گزشتہ مضمون میں تذکرہ ہوا تھا کہ کس طرح ایک یہودی بروکر خائم سالومن نے امریکا کی جنگِ آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے خود کو سرمائے سمیت آزادی کے مقصد کے لیے وقف کر دیا۔ خائم کے بعد امریکا کی یہودی کمیونٹی نے پچھلے ڈھائی سو برس میں خود کو کس طرح مقامی سیاست اور حکومت میں فعال رکھا۔ آج اس بابت کچھ بات کرتے ہیں۔
امریکن اسرائیل کوآپریٹو انٹر پرائز کا ایک کام امریکی زندگی میں یہودیوں کی حصہ داری کو نمایاں کرنا ہے۔اس کے جمع کردہ تحقیقی مواد کے استفادے سے درجِ ذیل معلومات حاصل ہوئیں۔
امریکا کے اعلانِ آزادی سے ایک سال پہلے ریاست جنوبی کیرولائنا کی قانون ساز اسمبلی کے لیے فرانسس سلواّڈور نامی پہلا یہودی منتخب ہوا۔اور اگلے برس فرانسس سلواڈور امریکا کی جنگِ آزادی میں لڑتے ہوئے کام آ گیا۔
چارلس لیون پہلا یہودی سیاستدان تھا جو اٹھارہ سو پینتالیس میں وفاقی کانگریس کے ایوانِ نمایندگان کے لیے منتخِب ہوا۔اسی برس ڈیوڈ لیوی کو پہلا امریکی یہودی سینیٹر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
کسی بھی امریکی شہر ( پورٹ لینڈ۔ریاست اوریگون ) کا پہلا یہودی مئیر بننے کا اعزاز اٹھارہ سو انہتر میں برنارڈ گولڈ اسمتھ کو حاصل ہوا۔واشنگٹن بارٹلیٹ پہلا یہودی سیاستدان تھا جو اٹھارہ سو ستاسی میں کسی بھی امریکی ریاست ( کیلی فورنیا ) کا پہلا گورنر منتخب ہوا۔ امریکا کی صدارتی کابینہ میں پہلی بار کسی یہودی سیاستداں کو ( انیس سو چھ ) وزارتی قلمدان (تجارت و لیبر ) ملا۔ان کا نام تھا آسکر اسٹراس۔
لوئی برانڈیس پہلے یہودی قانون دان تھے جنھیں انیس سو سولہ میں سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا۔ (ان سے پہلے اٹھارہ سو تریپن میں صدر میلارڈ ملفورڈ نے جوڈا بنجمن کو سپریم کورٹ کا جج بننے کی پیش کش کی مگر جوڈا نے اسے بوجوہ قبول نہیں کیا )۔
فلورنس پراگ کہان پہلی یہودی خاتون تھیں جو انیس سو پچیس میں ایوانِ نمایندگان کی رکن منتخب ہوئیں۔انیس سو چونتیس میں ہنری مارگینتھوو پہلے یہودی امریکی وزیرِ خزانہ بنے۔
انیس سو چونسٹھ کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ صدر لنڈن بی جانسن کے مدِ مقابل ریپبلیکن امیدوار سینیٹر بیری گولڈ واٹر تھے۔وہ فضائیہ کے سابق جنرل رہ چکے تھے۔گولڈ واٹر بہت کم ووٹوں سے صدر بنتے بنتے رہ گئے۔ان کے والد یہودی مذہب پر قائم رہے مگر گولڈ واٹر اپنی والدہ کے اثرات میں انگلیکن چرچ کے پیروکار تھے )۔اگرچہ کوئی آئینی پابندی نہیں ہے مگر اب تک کوئی غیر عیسائی امریکی صدارت کا حلف نہیں اٹھا سکا )۔
جیمز شیلسنگر پہلے یہودی سیاستدان تھے جنھیں انیس سو تہتر میں امریکی وزارتِ دفاع کا قلمدان ملا۔انھوں نے نکسن اور فورڈ انتظامیہ کے تحت دو برس خدمات انجام دیں۔
اگرچہ صدر نکسن کے قومی سلامتی کے مشیر اور بعد ازاں نکسن اور فورڈ دور کے وزیرِ خارجہ ہنری کسنگر جرمنی سے امریکا ہجرت کر کے آنے والے ایک یہودی خاندان سے تھے۔مگر انھیں اپنا یہ تعارف پسند نہیں تھا۔وہ نظریے کے بجائے عملی تقاضے نبھانے والی سفارت کاری کے لیے جانے گئے اور ان کی کئی پالیسیوں کو یہودی و اسرائیلی لابی بھی ناپسند کرتی تھی۔ ان کے بارے میں ہم جلد تفصیلی بات کریں گے۔
ایڈورڈ لیوی انیس سو پچھتر میں امریکی انتظامیہ کے پہلے یہودی اٹارنی جنرل بنے۔جدید امریکی سیاست میں فعال خواتین کرداروں میں ڈائینی فینسٹائین کا نام بہت اوپر ہے۔وہ پہلی بار انیس سو ستتر میں کسی بڑے امریکی شہر ( سان فرانسسکو ) کی مئیر بنیں اور لگاتار دو مدتیں پوری کیں۔انیس سو بانوے میں ڈائینی اور باربرا باکسر کیلی فورنیا سے پہلی خاتون سینیٹرز کے طور پر منتخب ہوئیں۔دونوں کا تعلق متوسط یہودی خاندانوں سے تھا۔
ڈائنی اکتیس برس تک مسلسل سینیٹر رہیں۔اس حیثیت میں انھوں نے ماحولیات کے تحفظ ، منشیات کی حوصلہ شکنی ، صنفی تشدد ، انسانی اسمگلنگ ، اور جعلی ادویات کے خلاف موثر قانون سازی میں حصہ لیا۔انھوں نے سی آئی اے کے نظربندی کیمپوں اور قیدیوں پر تشدد کے بارے میں ایک چھ سالہ جائزہ مرتب کیا۔اس کے سبب قیدیوں سے راز اگلوانے کے لیے پرتشدد طریقوں میں واضح تبدیلی کے لیے سی آئی اے کو پابند کیا گیا۔
انھوں نے سینیٹ کی انٹیلی جینس اور عدلیہ کمیٹی کی سربراہی بھی کی اور امریکن اسرائیل پبلک افیرز کمیٹی ( ایپک ) میں بھی فعال کردار ادا کیا۔مگر وہ ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتہ کرنے کی بھی وکیل تھیں۔دو ہزار تئیس میں نوے برس کی عمر میں ڈائنی فینسٹائن کا انتقال ہوا۔وہ سینیٹ میں سب سے طویل عرصہ گزارنے والی پہلی خاتون سیاستدان تھیں۔
روتھ گنزبرگ پہلی خاتون یہودی قانون دان تھیں جو انیس سو ترانوے میں امریکی سپریم کورٹ کی جج بنیں۔
سینیٹر جو لبرمین سن دو ہزار کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ایل گور کے نائب صدارتی امیدوار تھے۔ ریپبلیکن امیدوار جارج بش تکنیکی بنیادوں پر کامیاب قرار دیے گئے۔بصورتِ دیگر جو لبرمین پہلے منتخب یہودی نائب صدر ہوتے۔لبرمین کٹر اسرائیل نواز تھے۔انھوں نے انیس سو پچانوے میں کانگریس سے یروشلم ایمبیسی ایکٹ منظور کروانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔اس ایکٹ میں صدر کو پابند کیا گیا کہ وہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرے۔بالاخر بیس برس بعد صدر ٹرمپ نے اس مطالبے کو پورا کیا۔جو لبرمین کا گزشتہ برس مارچ میں بیاسی برس کی عمر میں انتقال ہوا۔
رکنِ کانگریس ایرک کینٹر دو ہزار گیارہ تا چودہ ایوانِ نمایندگان میں ریپبلیکن اکثریت کے قائد رہے۔وہ کانگریس کے کسی بھی ایوان میں پہلے یہودی پارلیمانی قائد تھے۔
چک شو ماخر گزشتہ تئیس برس سے امریکی سینیٹ میں نیویارک کی نمایندگی کر رہے ہیں۔وہ نیویارک میں ہی روس سے ہجرت کر کے بسنے والے ایک یہودی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔دو ہزار سولہ میں وہ سینیٹ میں ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے قائدِ حزبِ اختلاف بنے اور دو ہزار بائیس میں سینیٹ میں ڈیموکریٹ اکثریت ہونے کے بعد قائدِ ایوان بن گئے۔اسرائیل پر دل و جان سے فدا ہیں۔بھلے وہاں کسی کی بھی حکومت ہو۔
اگلے مضمون میں ہم امریکی محکمہ خارجہ کا جائزہ لیں گے۔وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کا تو ہم پچھلے ایک مضمون میں تفصیلی ذکر کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ تین اور شخصیات ہیں جن کا پس منظر یہودی ہے اور وہ امریکی خارجہ پالیسی پر اپنے دور میں خاصی حد تک اثرانداز رہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)