ ڈی ٹائپ، گریڈ 8 سے گریڈ 15تک کو 7 مرلہ سی ٹائپ، گریڈ 16سے گریڈ 18 تک کے افسران کو 10 مرلہ بی ٹائپ، گریڈ 19سے گریڈ 20 تک کے افسران کو ایک کینال اے ٹائپ اور گریڈ 21 سے گریڈ 22 تک کے افسران کو ایک کینال اے ون ٹائپ پلاٹ ملیں گے، ریکارڈ کے مطابق صرف لاہور میں 85 کنال اراضی پر سکیم بنا کر5 ہزار سے زائد ممبران کو گھر اور پلاٹ دئیے جا چکے ہیں۔
سال 20۔ 2019ء میں ایک ہزار ممبران کو گھر بنا کر دئیے گئے ہیں اسی طرح راولپنڈی، فیصل آباد، ساہیوال، خانیوال، ملتان، ڈی جی خان اور بہاولپور میں بھی پلاٹس دئیے گئے ہیں دوسری طرف سیالکوٹ، جھنگ، لودھراں میں پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن اپنی سکیمیں بنا رہی ہے، دستیاب ریکارڈ کے مطابق پلاٹوں کی الاٹمنٹ بہتر نہ ہونے پر افسران و ملازمین کورٹس کا رخ کرتے ہیں، ان تک ہاوسنگ فاؤنڈیشن کے سول کورٹس میں 22 سیشن کورٹس میں 55 ہائیکورٹس میں 170 کیسزز چل رہے ہیں جس شہر میں سرکاری اراضی نہ ہو وہاں فاونڈیشن اپنی سکیمیں نہیں بناتی ہے۔
پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن میں 2005 سے تیزی آئی ہے اور سالانہ پلاٹ ملنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، محکمہ تعلیم سے 4 سال قبل ریٹائرڈ ہونیوالی گریڈ 19کی آفیسر ساجد خانم کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 سالوں سے ہر ماہ تنخواہ سے پلاٹ کی قسط کاٹی گئی ہے جب ہم پنجاب گورنمنٹ ہاؤسنگ فاونڈیشن کے ممبر بنے تھے تو کہا گیا تھا ریٹائرمنٹ کے فوری بعد پلاٹ مل جائیگا اب کہا جا رہا ہے کہ گھر بنا کر دیں گے، 18 سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے فاونڈیشن والے کہتے ہیں جلد آپکا نمبر آجائے گا، محکمہ صحت گریڈ 17 کی ملازمہ رخسانہ کوثر کا کہنا ہے کہ 2021 ء میں ریٹائرڈ ہوئی ہوں میں نے ترجیج فیصل آباد میں پلاٹ کو دی تھی، اب فاونڈیشن والے کہہ رہے ہیں کہ اپکا نمبر کیو میں 150 ہے پہلے 149 نمبروں کو فیصل آباد میں پلاٹ دئیے جائینگے بعد میں آپکا نمبر لگے گا، پلاٹ لینے کے لئے آپکو دو سے 3 سال انتظار بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
ساہیوال کے رہائشی سردار اقبال کا کہنا تھا کہ میری اہلیہ کے والد کا پلاٹ فیصل آباد میں ملا تھا محکمہ کے کچھ افسران کی غفلت سے ڈیلر مافیا نے پلاٹ از خود بیچ دیا جب ہمیں لاہور دفتر میں کاغذات کے ساتھ بلایا گیا اور کہا گیا کہ اپکا پلاٹ ٹرانسفر ہونا ہے ہمیں تب علم ہوا اور تب ہم نے ایم ڈی کو درخواست دے کر پلاٹ کی ٹرانسفر رکوائی ہے اس عمل کو ایک سال ہونے کو ہے ابھی تک انکوائری شروع نہیں ہو سکی کہ فیصل آباد کا پلاٹ کس نے اور کیسے بیچا ہے ہم دفتر کے چکر کاٹ رہے ہیں۔
منیجنگ ڈائریکٹر پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن رائے منظور ناصر کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے گزشتہ کئی سالوں سے یہاں تعینات رہنے والے افسران نے درست طریقے سے کام نہیں کیا جس کے باعث آج 93ہزار ممبران کو فوری پلاٹ نہیں مل سکے، ان کا کہنا تھا کہ یہ عجیب محکمہ ہے خود کرایوں کی بلڈنگز میں ہے اور سرکاری ملازمین میں پلاٹ بانٹ رہا ہے، انکا مزید کہنا ہے کہ پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے ٹوٹل ممبران 12 مختلف محکمہ جات سے ہیں جن میں سے محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کے افسران و ملازمین کی تعداد بہت زیادہ ہے اسی وجہ سے ان کے مسائل بھی زیادہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم رولز مرتب کر رہے ہیں فاونڈیشن میں ترجیحی سسٹم ختم کر کے سنیارٹی کے حساب سے پلاٹ دینے جا رہے ہیں، پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن ایکٹ 2004 میں بہت ساری قانونی پیچیدگیاں ہیں جن کو دور کرنے کے لئے ہم اس ایکٹ میں ترمیم کر رہے وراثتی حقوق میں بیوہ اور بچوں کو پلاٹ ملے گا جبکہ پرارٹی کو ختم کرکے سنیارٹی کے حساب سے پلاٹ ملین گے پلاٹ کی، ملکیت تبدیلی کے لئے پہلے 6 ماہ کا وقت تھا جسے ہم 3 دن کررہے ہیں، اخباری اشتہار کے 3 دن بعد ملکیت تبدیل ہو جائیگی انھوں نے بتایا وراثتی جائیداد کے 55 کیسزز 15 سال سے چل رہے ہیں، فاونڈیشن ایکٹ میں وراثتی حقوق کے حوالے سے وضاحت نہیں ہے ہم اسے بھی تبدیل کر رہے ہیں اسلامی نقطہ نظر سے جو وراثتی حقوق ہیں انھیں سے استفادہ کیا جائیگا۔