ایمان فروختند
اخبار خبروں کے مجموعے اور تبصروں تجزیے کا نام ہے اس کے علاوہ بھی مضامین ہوتے ہیں
اخبار خبروں کے مجموعے اور تبصروں تجزیے کا نام ہے اس کے علاوہ بھی مضامین ہوتے ہیں۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ اخبار ہی اخبار کے لیے راستہ بناتا ہے نئے افق دکھاتا ہے اور لکھاری وہی سب کچھ لکھتے ہیں جو پڑھنے والے کے مزاج کے مطابق بھی ہو اور اسے یہاں سے کوئی نئی بات، کوئی نئی سوچ ملے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اخبار سے جو نئی سوچ اسے ملے وہ اس کے لیے ایک راستہ متعین کردے جس پر چل کر وہ شاید اپنے لیے کوئی بہتر مستقبل حاصل کرسکے۔ اخبار کو پروپیگنڈے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
عالمی جنگوں میں اخبار، ریڈیو، فلم تینوں کو یعنی آج جو لفظ ہے ''میڈیا'' سے بھرپور طور پر استعمال کیا گیا، لوگوں کو گمراہ کیا گیا، غلط امیدیں اور خبریں دے کر آخر کار جب انھیں حقیقت کا علم ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی یہ فاتح اور مفتوح دونوں اقوام کے ساتھ ہوا اور یہ زیرک ذہنوں کی منفی کارکردگی تھی، ہر ملک میں آج بھی یہی سلسلہ ہے جو ان خطوط پر استوار ہے، ان ملکوں نے جن کا ذکر جنگ عظیم میں ہوتا ہے، اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا اور ان کو اب کوئی گمراہ نہ کرسکے یا پھر کرسکتے ہیں کہ ان پر آزمائش کا دوسرا دور آیا نہیں ہے آئے تو دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ ہم تو اس سلسلے میں بہت ''بادشاہ'' ملک ہیں۔
ہمارا کمال یہ ہے کہ ہم اصل خبر کی عوام کو ہوا تک نہیں لگنے دیتے اور Planned اورProposed خبریں عوام تک پہنچاتے ہیں یہ خبریں انھیں جماعتوں اور لیڈروں سے ملتی ہیں اور وہ اتنے احمق نہیں کہ اصل خبر کو افشا کریں اگر ان کے مفاد میں نہیں ہے خبر وہی آتی ہے کہ ایک زمانے میں ہم مذاق میں درست کہا کرتے تھے ''کیا پکے گی ترکاری جو حکم ہوا سرکاری'' یہ ایک دوسرے سے افہام و تفہیم کا اشارہ تھا۔ اب یہ بہت بڑی سطح پر ہے حکومت کی اپوزیشن سے افہام و تفہیم اور جواباً اپوزیشن کی حکومت سے ''افہام و تفہیم'' ہاں کبھی کبھی غیر ملکی ذرائع سے کچھ ایسی خبریں سامنے آتی ہیں جو ہماری ہوتی ہیں اور سناتے غیر ہیں اور اس وقت ہمیں نچلی سطح پر بھی ''افہام و تفہیم'' سمجھ میں آجاتی ہے۔
ہمارا ملک دہشت گردوں کے نرغے میں تھا۔ انھوں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کر دیا اور پھر پشاور ایئرپورٹ پر، اب حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ آپریشن ضرب عضب کیا جائے ۔ پاکستان کی فوج کا ایک ذہن ہے وہ ہے حمیت اور غیرت اور دین اسلام سے مشروط محبت اور عقیدت، وہ مجاہد ہیں۔ غازی ہیں، یا پھر شہید ہیں۔ ان رتبوں کے علاوہ وہ کچھ پسند نہیں کرتے وہ ایمان کی کیاری کے گلاب ہیں جن سے آخرت پر یقین کی خوشبو آتی ہے اور جن سے لڑ رہے ہیں وہ کون ہیں ۔ BBCکی ایک خبر کے مطابق جو اس اخبار میں چھپی ہے جہاں آپ مجھے پڑھ رہے ہیں وہ کس برانڈ کے مسلمان ہیں۔
برا نہ مانیے مسلمانوں میں بھی برانڈ ہونے لگے ہیں۔ خبر کے مطابق شمالی وزیرستان کے بازار کے ایک دکاندار رشید الرحمان جس کا نام ہے اور جس کی دکان میرانشاہ میں ہے اس آپریشن سے اسے شدید نقصان ہوا ہے کیوں کہ اس کے Best Customer بہترین گاہک طالبان تھے وہ ان سے روزانہ ایک لاکھ سے سوا لاکھ تک کا کاروبار یکطرفہ کرتا تھا یعنی وہ خریدتے تھے یہ بیچتاتھا وہ اشیا تھیں امریکی، فرانسیسی، برطانوی، غیر ملکی برانڈ کی پرفیومز اور باڈی اسپرے، رشید الرحمن اسلام آباد اور لاہور سے خاص طورپر غیر ملکی اشیاء ان کے لیے لاتے تھے بقول ان کے طالبان کو پاکستانی اشیا پسند نہیں تھیں۔
صابن میں بھی انھیں ''امریکی برانڈ'' کے باہر کے صابن اور شیمپوز پسند ہیں۔ بنوں میں ایک مزدوری کرنے والے نوجوان کے مطابق طالبان اس سے پندرہ سو روپے سے دو ہزار روپے تک قیمت کے پرفیوم خریدتے تھے اور یہ کبھی نہیں کہتے تھے کہ فلاں چیز کی قیمت میں کمی کردو بلکہ وہ منہ مانگی قیمت دیتے تھے۔ ایک دکاندار کا کہناہے کہ شہر میں مہنگی خریداری صرف طالبان کرتے ہیں۔
وہ سیاہ شیشوں والی گاڑیوں میں آتے ہیں اور دل کھول کر خریداری کرتے ہیں۔ نوجوان کے مطابق طالبان ایسی ایسی چیزیں خریدتے ہیں جن کے بارے میں ہم صرف سوچ ہی سکتے ہیں۔ طالبان کی خریداری میں جوگرز اور ہنڈا موٹر سائیکل بھی شامل ہے۔ کچھ کہنا مشکل ہے سمجھنا آسان تو سمجھ لیجے یہ عادات کن لوگوں کی ہیں کون یہ سب Afford کرسکتے ہیں اور کرواسکتے ہیں۔ امریکا سے لڑ رہے ہیں امریکی صابن اور شیمپو سے نہاکر ، کیا بات ہے ان کی جناب یہاں ہم پر فائر اور موت کا کھیل کھیلنے کے بعد امریکی صابن شیمپو سے غسل اور امریکی باڈی اسپرے اور پرفیوم ان کو ختم کرنے کے لیے رات دن ایک کر رکھا ہے ۔یہ ہم پر کون سا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں؟۔ سب عیاں ہے ۔ بو لو یا نہ بولو۔ جانتے سب ہو۔!
ہماری مشکلات کا خاتمہ نہیں ہورہا، ہم آزمائش کے نئے نئے امتحانوں میں متبلا ہیں اور مبتلا ہونے والے ہیں۔ ایک اور فتنہ ''داعش'' کی صورت میں سامنے ہے جس نے شام اور عراق کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرکے نام نہاد'' اسلامی سلطنت'' قائم کردی ہے ۔ فی الحال ایک فضائی حملے میں ''امیر المومنین زخمی ہوکر وہاں سے فرار ہوگئے۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امیر المومنین قتل بھی ہو سکتے ہیں مگر سوچ کا ختم ہونا ضروری ہے ایک کے بعد دوسرا نمرود آتے رہتے ہیں۔ یہ تو ہم بھولے نہیں ہیں کہ ظلم وستم کے مرکز کوفہ اور بغداد ہی رہے ہیں۔ وہاں سے ہی ہر زمانے میں ظلم و ستم کی داستان چلتی ہے اور اب ان کا ارادہ بغداد جانے کا ہی ہے۔
یہ راستے کس نے ان کے لیے زر کثیر خرچ کرکے اسلحہ کی فراوانی کی کہ وہ میزائل بازاروں میں لے کر گھوم رہے ہیں۔ پیدا کیے ہیں اور کون انھیں طاقت پہنچا رہا ہے۔ وہ خفیہ ہاتھ دین اسلام اور مسلمانوں کے عیار دشمن کا ہے۔یہ کون لوگ ہیں اور کیا چاہتے ہیں اور ان کو ہدایات کہاں سے مل رہی ہیں ''ایمان فروختند چہ ارزاں فروختند'' شام اور عراق کے کچھ علاقوں پر قبضے کے بعد یہ نیا ''اسرائیل'' بلکہ نام نہاد اسلامی اسرائیل قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس کی آڑ میں اسرائیل اپنا نامکمل ''ایجنڈا'' مکمل کرسکے۔
داعش نے پاکستان ،ایران، بھارت، چین میں بھی کارروائیوں کا اعلان کیا ہے۔ ''نیو ورلڈ آرڈر'' پر عمل در آمد اس طرح ہوگا یہ ہیں ''سچے مسلمان'' کعبے کو ڈھانے کا اعلان کرنے والے شاید قیامت کی نشانیوں میں سے اب واضح اشارے مل رہے ہیں اﷲ رب العزت کو ایک بار پھر اپنے گھر کی حفاظت کرنی ہے اور وہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس بار وہ ''ابراہا کے لشکر'' کو کس طرح تباہ کرے گا۔ انشاء اﷲ