سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گرونانک کی 485 ویں برسی کی تقریبات گرودوارہ دربار صاحب کرتار پور میں شروع ہوگئیں، جہاں بھارت سمیت مختلف ممالک سے بڑی تعداد میں آنے والے سکھ یاتری شریک ہیں۔
گرو دوارہ دربارصاحب کرتار پور میں برسی کی تقریبات کا آغاز ارنبھتا سری اکھنڈپاتھ صاحب سے ہوا، جب کہ شام کو نشان صاحب کی سیوا اور ارداس ہوگی۔ کل 21 ستمبر کو نگر کیرتن ہوگا اور بابا گرونانک کے پہلے مسلمان شاگرد اور خدمت گار بھائی مردانہ کا قد آور مجسمہ نصب کیا جائے گا۔ بھائی مردانہ کا کانسی کا مجسمہ لاہور کے فقیرخانہ میوزیم نے تیار کیا ہے۔
پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کرتار پور کے ڈپٹی سیکرٹری سیف اللہ کھوکھر نے ایکسپریس کو بتایا کہ برسی کی تقریبات میں شرکت کے لیے امریکا، یورپ، کینیڈا،آسٹریلیا سمیت مختلف ممالک سے تقریباً 500 کے قریب سکھ یاتری آئے ہیں جب کہ بھارت سے کم وبیش ڈیڑھ ہزار کے قریب یاتری کرتار پور کوریڈور کے ذریعے کرتارپور صاحب آئیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گرودوارہ صاحب کے قریب بھائی اجیتا جی بازار میں بابا گرونانک کے ساتھی اورخدمت گار بھائی مردانہ کا مجمسہ نصب کیا جائے گا۔ یاتریوں کو بابا گرونانک کے باغ کی کھجوروں اوردیگر پھلوں کا پرشاد بھی دیا جائے گا۔
بابا گرونانک کی برسی کی تقریب میں پاکستان سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے سربراہ اور صوبائی وزیر اقلیتی امور سردار رمیش سنگھ اور کمیٹی کے دیگر اراکین بھی شریک ہوں گے۔ یاتریوں کی سکیورٹی، لنگر اور قیام کے انتظامات کیے گئے ہیں۔
دوسری طرف برسی کی تقریبات میں شرکت کے لیے اس سال واہگہ بارڈر کے راستے بھارت سے سکھ یاتری پاکستان نہیں آسکے۔ پاکستانی اور بھارتی سکھوں کی طرف سے متعدد بار یہ مطالبہ سامنے آتا رہا ہے کہ بابا گرونانک کی برسی پر بھارت سے سکھ یاتریوں کے جتھے کو دونوں ملکوں کے مذہبی یاترا کے 1974ء کے باہمی معاہدے میں شامل ہونا چاہیے تاہم ابھی تک یہ ممکن نہیں ہوسکا۔
واضح رہے کہ بابا گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری 17 سال کرتارپور میں گزارے ۔1539 میں جب بابا گرونانک کا انتقال ہوا تو ان کے مسلمان اور ہندو عقیدت مندوں میں ان کی آخری رسومات کی ادائیگی پر تنازع پیدا ہوا۔ مسلمان ان کی تدفین جب کہ ہندو عقیدت مند ان کی چتاجلانا چاہتے تھے۔ سکھ روایات کے مطابق اس تنازع کے دوران بابا گرونانک کا جسد خاکی جو دریائے راوی کے کنارے پڑا تھا، وہ پانی میں غائب ہوگیا اور وہاں سے ایک چادر اور دو پھول ملے۔ آدھی چادر اور ایک پھول لے کر مسلمانوں نے یہاں بابا گرونانک کی قبربنادی جواب بھی موجود ہے جب کہ ہندوعقیدت مندوں نے ان کی سمادھی بنائی ۔ جہاں بعد ازاں مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں گرودوارہ تعمیر کیا گیا۔