عدلیہ کے پر کاٹنے کی کوشش
حکمران صرف اس چیز کو بدلتے ہیں جو ان کے ذاتی مفاد کی راہ میں رکاوٹ بنے
کاش مروّجہ عدالتی نظام (جو فرسودہ ہے اور اپنی افادیّت کھوچکا ہے) کی اصلاح کے لیے بھی اتنی پھرتیاں دکھائی جاتیں۔ کاش اس ملک کے عام شہریوں کو جلد انصاف فراہم کرنے کے لیے انگریز سامراج کے چھوڑے ہوئے نظام کی پیچیدگیاں اور رکاوٹیں دور کرنے اور اسے عوام کی امنگوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے ستر سال میں کبھی ایک بار ہی چُھٹی کے روز پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوتا تو ہم خوشی سے نہال ہوجاتے اور حکمرانوں کے لیے دل سے دعائیں نکلتیں۔
مگر یہاں تو مقصد ہی کچھ اور نظر آتا ہے۔ ہدف ایسا کہ سب کچھ خفیہ رکھا گیا۔ "اصلاحات" کی نہ تشہیر کی گئی، نہ عوام سے رائے لی گئی نہ ہی وکلاء تنظیموں سے مشاورت ہوئی اور نہ ہی عدلیہ کو اعتماد میں لیا گیا تو پھر یہ کیسی اصلاحات ہیں؟ کیا سسٹم میں reforms اتنے خفیہ اور پراسرار طریقے سے کی جاتی ہیں؟ کیا کچھ ججوں اور جرنیلوں کو ایکسٹینشن دینے کے لیے انتہائی خفیہ انداز میں کی جانے والی ترامیم کو Reforms کا نام دیا جاسکتا ہے؟ کیا یہ سب کچھ عوام کو انصاف کی ارزاں اور جلد فراہمی کے لیے کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ ملک اور قوم کی بہتری کے لیے کیا جارہا ہے؟ کیا حکومت کا یہ اقدام جمہوریت کے استحکام اور عدلیہ کی آزادی کے لیے مفید ہے یا زہر قاتل ہے؟ بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم آگے جانے کی بجائے پیچھے کی جانب دوڑ رہے ہیں۔
ہم ڈھلوان سے نیچے گر رہے ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ جس ڈھلوان سے ہم لڑھک رہے ہیں اس کی منزل گہری کھائی ہے۔ لگتا ہے ہمارے خوبصورت ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ قابض ہیں جن کی نگاہ پست اور ہدف صرف اور صرف اپنی ذات اور اپنا مفاد ہے۔ ملّت کے شاعرِ اعظم نے شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ
؎ زاغوں کے تصرّف میں عقابوں کے نشیمن
یعنی جن مسندوں پر شاہین جلوہ نشین ہونے چاہئیں تھے وہ اس وقت کووّں کے قبضے میں ہیں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ مختلف اہداف رکھنے والے فاتحین نے مفتوح قوم کے لیے جو کریمینل جسٹس سسٹم تخلیق کیا تھا، وہ نظام، آزاد ہونے والی قوم کی ضروریات بھی پوری کرتا ہو۔ جو عدالتی نظام 1860 میں تشکیل دیا گیا ہو وہ 2024 میں بھی انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہو اور قوم کی امنگوں پر پورا اترتا ہو۔
اگر وہ سسٹم انصاف فراہم کرنے میں کامیاب ہوتا اور جدید دور کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیّت رکھتا تو ملک کی تمام ضلعی عدالتوں کے باہر ہر روز انصاف کے متلاشی ہزاروں افتادگانِ خاک مارے مارے نہ پھر رہے ہوتے۔ کسی بھی ضلع کی کچہری یا سیشن عدالت کے باہر ہزاروں سائل کسمپرسی کی حالت میں پھر رہے ہوتے ہیں، سارا دن ذلیل وخوار ہونے کے بعد وہ شام کو جوتے گھساتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں اور اگلے روز آنکھوں میں ایک موہوم سی امید کے دیے جلائے پھر عدالتوں کے باہر پہنچ جاتے ہیں۔
شام کو ان کی امید کے وہ دیے بجھ جاتے ہیں تو ملک کے ہزاروں اور لاکھوں شہری مایوسی کے عالم میں بوجھل قدموں کے ساتھ گھروں کی جانب چل پڑتے ہیں یہ تلخ اور ظالمانہ کارروائی ہر روز دھرائی جاتی ہے۔ اس ملک کا ہر جج اور ہر وکیل مانتا ہے کہ یہ سسٹم گل سٹر چکا ہے مگر پھر بھی یہ سلسلہ پچھلی کئی دھائیوں سے جاری ہے۔ بہت پیچھے نہ جائیں مگر پچھلی چار پانچ دھائیوں میں یہاں پیپلزپارٹی کی بھی حکومت بنی، مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بھی بنی۔
عمران خان بھی وزیراعظم بنے اور کے پی میں کئی سالوں سے ان کی حکومت قائم ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم کی حکمرانی بھی رہی۔ مگر کیا کسی حکومت نے صدیوں پرانے اس کریمینل جسٹس سسٹم کو بدلنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے؟ کیا کسی حکمران نے نیک نیّتی اور اخلاص کے ساتھ مظلوموں اور مدعیوں کو نڈھال کردینے والے اس طویل، پُرپیچ، مہنگے اور بے ثمر عدالتی نظام کو ریفارم یا تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ بالکل نہیں کی۔
حکمران صرف اس چیز کو بدلتے ہیں جو ان کے ذاتی مفاد کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ اس گلے سڑے اور ازکارِ رفتہ نظام کے افادیّت کھودینے اور عوامی اعتماد سے محروم ہونے کی ایک وجہ تو اس کا طویل اور پیچیدہ طریقۂ کار (procedure) ہے مگر سب سے بڑی وجہ منصبِ قضاء پر فائز ہونے والوں کے معیار اور کردار کا انحطاط ہے۔ کیا کبھی منصفین کا معیار نیچے آنے کی وجوہات جاننے کی کوشش کی گئی ہے؟ اور کیا کسی حکمران نے ان کا معیار اور اعتبار بڑھانے کے لیے کبھی اخلاص کے ساتھ کوشش کی ہے؟ نہیں کی۔ کیونکہ جس طرح کوئی حکمران دیانتدار اور غیرجانبدار پولیس افسروں کو پسند نہیں کرتا اُسی طرح ہماری کوئی حکومت اور کوئی حکمران کسی باضمیر، بااصول، ہر حال میں انصاف کرنے والے اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے والے جج کو پسند نہیں کرتا۔
سول یا عسکری حکمران جس طرح پولیس اور انتظامیہ کو ریفارم نہیں کرنا چاہتے، صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں اسی طرح انھیں عدلیہ کو ریفارم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ صرف اہم عہدوں پر فائز جج صاحبان کو manageکرنا چاہتے ہیں، وہ عدلیہ کو آزاد کرنا نہیں غلام اور فرمانبردار بنانا چاہتے ہیں۔ وہ عدلیہ کی بالادستی کے نہیں پَستی کے خواہشمند ہیں۔ اگر کچھ سیاستدان یا کچھ غیر سیاسی حلقے کسی جج کی مدّتِ ملازمت بڑھانا چاہتے ہیں یا آئینی تنازعات کے فیصلے اُسی سے کروانا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ متعلقہ جج ان حلقوں کو سُوٹ کرتا ہے۔
یہ تاثر بذاتِ خود اس منصف کی شہرت کو داغدار کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر یہ سب کچھ موجودہ چیف جسٹس صاحب کے لیے کیا جارہا ہے تو انھیں اپنے سابقہ بیانات کے مطابق صاف اور دو ٹوک انداز میں ایسا کوئی بھی عہدہ لینے یا آئینی عدالت کا سربراہ بننے سے انکار کردینا چاہیے۔ یہ تو کاٹا تھا چاہے اس قانون سے کچھ اور لوگ بھی فیضیاب کرادیے جائیں مگر سب جانتے ہیں کہ مقصدِ اولیٰ ایک یا دو افراد کے بارے میں کچھ حلقوں کی پسند وناپسند ہے اور کچھ کو ایکسٹینشن دینا مقصود ہے۔ ان ترامیم کے اوپر جو بھی غلاف چڑہایا جائے لیکن یہ صرف اور صرف ایکسٹینشن کی عرض سے کی جارہی ہے۔
"خفیہ ترامیم" میں سے جو کچھ باہر آیا ہے اس میں آئینی عدالت کا قیام بہت پرانا مطالبہ تھا راقم خود بھی اپنے کالموں میں اس کی ضرورت کے بارے میں لکھ چکا ہے۔ مگر اس کے سربراہ کی تقرّری کا اختیار قومی اسمبلی کے ممبران کو دیا جارہا ہے جو سخت قابلِ اعتراض ہے، اس کا اختیار سپریم جوڈیشنل کونسل کے پاس ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس کی تقرّری کا جو اصول 1996 میں چیف جسٹس سجّاد علی شاہ کے مشہور فیصلے میں طے ہوچکا ہے وہ قائم رہنا چاہیے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے۔ پانچ ججوں میں سے ایک کو چیف جسٹس منتخب کرنے کا اختیار اگر سیاستدانوں کو دے دیا جائے تو عدلیہ کی جو تھوڑی بہت آزادی رہ گئی ہے وہ بھی ختم ہوجائے گی۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کو کسی صورت میں سیاستدانوں کا محتاج نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا ان کے انتخاب کو سیاستدانوں کی صوابدید (Sweet will) پر چھوڑنا عدلیہ کے پر کاٹنے کے مترادف ہے۔
کاش ان ترامیم میں ہائی کورٹس کے جج صاحبان کی تقرری کے طریقۂ کار کو بہتر اور شفاف بنانے کے لیے بھی کچھ تجاویز شامل ہوتیں۔ راقم کئی بار لکھ چکا ہے کہ لاء گریجویٹس میں سے امتحان اور انٹرویو کے ذریعے ایڈیشنل سیشن ججوں کا تقرر کیا جائے اور بیس سال کی سروس کے حامل ان ججوں میں سے نیک نام، دیانتدار اور باکردار افراد کو متعلقہ ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا جائے۔ اس تجویز سے سینئر وکلاء اور ریٹائرڈ جج صاحبان بھی اتفاق کرتے ہیں، مگر یہ تجویز آئینی ترمیم کا حصّہ نہ بن سکی کیونکہ "اصلاح سازوں" کو جج صاحبان کے معیار اور کردار سے دلچسپی نہیں، انھیںعدلیہ کو manage کرنے کا طریقۂ کار ڈھونڈنے میں دلچسپی ہے۔
ججوں کی تعیناتی کا اختیار سیاستدانوں کو دیتے وقت یورپ کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ وہاں بھی ججوں کی تقرّری سیاستدان کرتے ہیں مگر حضور! آپ کا اور ان کا کیا مقابلہ؟ وہ دھونس اور دھاندلی سے الیکشن جیتنے کی کوشش نہیں کرتے ، وہ اپنا ڈی سی، ڈی پی او، ایس ایچ او اور پٹواری نہیں لگواتے، وہ تفتیشوں میں مداخلت نہیں کرتے اور سرکاری اہلکاروں کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں بالکل سفارش نہیں کرتے۔ انھیں جونہی نظر آجائے کہ وہ اکثریت کا اعتماد کھوگئے ہیں تو وہ اسی وقت استعفیٰ دیکر گھر چلے جاتے ہیں، عہدہ بچانے کے لیے آئین کو نہیں روند ڈالتے۔ امید ہے کہ عدل و انصاف کا قلعہ مسمار کرنے اور عدلیہ کو تابعدار بنانے کی یہ مذموم سازش ناکام ہوگی اور حملہ آوروں کا تاریخ میں نفرت اور حقارت سے ذکر کیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان نے پھر ایک بار ثابت کردیا ہے کہ سیاسی بصیرت میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ خفیہ ترامیم کا راستہ روک کر مولانا نے عدلیہ کو کمزور ہونے اور پارلیمنٹ کو بے توقیر ہونے سے بچالیا ہے۔