اسپیشل رپورٹامریکا کے کل 44 میں سے 31 صدور کا تعلق فوج سے تھا

دنیا میں مثالی جمہوریت کے دعویدار ملک میں بھی فوج، خفیہ ایجنسیاں اور مخصوص کاروباری طبقہ ہی صدر کا انتخاب کرتا ہے


Basheer Wasiq July 13, 2014
کسی بھی ملک میں جمہوری نظام کی صرف اس وقت تک حمایت کی جب تک وہاں کی حکومت اس کی بات مانتی ہے۔ فوٹو : فائل

جمہوریت ایک حسین خواب کی طرح ہے جس میں ہر فرد کو یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں ۔

خواب اس لئے کیونکہ اس کی مکمل صورت دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی جن ممالک کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہاں جمہوریت اپنے اصل روپ میں موجود ہے ان کے نظام میں بھی کچھ نہ کچھ خامیاں ضرور موجود ہیں ۔ اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کے لئے پارٹی سیاست کے گورکھ دھندے سے گزرنا پڑتا ہے۔

جس میں اوپر آنے کے لئے بہت سی مفاہمتیں کرنا پڑتی ہیں ۔ پارٹی سیاست ایک ایماندار اور اچھے انسان کو بھی کچھ نہ کچھ ایسی چیزیں ضرور دے دیتی ہے کہ وہ سیاست کی روایتی منافقت اپنانے پر مجبور ہو جاتا ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو مروجہ نظام اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔

جمہوریت وہ نظام ہے جس نے بادشاہت کی جگہ لی، یہ بالکل ایسے ہی جیسے کسی نظام کی کہنگی اور خامیاں اسے غیر مقبول بنا دیتی ہیں اور وہ اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے، بادشاہی نظام کے ساتھ بھی یہی ہوا اور سوائے چند ملکوں کے اب یہ کہیں نظر نہیں آتا۔ ان دونوں نظاموں کے مقابلے میں ایک تیسرا نظام فوجی حکومت یعنی مارشل لاء ہے، اس میں فوج ملک کے ہر شعبے کو کنٹرول کرتی ہے اور یہ اکثر جمہوری نظام کی بساط لپیٹ کر نافذ کیا جاتا ہے ۔ اس وقت دنیا کے اکثر ممالک میں جمہوری نظام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔

دنیا کی واحد سپر پاور امریکا جمہوری نظام کی پاسداری کا سب سے بڑا علمبردار ہے، یہ الگ بات ہے کہ امریکا نے کسی بھی ملک میں جمہوری نظام کی صرف اس وقت تک حمایت کی جب تک وہاں کی حکومت اس کی بات مانتی ہے، ایسا بہت مرتبہ ہو ا ہے کہ کسی ملک میں امریکا کی من پسند حکومت قائم نہ ہو سکی اور امریکا نے وہاں کی فوج کو حمایت کا یقین دلا کر مارشل لاء نافذ کرا دیا ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امریکا بظاہر جمہوری نظام کا علمبردار بنا ہوا ہے اصل میں وہ دنیا کے ہر ملک میں اپنا اثر و رسوخ رکھنا اور اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے، چاہے وہ جمہوری حکومت کے قیام کے ذریعے ہو یا مارشل لاء کے نفاذ سے ۔

اگر امریکی جمہوریت کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں بھی بظاہر جمہوری عمل کے ذریعے صدور منتخب کئے جاتے ہیں مگر عموماً وہی صدر بنتے ہیں جنھیں سکیورٹی فورسز ، خفیہ ایجنسیوں اور سرمایہ دار طبقے کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے۔ دو امریکی دانشوروں مارٹن جلینز اور بنجامن نے اپنی ایک رپورٹ میں امریکا کی اس نام نہاد جمہوریت کا پردہ فاش کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ امریکا میں جمہوریت نہیں بلکہ چند بڑوں کی اجارہ داری ہے جو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔

جب امریکا میں منتخب ہونے والے صدور کا جائزہ لیا جائے تو یہ حیران کن پہلو سامنے آتا ہے کہ امریکا میں اب تک 44 صدور منتخب ہوئے ہیں ، ان میں سے 31 افراد ایسے منتخب کئے گئے جن کا کسی نہ کسی طرح فوج سے تعلق رہا ہے اور انھوں نے فوج سے فراغت کے بعد الیکشن لڑا اور کامیاب ٹھہرائے گئے ۔ دوسرا حیران کن پہلو یہ ہے کہ امریکا میں آج تک کوئی عورت صدر منتخب نہیں ہو سکی ۔ ذیل میں قارئین کی دلچسپی کے لئے ایسے امریکی صدور کا مختصر تعارف دیا جا رہا جو امریکی فوج کا حصہ رہے۔

جارج واشنگٹن



یہ امریکا کے پہلے صدر تھے، 20فروری 1732ء کو برطانوی کالونی میں پیدا ہوئے ، 14دسمبر 1799ء کو وفات پائی۔ وہ 30اپریل 1789ء سے 4مارچ 1797ء تک امریکا کے صدر رہے۔ جارج واشنگٹن اپنے باپ اور بڑے بھائی کی وفات کے بعد ولیم فیئر فاکس کے ساتھ مل گئے جو نو آبادیاتی نظام میں ایک اثر و رسوخ والے سیاستدان تھے ۔ انھوں نے جارج واشنگٹن کو نوآبادیاتی فوج میں بھرتی کرایا اور ترقی میں بھی مدد کی ۔ یوں فرنچ اور انڈین جنگ میںنمایاں کارکردگی کی وجہ سے واشنگٹن ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے اور ان کا شمار سینئر فوجی افسروں میں ہونے لگا۔ 1775ء میں برپا ہونے والے امریکی انقلاب میں انھیں براعظمی فوج کا کمانڈر انچیف بنا دیا گیا ۔

اس کے بعد انھوں نے وہاں سے برطانوی فوج کو نکالنے کے لئے کو ششیں شروع کیں۔ ابتدا میں ناکامیوں کے بعد جارج واشنگٹن کو کامیابی حاصل ہوئی ۔ 1783ء میں انھوں نے آرمی سے استعفیٰ دے دیا ۔ اس کے بعد انھوں نے کانٹیننٹل کانگریس کو مضبوط کرنے پرتوجہ دی ۔ بالآخر 1789 میں انھیں امریکا کا پہلا صدر منتخب کر لیا گیا۔ اس کے بعد 1792 میں دوبارہ امریکا کے صدر منتخب ہوئے ۔ اپنی دوسری ٹرم پوری ہونے پر انھوں نے صدارت چھوڑ دی جس سے ایک مضبوط روایت قائم ہوئی کہ ہر امریکی صدر دو مرتبہ صدر بننے کے بعد کرسی صدارت چھوڑ دیتا ہے، یہ روایت ابھی تک زندہ ہے۔

جان ایڈم



امریکا کے دوسرے صدرتھے جو جارج واشنگٹن کے بعد 4مارچ 1797ء کو صدارت کے عہدے پر فائز ہوئے اور 4مارچ 1801ء تک صدر رہے۔ ان کا فوج میں کردار سیکرٹری آف ڈیفنس تک محدود رہا۔ اس کے علاوہ وہ امریکی انقلاب کے دوران آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئر مین تھے۔

تھامس جیفرسن



4 مارچ 1801ء کو امریکا کے صدر بنے اور 4 مارچ 1809ء تک اس عہدے پر متمکن رہے۔ وہ امریکا کی انقلابی جنگ کے دوران ورجینیا ملائشیا میں کرنل تھے۔ تب ہی انھیں ایلبیمارلے کاؤنٹی ملیشیا کی کمان سونپی گئی ۔ تاہم انھوں نے کسی جنگ میں عملاً کردار ادا کیا ۔

جیمز میڈیسن



4مارچ 1809ء کو امریکا کے حکمران بنے اور 4مارچ 1817ء تک صدر کے عہدے پر فائز رہے ۔ امریکا کی انقلابی جنگ کے دوران انھوں نے ورجینیا ملیشیا میں بطور کرنل خدمات سر انجام دیں، تاہم کسی فوجی ایکشن میں خود حصہ نہیں لیا ۔

جیمز مونرو



انھوں نے 4مارچ1817ء کو امریکا کا اقتدار سنبھالا اور چار مارچ 1825ء تک صدر رہے۔ وہ 1775ء میں کالج چھوڑ کر کنٹیننٹل آرمی کی تھرڈ ورجینیا رجمنٹ میں شامل ہو گئے اور میجر کے عہدے تک پہنچے ۔ انھوں نے جنگ میں بھرپور حصہ لیا اور جنگ ٹرینٹن میں زخمی ہو گئے۔ 1780ء میں انھوں نے فوج کی ملازمت چھوڑ دی ۔

اینڈریوجیکسن



4مارچ 1829ء کو امریکا کے صدربنے اور چار مارچ 1837ء تک اس عہدے پر متمکن رہے۔ امریکا کی جنگ انقلاب کے دوران اینڈریو نے صرف 13سال کی عمر میں ایک لوکل ملیشیا میں بطور ڈاک بوائے کا کام کیا۔ جیکسن کو 1801ء میں ٹیننسی ملیشیا کا کمانڈر مقرر کر دیا گیا اور کرنل کا عہدہ دیا گیا ۔ اس کے بعد 1802ء میں انھیں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ۔ 1812ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اہم کردار ادا کیا ۔

ولیم ہنری ہیری سن



4مارچ 1841ء کو صدر بنے اور 4اپریل کو چل بسے۔ فوج میں میجر جنرل کے عہدے تک پہنچے۔

جان ٹیلر



4اپریل 1841ء کو امریکا کے صدر بنے اور چار مارچ 1845ء تک صدر رہے۔ انھوں نے 1812ء کی جنگ میں بطور کیپٹن امریکی فوج کے ساتھ کام کیا ۔

جیمز پولاک



4مارچ 1845 میں امریکا کے صدر منتخب ہوئے اور 1849ء تک اس عہدے پر متمکن رہے۔ 1822ء میں پولاک بطور کیپٹن ٹیننسی ملیشیا میں بھرتی ہوئے ۔ اس کے بعد وہ گورنر ولیم کیرولی کے سٹاف میں کرنل مقرر کر دیئے گئے مگر انھوں نے اس عہدے پر تھوڑا وقت گزارا۔ اس کے بعد سیاست میں حصہ لینے لگے۔

زیچرے ٹیلر



4مارچ 1849ء کو امریکا کے صدر بنے مگر اپنی صدارت کا دورانیہ پورا کرنے سے قبل ہی 9جولائی 1850ء کو انتقال کر گئے۔ انھوں نے 1808ء کو امریکی فوج میں کمشن حاصل کیا ، ان کی پہلی تقرری سینوتھ انفنٹری رجمنٹ میں ہوئی ۔ 1812 ء کی جنگ میں اچھی کارکردگی کی وجہ سے انھیں ترقی دے کر میجر بنا دیا گیا ، اس کے بعد ان کی مزید ترقی ہوئی اور 1819ء میں انھیں لیفٹیننٹ کرنل بنا دیا گیا ۔ 1837ء میں سیکنڈ سیمونول جنگ میں اچھی کارکردگی پر انھیں بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر ترقی دیدی گئی ۔ بالآخر وہ میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ اگلے ہی سال 1849ء میں صدر منتخب ہو گئے۔

ملارڈ فلمورو



9 جولائی 1850ء کو امریکا کے صدر بنے اور 4مارچ 1853تک کرسی صدارت کو سنبھالے رہے۔ امریکی سول وار کے دوران انھوں نے بفیلو نیویارک میں آرگنائزڈ یونین کانٹیننٹل ہو م گارڈ یونٹ بنایا۔ 1820ء اور 1830ء کی دہائی میں نیویارک ملیشیا میں بطور میجر کام کیا ۔

فرینکلن پائرس



4مارچ 1853ء کو صدر بنے اور 4مارچ 1853تک اس عہدے پر فائز رہے۔ میکسیکو، امریکا جنگ کے دوران فرینکلن ملیشیا میں شامل ہوئے ، تاہم اس کے لئے انھیں اپنا سابقہ کیریئر چھوڑنا پڑا ۔ انھیں 9 انفنٹری رجمنٹ میں بطور کرنل تعینات کیا گیا ۔ جلد ہی انھیں ترقی دے کر بریگیڈیئر جنرل بنا دیا گیا ۔ جنگ کے دوران ان کی ٹانگ بھی زخمی ہوئی۔

ابراہام لنکن



4مارچ 1861ء کو امریکا کے صدر بنے اور 15اپریل 1865ء تک اس عہدے پر متمکن رہے۔ انھوں نے بلیک ہاک وار کے دوران الینوائے ملیشیا میں بطورکیپٹن خدمات سر انجام دیں۔

اینڈریو جانسن



15 اپریل 1865ء کو امریکا کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ 4 مارچ 1869ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ 1830 میں ٹیننسی ملیشیا میں بطور کرنل خدمات سر انجام دیں ۔ 1862ء میں ٹیننسی کے گورنر بنائے گئے ۔

الیسز گرانٹ
انھیں چار مارچ 1869ء میں امریکا کا صدر منتخب کیا گیا اور 4مارچ 1877ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ صرف 17سال کی عمر میں انھوں نے فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1853ء میں کیپٹن کے عہدے پر ترقی ملی ، مگر اگلے ہی سال چند وجوہات کی بناء پر مستعفی ہو گئے۔ اس کے بعد امریکن سول وار شروع ہوئی تو وہ پھر فوج میں شامل ہو گئے اور 1862ء سے 1868ء تک فوج میں رہے اور بالآخر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

ردر فورڈ بی ہیز



4مارچ1877ء میں امریکا کے صدر بنائے گئے اور چار مارچ 1881ء تک اس عہدے پر متمکن رہے۔ امریکی سول وار کے دوران آرمی میں شمولیت اختیار کی اور 23 اوپیو انفنٹری میں تعینات کئے گئے۔ 1964ء تک ترقی کر کے میجر جنرل کے عہدے تک پہنچے اور 1965ء میں ریٹائر ہوئے۔

جیمز گار فیلڈ



4مارچ 1881کو امریکا کے صدر منتخب ہوئے اور 19ستمبر 1881ء تک یعنی صرف سات مہینے تک اپنے عہدے پر فائز رہے اس کے بعد ان کی وفات ہو گئی ۔ امریکن سول وار شروع ہوئی تو جیمز نے یونین آرمی میں کمشن حاصل کیا ۔ 1863ء میں چیف آف سٹاف مقرر کئے گئے اور اسی سال فوج سے ریٹاٹر ہو گئے۔

چیسٹر آرتھر



19ستمبر 1881میں امریکا کے صدر بنے اور 1885ء تک صدر رہے ۔ 1860ء میں گورنر ایڈون کے ملٹری سٹاف تعینات ہوئے۔ سول وار کے دوران جب ملیشیا تشکیل دی جا رہی تھی تو انھیں بریگیڈیئر جنرل کا عہدہ دے کر کوارٹر ماسٹر ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کیا گیا ۔ ان کی اچھی کارکردگی پر انھیں جلد ہی کوارٹر ماسٹر جنرل کے عہدے پر ترقی دیدی گئی ، وہ اپنے اس عہدے سے 1863میں ریٹائر ہوئے۔

بنجامن ہیری سن



4مارچ 1889ء میں امریکا کے صدر منتخب کئے گئے اور چار مارچ 1893ء تک اس عہدے پر متمکن رہے ۔ جب سول وار شروع ہوئی تو گورنر کے کہنے پر اس نے انڈیانا میں رجمنٹ کی تشکیل کے لئے کام شروع کیا ۔ گورنر نے انھیں کمانڈ کی آفر کی مگر انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ انھیں فوج کی کمان کا تجربہ نہیں ۔ تب انھیں فوج میں لیفٹیننٹ بھرتی کر لیا گیا۔ جب رجمنٹ یونین آرمی کا حصہ بنی تو انھیں ترقی دے کر کرنل بنا دیا گیا ۔ اس کے بعد وہ بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے ۔

ولیم مکینلے



انھیں چار مارچ 1897ء کو امریکا کا صدر منتخب کیا گیا اور وہ 14ستمبر 1901 تک اپنے عہدے پر فائز رہے۔ وہ فوج کی 23 اوہیو انفنٹری میں شامل ہوئے۔ بریوٹ میجر کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ ساؤتھ مونٹین جنگ میں بھرپور شرکت کی ۔ 1864ء میں اینٹیٹم اور ویلی کمپیین میں حصہ لیا ۔

تھیوڈور روز ویلٹ



انھیں 14ستمبر 1901ء کو امریکا کا صدر منتخب کیا گیا اور 4مارچ 1909ء تک امریکا کے صدر رہے۔ کیوبا کی جنگ شروع ہوئی تو اس وقت روز ویلٹ نیوی کے اسسٹنٹ سیکرٹری تھے انھوں نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا اور آرمی میں شمولیت اختیار کی ۔ وہاں انھیں کرنل کا عہدہ دیا گیا ۔ جنگ کے خاتمے کے بعد وہ سیاست کی طرف راغب ہوئے۔

ہیری ایس ٹرومین
وہ 12 اپریل 45 19ء کو امریکا کے صدر منتخب ہوئے اور 20جنوری 1953 تک اس عہدے پر فائز رہے ۔ انھیں فوج کی نوکری کا شوق تھا مگر نظر کی کمزوری کی وجہ سے یونائیٹڈ سٹیٹ ملٹری اکیڈمی ویسٹ پوائنٹ میں تقرری حاصل نہ کر سکے، مگر ان کا شوق کسی بھی طرح ختم ہونے میں نہ آیا اور انھوں نے 1905ء میں بڑی مشکل سے میسوری آرمی نیشنل گارڈ میں شمولیت اختیار کی اور 1911ء تک کینساس سٹی بیس آرٹلری میں رہے۔ وہاں چند سال نوکری کرنے کے بعد انھوں نے استعفیٰ دے دیا ۔ پھر جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو امریکا کو بھی اس میں کسی نہ کسی انداز میں حصہ لینا پڑا تو ہیری ٹرومین نے فوج میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی ۔ انھیں کیپٹن کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ اس کے بعد انھیں ریزور آرمی میں ٹرانسفر کر دیا گیا ، جہاں وہ کرنل کے عہدے تک پہنچے اور ریٹائر ہو گئے۔

ڈی وائٹ آئزن ہاور



انھیں 20 جنوری 1953ء کو امریکا کا صدر منتخب کیا گیا اور وہ 20 جنوری 1961ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ 1915ء میں گریجوایشن کے بعد وہ فوج میں بھرتی ہو گئے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران انھیں کیپٹن کے عہدے پر تعینات کیا گیا ۔ ان کی اچھی کارکردگی کی بنا پر انھیں میجر کے عہدے پر ترقی دیدی گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران انھیں پیسیفک ڈیفنس کا ڈپٹی چیف انچارج بنا دیا گیا ۔ 1943ء میں انھیں امریکی صدر روز ویلٹ نے یورپ میں سپریم الائیڈ کمانڈر بنا دیا ۔ جرمنی کی شکست پر انھیں مقبوضہ علاقے کا ملٹری گورنر بنا دیا گیا ۔ امریکی حکومت نے جب جاپان پر ایٹم بم گرانے کی دھمکی دی تو آئزن ہاور نے اس منصوبے کی کھل کر مخالفت کی ۔ پھر انھیں آرمی چیف کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ۔ 1952میں فوج سے ریٹائر ہوئے۔

جان ایف کینیڈی



وہ 20 جنوری 1961ء کو صدر بنے اور 2 نومبر 1963ء کو قتل کر دیئے گئے۔ فوج سے ان کا تعلق یو ں رہا کہ ستمبر1949ء میں انھوں نے فوج میں نوکری حاصل کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔ اس کے بعد انھوں نے نیوی میں نوکری کے حصول کے لئے کو شش کی جس میں وہ کامیاب رہے اور انھیں لیفٹیننٹ بھرتی کر لیا گیا ۔ ایک مشن کے دوران انھیں پیٹھ پر چوٹ بھی لگی ۔ انھیں 1945ء میں نیوی سے فارغ کر دیا گیا ۔ انھیں پرپل ہارٹ ، امریکن ڈیفنس سروس میڈل ، امریکن کمپیئن میڈل ، ایشیا ٹک پیسیفک کمپیئن میڈل اور ورلڈ وار ٹو ملٹری میڈل سے بھی نوازا گیا ۔

لنڈن بی جانسن



انھیں 22 نومبر 1963ء کو صدر منتخب کیا گیا اور وہ 20 جنوری 1969ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ 1941ء میں جب امریکا نے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا تو لنڈن بی جانسن ایوان نمائندگان کے ممبر تھے ۔ انھوں نے ملک کے دفاع کے پیش نظر فوج میں شمولیت اختیار کر لی ۔ امریکی نیوی میں بطور کمیشنڈ آفیسر بھرتی ہوئے اور نیول ریزرو میں بھیج دیئے گئے۔ اس دوران انھیں تین رکنی کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا جو جنگ کے دوران مختلف مقامات کا سروے کر کے رپورٹ صدر کو بھجواتی تھی۔ انھیں کمانڈر کا عہدہ دیا گیا ۔ وہ دوسال تک نیوی میں فرائض سر انجام دیتے رہے۔

رچرڈ نکسن



وہ 20 جنوری 1969ء کو امریکا کے صدر منتخب ہوئے اور 9اگست 1974ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انھوں نے اگست 1942ء میں دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکی نیوی میں نوکری حاصل کی ۔ آفیسرز سکول سے فراغت کے بعد بطور کمشن آفیسر نیوی میں شمولیت اختیار کی ۔ مختلف سٹیشنز پر اچھی کارکردگی دکھانے پر انھیں ترقی دے کر لیفٹیننٹ بنا دیا گیا ۔ 1945ء میں جنگ سے واپس بلا کر انھیں امریکی ریاست کیلی فورنیا میں المیڈا نیول ایئر سٹیشن میں تعینا ت کر دیا گیا۔ انھیں دو سروس سٹارز سے بھی نوازا گیا ۔ اس سال انھیں فلاڈلفیا میں بیورو آف ایرو ناٹک میں ٹرانسفر کر دیا گیا ۔ اس طرح وہ مختلف آفسز میں اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے اور اچھی کارکردگی کی بنا پر ترقی کر کے لیفٹیننٹ کمانڈر کے عہدے تک پہنچے۔ تاہم 1946ء میں انھوں نے فوج کی نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔

جیرالڈ فورڈ



9 اگست 1974ء میں امریکا کے صدر بنے اور 20 جنوری 1977ء تک اس عہدے پر رہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جیرالڈ فورڈ نیوی میں بطور کمیشنڈ آفیسر بھرتی ہوئے ۔ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد انھیں چیپل بل نارتھ کیلی فورنیا میں انسٹرکٹر لگا دیا گیا ، جہاں انھوں ے بہترین کارکر دگی دکھائی ۔ 1942ء میں انھیں لیفٹیننٹ جونیئر گریڈ میں ترقی دے دی گئی ۔ پھر لیفٹیننٹ بنا دیئے گئے، یوں ترقی کرتے ہوئے لیفٹیننٹ کمانڈر کے عہدے تک پہنچے۔ 1946ء میں انھوں نے فوج سے استعفیٰ دے دیا جو ان کی قابلیت کی وجہ سے قبول نہ کیا گیا کیونکہ فوج کی اعلیٰ قیادت کے خیال میں وہ فوج کے لئے قیمتی سرمایہ تھے۔ مگر پھر تھوڑے عرصے بعد انھیں باعزت طریقے سے فوج سے ریٹائر کر دیا گیا ۔ انھیں ایشیاٹک پیسیفک کمپین میڈل ، امریکن کمپین میڈل اور ورلڈ وار ٹو وکٹری میڈل سے بھی نوازا گیا۔

جمی کارٹر



انھیں 20 جنوری 1977ء کو امریکا کا صدر منتخب کیا گیا اور وہ 20 جنوری 1981ء تک صدر رہے۔ انھوں نے کالج سے فراغت کے بعد امریکی نیول اکیڈمی میں داخلہ لیا اور 1943ء میں گریجوایشن کی ۔ اس کے بعد انھیں نیول بیس پر تعینات کر دیا گیا ۔ وہ 1953ء تک امریکی نیوی میں رہے اور لیفٹیننٹ کے عہدے تک پہنچے۔ انھیں نوبل پیس پرائز اور گرینڈ کراس آف دی کراؤن سے نوازا گیا ۔

رونالڈ ریگن



20 جنوری 1981ء کو صدر بنے اور 20 جنوری 1989ء تک اس عہدے پر متمکن رہے۔ انھوں نے 1937ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی ۔ انھیں آفیسرز ریزرو کور میں کیولری میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ بھرتی کیا گیا ۔ وہ 1945ء تک نیو ی سے منسلک رہے اور کیپٹن کے عہدے تک پہنچے۔

جارج ایچ، ڈبلیو، بش



وہ 20 جنوری1989ء کو امریکا کے صدر منتخب کئے گئے اور 20 جنوری 1993ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران پرل ہاربر پر حملے کے بعد بش نے امریکی نیوی میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور صرف اٹھارہ سال کی عمر میں نیوی ایوی ایٹر بن گئے۔ دس ماہ کی تربیت کے بعد انھیں یو ایس نیول ریزرو ٹیکساس میں بھیج دیا گیا ۔ 1944ء میں ان کی لیفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی ہو گئی ۔ اس دوران ان کی ڈیوٹی ٹریننگ سکول میں لگا دی گئی ۔ 1945ء میں انھیں فوج سے فارغ کر دیا گیا ۔ انھیں ڈسٹنگوش فلائنگ کراس ایئر میڈل سے بھی نوازا گیا ۔

جارج ،ڈبلیو، بش جونیئر



انھیں 20جنوری 2001ء میں امریکا کا صدر منتخب کیا گیا اور وہ 20 جنوری 2009ء تک صدر رہے۔ انھوں نے مئی 1968ء میں ٹیکساس انٹر نیشنل گارڈ میں کمشن حاصل کیا ۔ دو سال کی ٹریننگ کے بعد ان کی پہلی تعیناتی ہوسٹن میں ہوئی۔ ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ کہ انھوں نے فوج میں کمشن اپنے والد جارج بش کی وجہ سے حاصل کیا جو اس وقت ایوان نمائندگان کے رکن تھے۔ 1972ء میں شیڈول فیزیکل امتحان میں ناکامی پر معطل کر دئیے گئے۔ تاہم وہ 1974ء تک امریکی ایئر فورس سے منسلک رہے ۔ اس کے بعد انھیں فوج سے فارغ کر دیا گیا ۔

امریکی صدور جو ابھی زندگی کی بہاریں دیکھ رہے ہیں
امریکا میں اب تک 44 صدور گزرے ہیں جن میں سے چار صدر ابھی تک زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں کیونکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انھیں حکومت کی طرف سے بہت سی مراعات حاصل ہوتی ہیں ۔ ان میں سب سے سینئر جمی کارٹر ہیں جو 1977ء میں صدر بنے تھے ان کی عمر 89سال ہے ، اس کے بعد جارج بش سینئر ہیں ، وہ 1989ء میں صدر بنے تھے، ان کی عمر بھی 89سال ہے۔ سابق صدر بل کلنٹن اس وقت 67سال کے ہیں۔ جارج سینئر بش کے بیٹے جارج جونیئر بش بھی زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں و ہ2001 ء میں صدر منتخب ہوئے تھے ، ان کی عمر اس وقت 67 سال ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں