ہمارا پیارا پاکستان

2022 سے 2023 کے درمیان پاکستان کی کُل ٹیکسٹائل ایکسپورٹس تقریباً 19.3 بلین ڈالر تھیں


Shakeel Farooqi September 17, 2024
[email protected]

وطن عزیز پاکستان جب معرض وجود میں آیا تھا تو اس وقت بے سروسامانی کا عالم تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی نظام درست حالت میں نہیں تھا۔ چناچہ ہر شعبہ زندگی کو نئے سِرے سے ترتیب دینا پڑا جس میں بینکاری، صنعت و حرفت سمیت بہت کچھ شامل تھا۔
پسماندگی کی کیفیت یہ تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں لے دے کر کُل 14 صنعتیں تھیں، جس میں ماچس بنانے کی چھوٹی سی فیکٹری بھی شامل تھی۔ماشاء اللہ اب ملک میں صنعتوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے اور پاکستان میں تیارکی گئی مختلف معیاری مصنوعات دنیا کے مختلف ممالک کو ایکسپورٹ کی جارہی ہیں۔ صنعتی ترقی میں ٹیکسٹائل انڈسٹری پیش پیش ہے۔ دنیا کی منڈیوں میں انتہائی مسابقت کی دوڑ میں یہ صنعت بہت آگے ہے، بیرونی زرمبادلہ کمانے کا یہ بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکسٹائل انڈسٹری روزگارکا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ 2022 سے 2023 کے درمیان پاکستان کی کُل ٹیکسٹائل ایکسپورٹس تقریباً 19.3 بلین ڈالر تھیں جس میں سوت، کپڑا، ملبوسات اورگھریلو ٹیکسٹائل شامل ہیں۔
ٹیکسٹائل کے علاوہ پاکستان کی ایک اور صنعت بھی ہے جس کا دنیا میں بڑا نام ہے اور جو قیمتی غیر ملکی زرمبادلہ کے حصول کا ایک انتہائی قابل ذکر ذریعہ ہے اور وہ ہے کھیلوں کا سامان بنانے کی صنعت۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی اس صنعت کے فروغ اور ترقی کے لیے بھرپورکوششیں کرے۔پاکستان میں تیار کی جانے والی فٹ بال کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے جس کی وجہ سے اس کی دنیا بھر میں بہت مانگ ہے۔ پاکستان اپنی بنائی ہوئی فٹبال شمالی امریکا اور یورپ کو ایکسپورٹ کرتا ہے۔

اس کے علاوہ جرمنی اور بیلجئیم بھی اس کے خاص خریداروں میں شامل ہیں۔ پاکستان میں بنائی ہوئی فٹبال کی طلب اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ اس کی وجہ سے اب لاطینی امریکا برازیل اور ارجینٹینا نے اس کے مقابلے پر آنے کے لیے اپنے کارخانے قائم کرنے شروع کر دیے ہیں۔ جیسے جیسے مقابلہ سخت ہو رہا ہے پاکستان کو چاہیے کہ وہ معیار اور مسابقتی قیمتوں کو متعین کرے تاکہ اس کی فٹ بال کی طلب برقرار رہے۔اسلحہ سازی کے میدان میں بھی پاکستان روز بروز ترقی کر رہا ہے اور اس شعبے کی ترقی کی رفتار تیزکرنے کے لیے ہر سال ایک نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں دلچسپی رکھنے والے بیرونی ممالک شرکت کرتے ہیں اور یوں پاکستانی اسلحے کی فروخت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی مصنوعات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کے لیے اعلیٰ پیمانے پر توجہ دی جائے جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور نجی ادارے مل کر طویل مدتی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی مصنوعات کے معیارکو بہتر بنانے اور درآمدات کو آہستہ آہستہ کم کرنے کی کوشش کریں۔

جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو وہ آتی جاتی اور تبدیل ہوتی رہتی ہیں اس لیے انتہائی ضروری ہے کہ ایکسپورٹ کے شعبہ کا تسلسل برقرار رکھنے اور اس کا پہیہ تیز کرنے کے لیے ایک جامع اور متفقہ منصوبہ تیارکیا جائے جو حکومت میں تبدیلی سے بالاتر ہو۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی چپقلش کی وجہ سے ملکی استحکام مسلسل اور بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ حب الوطنی کا دعویٰ کرنے والے سیاستدانوں کو اس کا قطعی احساس نہیں ہے۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ ان کے اس رویے کی وجہ سے ملک کی ساکھ اور ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اگر ہمارے سیاستدان ملک و قوم سے مخلص ہیں تو انھیں اپنی رَوِش کو ترک کردینا چاہیے اور اس کام میں ذرا بھی تاخیر نہیں کرنا چاہیے۔
اس وقت جب کہ یہ کالم تحریرکیا جارہا ہے ملک و قوم کو شدید بیرونی اور اندرونی خطرات لاحق ہیں۔ ملک دشمن عناصر نے گٹھ جوڑ کر کے شدید مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں جس میں شورش اور سازش دونوں شامل ہیں۔ہمارے ازلی دشمن نے ہمارے خلاف ایک غیر اعلانیہ ہائی برڈ جنگ چھیڑ رکھی ہے جس میں وہ اپنے کرائے کے ٹٹوؤں کو استعمال کر رہا ہے۔ 1965 کی اعلانیہ جنگ میں عبرتناک شکست کھانے کے بعد ہمارے دشمن نے پینترا بدل لیا ہے۔ اپنے مذموم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ دہشت گردی کا ہتھیار استعمال کر رہا ہے لیکن پاکستان کے بیدار عوام اس کے ناپاک عزائم کو ہرگزکامیاب نہیں ہونے دیں گے، اور وہ پاکستان کے دلیر فوجی جوانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ دشمن کی یہ عیاری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ وہ اِس سے پہلے بھی یہ حربہ آزما چکا ہے اور منہ کی کھا چکا ہے۔
پاکستان کی معیشت قوتِ خرید کے لحاظ سے دنیا کی معیشتوں میں 25 ویں نمبر پر ہے جب کہ ڈالر کے لحاظ سے اِس کا نمبر 50 واں ہے۔ معروف معیشت دانوں کے مطابق اپنی معیشت کی بہتری اور استحکام کے لیے جی ڈی پی کو 7 فیصد تک بڑھانے اور خسارے کو 4 فیصد تک کم کرنے کی ضرورت ہے، اگرچہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں اِس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس ہدف کا حصول ناممکن ہے۔
ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ 1960 کی آخری دہائی میں جب ملک کی باگ ڈور عسکری حکومت کے ہاتھوں میں تھی اور پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن کے سربراہ مشہور و معروف معیشت دان ڈاکٹر محبوب الحق تھے تو پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 7 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سیاست اور معیشت کا استحکام تھا۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ وطن عزیز اس ہدف کو دوبارہ حاصل نہیں کرسکتا۔
برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ راقم الحروف کے ساتھ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر صاحب نے اِس خواہش اور امید کا اظہارکیا تھا کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور امریکی ریاست نیواڈا میں جغرافیائی اعتبار سے بہت زیادہ مماثلت ہے۔ بلوچستان کی طرح نیواڈا بھی بنجر اور بے آب وگیاہ علاقہ ہے جہاں سبزہ خال خال نظر آتا ہے۔ دونوں خطے پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہیں اور بارش برائے نام ہوتی ہے اور جب ہوتی ہے تو سیلابی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ دونوں خطوں میں پانی کا شدید فقدان ہے۔ اِس کے علاوہ دونوں خطے معدنیات کے خزانوں سے مالا مال ہیں جن میں تانبہ، سونا اورکوئلہ شامل ہیں۔ دونوں خطوں میں آبادی بہت کم اور بکھری ہوئی ہے اور شہری آبادی کم کم ہے اور بیشتر حصہ گاؤں دیہات پر مشتمل ہے۔ دونوں خطوں میں درجہ حرارت اپنی انتہا پر ہوتا ہے اور شدید سردی اور شدید گرمی پڑتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں