بلوچستان کے سرداری نظام نے کیسے جنم لیا
صوبے بھر کو دہشتگردی، بدامنی کا نشانہ بنانےوالے مفاد پرستوں کے نظریاتی پروپیگنڈے کاپوسٹ مارٹم
(گذشتہ سے پیوستہ)
رابرٹ سینڈیمن 1866ء سے ڈیرہ غازی خان میں تعینات تھا۔اس زمانے میں برطانوی دور کے صوبہ پنجاب کے اُن علاقوں میں بدامنی تھی جو بلوچستان کے ساتھ لگتے تھے۔ مسلح قبائل کے حملوں کی وجہ سے برطانوی انتظامیہ پریشان تھی۔
حملہ آور مویشی ہانک لے جاتے اور لوگوں کو بھی مار دیتے۔شروع میں رابرٹ ان سے جنگ کرتا رہا۔بعد ازاں وہ قبائل کے ساتھ امن مذاکرات میں شریک رہا ۔ اس نے قبائل کے ساتھ اٹھ بیٹھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ متحارب قبائل کو گولی نہیں محبت و عزت دے کر مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں رابرٹ سینڈیمن نے یہ طریقہ اختیار کیاکہ وہ قبائل کے سرداروں پر نوازشات کی بارش کرنے لگا۔
کبھی انھیں نقد رقم دیتا اور کبھی تحفے میں مویشی ۔کبھی قبیلے کے افراد کو مقامی فوج میں ملازمت دی جاتی۔اس طریقے سے رابرٹ نے سرداروں کا اعتماد حاصل کر لیا اور ان کے قریب ہوگیا۔ رابرٹ سینڈیمن کی پالیسی یہ تھی کہ عوام کی خوشنودی پانے سے بہتر ہے کہ ان کے چند سرداروں پہ مہربانیاں کی جائیں تاکہ وہ برطانوی سرکار کے وفادار ہو جائیں۔پھر قبیلہ بھی خودبخود رام ہو جاتا۔رابرٹ کی یہ پالیسی کامیاب ثابت ہوئی اور بلوچ سرداروں نے پنجاب پہ حملے ترک کر دئیے۔
اس زمانے میں بلوچستان میں انگریز کی یہ پالیسی تھی کہ گولی کا جواب گولی سے دیا جائے۔ ماضی میں اعلی انگریزرابرٹ سینڈیمن کی پالیسی سے متفق نہیں تھے مگر جب حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے تو اسے موقع دیا گیا کہ وہ سرداروں سے دوستی کو ترجیح دینے والی اپنی پالیسی پورے بلوچستان میں آزما سکے۔مقصد یہ تھا کہ علاقے میں خانہ جنگی ختم ہو جائے۔
رابرٹ نے پنجاب میں مقیم چند سرداروں کو ساتھ لیا اور بطور مہمان مری وبگتی قبائل کے علاقے میں جا پہنچا ۔ ان قبیلوں کے سرداروں کو عزت واحترام دیا اور ان کے تمام مطالبات تسلیم کرنے کا وعدہ کیا۔ یوں ان کے ساتھ بھی امن معاہدہ انجام پا گیا۔ وہاں سے پھر قبائلیوں کا لشکر لیے رابرٹ قلات پہنچا ۔ قبائلی لشکر دیکھ کر خان قلات کو بھی متحارب بلوچ سرداروں اور انگریزوں سے نیا معاہدہ کرنا پڑا جو 1876ء میں انجام پایا۔یہ مستونگ معاہدہ کہلاتا ہے۔
مستونگ معاہدہ انقلابی ثابت ہوا کیونکہ اس نے بلوچستان میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں پیدا کر دیں۔ اول اس کے ذریعے انگریز نے عملاً بلوچستان پہ قبضہ کر لیا۔ریاست قلات اور حکومت برطانوی ہند کے درمیان انجام پائے اس معاہدے کی رو سے انگریز کو اختیار مل گیا کہ علاقے میں تعینات اس کا (انگریز )پولیٹکل ایجنٹ سبھی قبائل کے درمیان تنازعات حل کرے گا۔اگر سرداروں یا خان کے درمیان کسی جھگڑے یا تنازع نے جنم لیا تو تب بھی ثالث انگریز ہو گا۔ انگریز بلوچ سرداروں کو رقم بھی دینے لگے تاکہ وہ اپنے قبائل کو جنگ و جدل سے باز رکھیں۔یہ کل رقم سالانہ تین لاکھ بیس ہزار روپے پر مشتمل تھی۔اس طرح خان قلات کی بیشتر طاقت جاتی رہی اور وہ رسمی حکمران بن گیا۔علاقے کا اصل حکمران انگریز ایجنٹ بن بیٹھا۔
رفتہ رفتہ انگریزوں نے علاقے کی کاٹ چھانٹ بھی کر ڈالی۔ڈیرہ غازی خان پنجاب میں شامل کر دیا۔ جیکب آباد سندھ میں شامل ہوگیا۔مری، بگتی، کھیتران قبائل اور چاغی کے علاقے 'قبائلی علاقہ جات'قرار پائے۔نصیرآباد، نوشکی، پشین، چمن ، ژوب اور لورالائی کے علاقوںپر مشتمل 'برٹش بلوچستان 'کا صوبہ بن گیا جو سرکاری طور پہ''چیف کمشنرز پروینس آف برٹش بلوچستان'' (Chief Commissioner's Province of British Baluchistan)کہلایا۔ لس بیلہ اور خاران کی ریاستیں 'خصوصی علاقے' قرار دے کر قلات میں براجمان انگریز پولیٹکل ایجنٹ کے سپرد کر دی گئیں۔ یوں ریاست قلات جھالاوان، ساراوان ، کچھی اور مکران تک محدود ہو گئی۔اس تقسیم کے خلاف کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ انگریز نے برطانوی ہند کا حصّہ بنے نئے علاقے کو ''بلوچستان ایجنسی''کا نام دیا۔ یہی ایجنسی اب پاکستان کا صوبہ بلوچستان کہلاتی ہے۔
غرض بلوچستان میں خان قلات کا جو رہا سہا اثرورسوخ تھا ، انگریز نے اسے سخت نقصان پہنچایا۔ ڈاکٹر نصیر دشتی اپنی انگریزی کتاب ''The Baloch and Balochistan''میں لکھتے ہیں کہ اس معاہدے کے ذریعے عملی طور پہ بلوچستان کے علاقے پر انگریزکا قبضہ ہو گیا۔انگریز خود بھی اس حقیقت سے واقف تھے۔1886ء میں بلوچستان ایجنسی کی ایڈمنسٹریٹو رپورٹ شائع ہوئی۔اس میں درج ہے:''بلوچستان وفاق (ایجنسی ) میں گورنر جنرل کا (پولٹیکل )ایجنٹ عملی طور پہ خان (قلات)کی جگہ حاکم بن گیا ہے۔ پورے بلوچستان میں یہ تسلیم کیا جا چکا کہ ایجنٹ ٹو گورنر جنرل ہی علاقے کا حاکم ہے۔''
سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی کہ علاقے میں آزاد و خودمختار سرداروں کا ایک نیا ایلیٹ یا اشرافیہ طبقہ پیدا ہو گیا۔ہر قبیلے میں عام آدمی روزمرہ مسائل حل کرنے کے سلسلے میں اپنی طاقت کھو بیٹھا، حالانکہ پہلے وہ قبائلی معاملات میں خاصا دخیل تھا۔ اب ہر سردار کسی بادشاہ کے مانند اپنے علاقے پر حکومت کرنے لگا۔ عوام اس کے ماتحت ہو گئے۔اگر سردار اچھا ہوتا تو اس کے قبائلی سکون سے رہتے۔اگر وہ خود غرض ہوتا تو قبائلی عوام کی زندگی اجیرن بن جاتی۔خاص بات یہ ہے کہ 1947ء تک نہ کسی سردار اور نہ انگریز نے یہ کوششیں کیں کہ بلوچستان میں تعلیم ، علاج اور صنعت و حرفت و تجارت متعارف کروا کر عوام کو جہالت، بیماری اور غربت سے نجات دلائی جائے۔
انگریز تو یہی چاہتا تھا کہ بلوچستان کے عوام ناخواندہ اور غریب رہیں کیونکہ تعلیم وتربیت پا کر وہ اپنے حقوق سے آگاہ ہو جاتے۔تب وہ علاقے میں اپنے حقوق پانےمکرم ،رحمۃ للعالمین،امام الانبیاء حضرت محمد مصطفٰیﷺ کی سیرت کے درخشاں پہلوکی جدوجہد شروع کر دیتے جس سے سردار اور انگریز، دونوں خائف تھے۔ انھوں نے دانستہ بلوچستان کی ترقی سے اس درجے غفلت برتی کہ علاقے میں 1947ء تک کوئی کالج ہی قائم نہیں کیا گیا۔
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ موجودہ صوبہ بلوچستان کبھی ایک آزاد ریاست نہیں رہا بلکہ یہ مختلف ریاستوں میں منقسم تھا ۔یہ ریاستیں بھی اپنی تاریخ کے بیشتر ادوار میں کسی بڑی طاقت کی مطیع وباج گذار رہیں۔ یہ دعوی تاریخ کی کسوٹی پر جھوٹ نکلتا ہے کہ ماضی میں بلوچستان ایک آزاد وخودمختار ریاست تھا۔ یہ البتہ حقیقت ہے کہ انگریز نے باقاعدہ طور پر قلات کو ''شاہی ریاست ''(Princely state)کا درجہ نہیں دیا، مگر سرکاری خط کتابت میں اعلی انگریز افسر یہ اشارے دیتے رہے کہ وہ قلات کو اپنی ماتحت شاہی ریاست ہی سمجھتے ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی تھی کہ ریاست قلات عملاً انگریز کے قبضے میں تھی۔
بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت
بلوچستان کو بزور پاکستان میں شامل کیا گیا، یہ دعوی بھی تاریخ کی روشنی میں درست ثابت نہیں ہوتا۔برطانوی بلوچستان ، ریاست قلات، خاران اور لس بیلہ کے علاقے قانونی طور پہ پاکستان کا حصّہ بنے۔ صرف ریاست قلات کے معاملے میں ایک غلطی ہوئی جسے تاریخی حقائق انجانے میں اور نادانستہ طور پر انجام پائی فروگزاشت قرار دیتے ہیں۔
قبل ازیں بتایا گیا کہ بلوچستان میں سرداروں اور انگریز نے اشرافیہ طبقہ بنا کر عوام کو اپنا محکوم بنا لیا۔ بیسویں صدی میں تعلیم کے پھیلاؤ کی وجہ سے انسانی حقوق اور جمہوریت کا لٹریچر علاقے کی نئی نسل تک بھی پہنچنے لگا۔ شعور و آگاہی میں اضافے کے باعث ایک تعلیم یافتہ بروہی، عبدالعزیز کرد نے 1920ء کے بعد ایک سیاسی جماعت، ینگ بلوچ پارٹی کی بنیاد رکھی۔
یہ بلوچستان سے سرداری نظام اور انگریز عملداری کا خاتمہ چاہتی تھی تاکہ عوام آزاد وباختیار ہو کر حکومت اپنے ہاتھوں میں لے سکیں۔ جلد ہی سرداری نظام کے باعث زیرعتاب آئے ایک نوجوان سردار، میر یوسف عزیز مگسی اس جماعت کے سربراہ بن گئے۔ پارٹی کا نیانام ''انجمن اتحاد بلوچستان ''رکھا گیا۔اس نے جدید سیاسی و عمرانی نظریات پہ مبنی لٹریچر چھاپ کر بلوچستان کی نئی نسل کو باشعور بنایا اور وہ اپنے حقوق پانے کے لیے متحرک ہو گئی۔اس جمہوری پارٹی کو مگر بعد میں احمد یار خان نے کچل دیا کیونکہ وہ اسے اپنے آمرانہ اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔
احمد یار خان 1933ء میں خان قلات بنے۔ تاج برطانیہ کے وفادار تھے، مگر انگریز افسر اسے ''گھڑی میں تولہ ، گھڑی میں ماشہ ''قسم کا انسان سمجھتے تھے ، ایسا انسان جو آئے دن اپنی رائے بدل لیتا تھا اور کوئی مصمم ارادہ نہیں کر پاتا۔قلات میں تب کے انگریز نمائندے ،ایڈوریڈ ویکفیلڈ (Edward Wakefield)نے احمد یار خان کے بارے میں وائسرائے ہند کو یہ رائے دی تھی:'' he is of a somewhat vacillating character and liable to be swayed by the last opinion or advice offered to him''
1935ء میں حکومت برطانوی ہند نے انڈیا ایکٹ متعارف کرایا اور ہندوستان کو وفاق بنا دیا۔ اس وفاق میں ریاست قلات کو بھی شاہی ریاست کے طور پر شامل کیا گیا ۔ اس پر احمد یار خان نے احتجاج کیا کیونکہ وہ اپنی ریاست کو آزاد وخودمختار سمجھتے تھے۔ اس پر حکومت نے قلات کا معاملہ التوا میں ڈال دیا۔ خان قلات نے انگریز سے مطالبہ کیا کہ اس کی ریاست کو بھی وفاق ہندوستان میں شامل کیا جائے تاکہ وہ مقامی سیاست میں حصہ لے سکے۔ اس تبدیلی سے عیاں ہے کہ اپنی آزادی کا اعلان کرنے کے بعد احمد یار خان کو محسوس ہو گیا کہ یہ عمل انہیں انگریز سے دور کر سکتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ ریاست میں اپنا اثرورسوخ کھو بیٹھے۔لہذا اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کے لیے ضروری محسوس ہوا کہ وہ انگریز کی چھتری تلے آ جائیں۔
حکومت برطانوی ہند کے فارن سیکرٹری ،اولف کیروے (Olaf Caroe)نے اس معاملے پر لندن یہ رپورٹ بھجوائی:''ریاست قلات میں خان بلاشرکت غیرے حاکم کی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ خاران اور لس بیلہ کے حکمران اس کی سیادت تسلیم نہیں کرتے۔بلوچ سرداروں کی اکثریت بھی اس کو اپنا چیف نہیں مانتی۔لہذا اگر ریاست قلات کو شاہی ریاست قرار دے کر وفاق ہندوستان میں شامل کیا گیا تو بلوچستان ایجنسی میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے اور انارکی پھیل جائے گی۔''
1940 ء تک بہرحال یہ حقیقت سامنے آ چکی تھی کہ انگریز قلات کو آزاد ریاست نہیں سمجھتا بلکہ اس کے نزدیک وہ حکومت برطانوی ہند کی ایک ریاست تھی۔31 دسمبر 1941ء کو وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری نے خان قلات کو ایک سرکاری خط بھجوایا اور لکھا:''ہزہاینس نے اپنے دعوی کی بنیاد معاہدہ مستونگ کی شق 3 پر رکھی اور قلات کو آزاد ریاست قرار دیا ہے۔مگر یہ شق معاہدہ 1854ء کی شق 3 کا تسلسل ہے۔اور اُس معاہدے کی شق کے مطابق خان قلات پر لازم ہے کہ وہ ، اس کی آل اولاد اور جانشین ہروقت حکومت برطانیہ کے ماتحت رہیں گے۔لہذا عملی طور پہ ریاست حکومت برطانیہ کی ماتحت ہے اور کوئی اور معاہدہ اس حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔''
احمد یار خان کو محسوس ہو رہا تھا کہ کانگریس اور مسلم لیگ کی جنگ میں ریاست قلات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ ہر قیمت پر اپنا اقتدار محفوظ کرنا چاہتے تھے۔یہی وجہ ہے، جب مارچ 1946ء میں حکومت کی منتقلی کے سلسلے میں برطانیہ سے کیبنٹ مشن ہندوستان آیا تو احمد یار خان نے اپنا کیس اس کے سامنے لڑنے کی خاطر قائداعظم ؒمحمد علی جناح کی خدمات حاصل کر لیں۔ قائد ہندوستان میں چوٹی کے وکیل تھے۔ جلد ہی وکیل اور موکل کے مابین دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے۔ان کے مابین ربط ضبط کافی بڑھ گیا ۔
دو جون 1947ء کو پاکستان اور بھارت کے قیام کا اعلان ہو گیا۔ کانگریس پارٹی کا استدلال یہ تھا کہ شاہی ریاستیں ہندوستان کا حصہ ہیں لہذا ان کو بھارت میں شامل ہونا چاہیے۔ آئین پسند قائداعظم ؒکا کہنا تھا کہ ہر ریاست کے حکمران اور عوام کو مل کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ بھارت یا پاکستان میں شمولیت چاہتے ہیں یا آزاد حیثیت حاصل کرناان کا مشن ہے۔
ریاست قلات کے مستقبل کے بارے میں دہلی میں 4 اگست کو ایک اجلاس ہوا جس میں وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن، اس کا نائب، لارڈ اسمے، قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، احمد یار خان ، محمد اسلم خان (وزیراعظم قلات)اور آئینی امور میں خان کا مشیر، نواب زادہ سلطان احمد شریک ہوئے ۔اس میں پانچ شقوں پر مشتمل ایک اسٹینڈ سٹل (جیسا ہے، ویسا ہی رہے )قسم کا معاہدہ وجود میں آیا جس کا اعلان وائسرائے کے دفتر نے 11 اگست کو کیا۔
اس اسٹینڈ سٹل معاہدے میں مجوزہ مملکت پاکستان کے نمائندوں نے قلات کو آزاد ریاست کے طور پہ تسلیم کر لیا۔اس اعلان کی بنیاد پر اسی دن خان قلات نے اپنی ریاست کی آزادی کااعلان کر دیا۔ حکومت پاکستان کے نزدیک یہ اعلان مگر غیر اخلاقی ، غیر قانونی اور یک طرفہ تھا کیونکہ معاہدے کی بقیہ چار شقوں سے عیاں ہے کہ پاکستان نے صرف مذید مذاکرات جاری رکھنے کے لیے خان کا یہ موقف تسلیم کیا کہ قلات ایک آزاد ریاست ہے۔ اس مطالبے پر سرکاری طور پہ مہر نہیں لگائی گئی۔ لگتا ہے کہ خان قلات نے قائداعظم ؒسے اپنی قربت کا فائدہ اٹھایا اور قلات کی خود مختاری کا اعلان کردیا تاکہ اپنا اقتدار قائم رکھ سکیں۔
مورخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس وقت قائداعظم ؒمحمد علی جناح حد درجہ مصروف تھے۔ انگریز اور ہندو ، دونوں قیام پاکستان کے سلسلے میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے۔ اور قائداعظمؒ مع اپنی ٹیم کے ان کی سازشوں کا مقابلہ کرنے میں مصروف تھے۔اسی لیے انھیں اس امر پر غور وفکر کرنے کا موقع ہی نہیں ملا کہ اگر ریاست قلات کو آزاد تسلیم کر لیا گیا تو اس عمل کے کتنے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ شاید وہ سمجھتے تھے کہ احمد یار خان تو دوست و ہمدرد ہے، ان کے ساتھ تو بعد میں بھی معالات طے کیے جا سکتے ہیں، پہلے انگریز اور کانگریس کی چالوں کا تو توڑ تلاش کیا جائے۔
یہ یاد رہے کہ کانگریس اور انگریز ، دونوں نے بھرپور سعی کی تھی کہ برطانوی بلوچستان پاکستان کا حصّہ نہ بننے پائے۔حکومت نے پہلے اعلان کیا کہ وہاں29 جون 1947ء کو ریفرنڈم ہو گا جس میں شاہی جرگے (ریاست قلات کے سرداروں کو چھوڑ کر )اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے ارکان نے ووٹ ڈال کر علاقے کی قسمت کا فیصلہ کرنا تھا۔ بعد ازاں ایجنٹ ٹو گورنر جنرل نے اعلان کیا کہ اس دن صرف وائسرائے ہند کا اعلان پڑھا جائے گا اور تیس گھنٹے بعد ووٹنگ ہو گی۔اس تبدیلی کے پیچھے صورتحال کو بدل دینے کے لیے وقت حاصل کرنا تھا۔ یہ کام انگریز کئی عشروں سے کر رہا تھا لیکن اس بار پاکستان کے حق میں عوام کا جوش و خروش دیکھ کر سردار انگریز کے پھندے میں نہیں پھنسے۔
29 جون کو ارکان ِشاہی جرگہ (بشمول نواب اکبر خان بگتی) نے وائسرائے ہند کا اعلان پڑھے جانے کے فورا بعد بہ بانگ دہل کہہ ڈالا کہ تیس گھنٹے انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، وہ برطانوی بلوچستان کو ابھی پاکستان میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ان ارکان میں میر جعفر خان جمالی، نواب محمد خان جوگیزئی ، سردار دودا خان مری، سردار محمد خان ترین، حاجی جہانگیر خان اور سردار محمد خان جوگیزئی پاکستان کے بہت زیادہ حامی تھے۔ان کی بھرپورکوششوں سے برطانوی بلوچستان پاکستان میں شامل ہو گیا اور کانگریس و انگریزوں کے عزائم کامیاب نہیں ہو سکے۔کل 62 ارکان میں سے 54 نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔
جب حکومت پاکستان میں کچھ استحکام آیا تو اس کو احساس ہوا کہ قلات کی چھوٹی سی ریاست ایران، افغانستان اور سویت یونین سے معاملات طے کرنے میں خواہ مخواہ کی رکاوٹ بن جائے گی۔ یہ خطرہ بھی موجود تھا کہ وہاں پاکستان دشمن عناصر اپنی سرگرمیاں شروع کر سکتے ہیں۔ اس لیے مناسب یہی سمجھا گیا کہ ریاست پاکستان میں ضم ہو جائے۔اس ضمن میں خان قلات نے دو ٹوک موقف اختیار نہیں کیا۔ کوئی انہیں اُسے پاکستان میں شمولیت کا کہتا تو وہ تیار ہو جاتے۔ دوسرا مشیر ایران یا افغانستان سے وفاق بنانے پر اکساتا تو اس راہ پر چل پڑتے ۔ دراصل خان کا واحد مقصد یہ تھا کہ کسی طرح وہ اپنا اقتدار محفوظ کر لیں۔
خان قلات جب لیت ولعل سے کام لے رہے تھے تو خاران ، لس بیلہ اور کیچ مکران کے حکمرانوں نے مارچ 1948ء میں پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ خاران اور لس بیلہ تو روایتی طور پہ خان قلات کی حکمرانی تسلیم نہیں کرتے تھے۔ کیچ مکران کا نواب، بائی خان گچکی خان قلات کا بہنوئی تھا مگر دونوں کا مالی معاملات پر جھگڑا چل رہا تھا۔ ویسے بھی گچکی سرداروں نے کبھی دل سے خان قلات کی حکمرانی قبول نہیں کی تھی۔ یاد رہے، قلات حکومت نے مکران قبضے میں لے کر اسے تین انتظامی حصوں... کیچ ، پنجگور اور تمپ میں تقسیم کر دیا تھا۔ اور وہاں والی یا گورنر کا تقرر ہونے لگا۔ مگر حسب دستور نواب کیچ ہی مکران میں سب سے زیادہ اثرورسوخ رکھتا تھا۔
خاران ، لس بیلہ اور کیچ مکران الگ ہو جانے کے بعد قلات ریاست چاروں طرف سے پاکستان کے علاقوں میں گھر گئی۔ اب خان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ اپنی ریاست کا اقتدار حکومت ِ پاکستان کے حوالے کر دیں۔اس طرح ریاست قلات بھی پاکستان میں شامل ہو گئی۔
بلوچستان حکومت پاکستان کی عدم توجہ کا شکار
اس دعوی میں کچھ صداقت تو ہے کہ حکومت پاکستان کو اس صوبے پر جوبھرپور توجہ دینی چاہیے تھی، وہ نہ دی جا سکی۔ لیکن اس میں مقامی قیادت کی غیر سنجیدگی بھی کارفرماہے۔ابتداً دشوار گذار راستوں اور دور دراز مقامات کی وجہ سے ترقیاتی کام کرانے میں رکاوٹ پیش آئی۔پھر صوبے میں شورش کا آغاز ہوا تو ترقیاتی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل تر ہو گیا۔ جب جنرل رحیم الدین ستمبر 1978ء تا مارچ 1984ء گورنر بلوچستان رہے تو ان کے زمانے میں صوبے میں وسیع پیمانے پر ترقیاتی کام انجام پائے۔ ان کا دور حکومت آج بھی بلوچستان کا سنہرا زمانہ کہلاتا ہے۔
جنرل رحیم الدین نے پیار و محبت کی زبان بول کر بلوچ عوام کو اپنا گرویدہ بنایا۔ انھوں نے صوبے میں چلتے تمام عسکری آپریشن ختم کر دئیے۔ ان کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے رہتے تھے۔وہ ایک انکسار پسند اور تکبر سے پاک حکمران تھے۔ موجودہ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ بلوچ عوام کے معاشی ، معاشرتی و سیاسی مسائل تدبیر وتدبر سے حل کرے تاکہ صوبہ ترقی و تعمیر کے نئے دور میں داخل ہو جائے۔ گولی کی بولی سے چھٹکارا پانے کی حتی الامکان کوشش ہونی چاہیے۔ بلوچستان معدنی وسائل سے بھرپور علاقہ ہے اور اس کی ترقی سے پاکستان بھی معاشی طور پہ خوشحالی و ترقی کی راہ پہ گامزن ہو جائے گا۔
(ختم شد)