آئینی پیکج پر بار کونسلز کمیٹی قائم 7 روز میں رپورٹ دیگی وکلا کنونشن
آئین میں ترمیم پارلیمان کا اختیار ہے ،آئین کے بنیادی خدوخال سے متصادم ترمیم نہیں ہونی چاہئے
آئینی پیکیج پر بحث کیلیے بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی گئی جو 7روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا وکلا کے ساتھ اہم نکات پر اتفاق ہو گیا، آئینی پیکیج کا حتمی مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے وکلا کمیٹی کو دیا جائے گا۔
اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ حتمی مسودے میں وکلا کمیٹی کی آرا کو شامل کیا جائے گا جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی ترمیم ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مخالفت کے سبب ڈراپ کی گئی ،ہمارا لیے بڑا آسان تھا کہ چیف جسٹس پاکستان کو ہی آئینی عدالت کا سربراہ مقرر کر دیں، ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ آئینی عدالت کا سربراہ کون ہوگا،آئینی عدالت کے سربراہ کی تعیناتی کا معاملہ اوپن ہے، 25 اکتوبر تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس پاکستان ہے، 26 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج چیف جسٹس بن جائیں گے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیراہتمام آل پاکستان وکلاء نمائندہ اجلاس ہوا جس آئینی پیکیج کے حوالے سے اعلامیہ متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا، اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین شامل ہوں گے۔ کمیٹی میں صوبائی بار کونسلز کے وائس چیئرمین اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین شامل ہوں گے، اس کے علاوہ کمیٹی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور جنرل سیکرٹری شامل ہوں گے۔
آئین میں ترمیم پارلیمان کا اختیار ہے ،آئین کے بنیادی خدوخال سے متصادم ترمیم نہیں ہونی چاہئے۔ آئینی ترامیم کا حتمی مسودہ وکلا نمائندوں کی کمیٹی سے شیئر کیا جائے، وکلاء کے منتخب نمائندوں کے سوا کسی کو ہڑتال کی کال دینے کا اختیار نہیں ہے۔ آئینی عدالت کی تشکیل وکلا سے مشاورت کے بعد کی جائے ، سپریم کورٹ سے مطالبہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کیخلاف ہماری درخواست پر سماعت کی جائے۔
قبل ازیں وکلا نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، مجوزہ آئینی عدالت میں تمام وفاقی اکائیوں کی نمائندگی ہوگی،آئینی عدالت کے قیام کا مطالبہ سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے دستخط کردہ میثاق جمہوریت میں کیا گیا تھا، یہ وکلا تنظیموں، اتحادی جماعتوں اور دیگر ریاستی اداروں کا دیرینہ مطالبہ بھی رہا ہے۔
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کی جاتی ہے۔ چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل فاروق ایچ نائیک نے کہا آئینی عدالت وقت کی ضرورت ہے ، مغربی جمہوریتوں میں آئینی عدالتیں موجود ہیں۔ اس ضمن میں کمیٹی بنائی جائے جو آئینی عدالت کے قیام کے اغراض و مقاصد اور مجموعی خاکہ پیش کرے جس کے بعد بار کونسلز کی مشاورت کے ساتھ اسے عملی جامہ پہنایا جائے ، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی ترمیم ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مخالفت کے سبب ڈراپ کی گئی ،ہمارا لیے بڑا آسان تھا کہ چیف جسٹس پاکستان کو ہی آئینی عدالت کا سربراہ مقرر کر دیں، ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ آئینی عدالت کا سربراہ کون ہوگا،آئینی عدالت کے سربراہ کی تعیناتی کا معاملہ اوپن ہے، 25 اکتوبر تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس پاکستان ہے، 26 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے سینیٔر ترین جج چیف جسٹس بن جائیں گے۔
2009سے 2013 تک، پھر 2018 اور 2019 میں ازخود نوٹسز کی بھرمار ہوئی، صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا ہماری شکایت یہ ہے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کو بھی اعتماد میں لیا جاتا۔ وزیر قانون نے کہا کہ جوڈیشل پیکج میں چار چیزیں ہیں، میری رائے ہے کہ ڈرافٹ ویب سائٹ پر ڈال دیں۔
وزیر قانون نے کہا آرٹیکل 63 اے کی غلط تشریح کی گئی، ترمیم میں تجویز ہے کہ ووٹ شمار ہوگا تو پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کیخلاف ممبر نااہل ہوگااحسن بھون نے کہا کہ آئینی عدالت کے سربراہ کا تقرر وزیراعظم کے بجائے چار حکومتی یا اپوزیشن کے ممبران پر مشتمل کمیٹی کے سپرد ہو، بار کی بھی نمائندگی ہونی چاہیے، وزیر قانون نے کہاوکلاء نمائندوں نے جو تجاویز دیں وہ آپ کی امانت ہیں ، انہیں پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھوں گا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا جو بھی ڈرافٹ بنے گا اس میں ہم پارلیمان کے اندر بھی اتفاق رائے کی کوشش کریں گے، ڈرافٹ میں کچھ چیزیں مزید بہتر ہونے والی ہیں، عمران خان خود میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں، میثاق جمہوریت کے بعد 18 سالوں میں عمران خان نے کبھی نہیں کہا کہ آئینی عدالت نہیں بننی چاہیے۔