ادھورے شہری
ملک اہم ترین حقیقت ہوتے ہیں۔ مگر اتنا ہی اہم جزو یہ بھی ہے کہ ملکوں کا نظام کس طرح کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے
ملک اہم ترین حقیقت ہوتے ہیں۔ مگر اتنا ہی اہم جزو یہ بھی ہے کہ ملکوں کا نظام کس طرح کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان کی حکومت کتنے سنجیدہ افراد کے حوالے کی گئی ہے۔ موجودہ سیاسی نظام کی روح یہ ہے کہ اس میں ہر فیصلہ سیاسی مقاصد کے تحت کیا جاتا ہے۔ اس نظام کا خمیر ہی عوام میں ایک مخصوص طرز کی خوشنودی کا پیغام دینا ہے۔ مقصد بالکل صاف نظر آتا ہے۔ ہر الیکشن میں کامیاب ہو کر طاقت کو مسلسل اپنے ہاتھ میں رکھنا۔
یہ عنصر اس نظام کی سب سے بڑی قوت ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اس پورے نظام کو کمزور ترین سطح پر بھی لے آتا ہے۔ کیونکہ ہماری قوم کےD.N.A (ڈی۔این۔اے) میں شخصی سطح سے بلند تر ہو کر فیصلہ کرنے کی اہلیت موجود نہیں ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی بھی استثناء نہیں ہے۔ اپنی سیاسی وابستگی کو پسِ پشت ڈال کر کسی بھی دور کی حکومت کے فیصلوں پر تنقیدی نظر ڈالیے۔ آپ کو اس میں ذاتی مفاد اور حکومتی طاقت میں مسلسل رہنے کی خواہش واضح طور پر نظر آئیگی۔ آپ میرے نقطہ نظر سے اختلاف کر سکتے ہیں کیونکہ یہ آپکا حق ہے۔ مگر میں اب اس زاویہ پر قائم ہوں کہ ہم لوگ کسی بھی سطح پر بڑے اور غیر شخصی فیصلے کرنے کی استطاعت سے محروم ہوچکے ہیں۔
ہمارے سیاسی یا فوجی حکمرانوں کو جب بھی تخت سے علیحدہ کیا جاتا ہے، تو وہ لوگوں میں اپنی غیر مقبولیت بلکہ نفرت کا قطعاً ادراک نہیں رکھتے۔ وہ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ یہ سب لوگ ان کے خلاف کیوں ہیں! اب تو مجھے یہ ایک بے مقصد سا دائرہ نظر آنے لگا ہے جس میں آنے اور جانے والوں کی لمبی قطاریں ہیں۔ لوگوں کو نہ آنے والوں کا انتظار اور نہ ہی جانے والوں کا غم ہوتا ہے! ہر چند اس گھمبیر صورتحال میں کبھی کبھی عام لوگ مجھے اپنے خلوص سے متاثر کر دیتے ہیں۔
اپنی گزارشات پیش کرنے سے پہلے دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ہاں اکثر علماء دین اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے تاریخ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کا فرق لوگوں کے ذہن سے مٹانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ یہ حکمت عملی ان کے اپنے لیے تو مکمل طور پر کامیاب رہی ہے مگر قوم ذہنی طور پر مکمل فکری انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔ آپ ڈر اور خوف کی وجہ سے اکثر علماء دین سے کسی سنجیدہ موضوع پر بات نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا جواب اور رویہ اکثر معاملات میں بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مجھے یہ ذہنی خلفشار بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ، کہ ہماری کوئی بھی حکومت اپنے فرائض کو صحیح طریقے سے انجام دینے سے قاصر ہو چکی ہے۔ مفاد عامہ کے لیے فیصلے اول تو ہوتے ہی نہیں ہیں۔ اگر جزوی طور پر کوئی اچھا کام ہو بھی جائے تو اسکو اپنی ذاتی تشہیر کے لیے انتہائی عامیانہ طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ لوگوں کا پیسہ، لوگوں پر خرچ کرنے میں بھی احسان کرنے کا عنصر بہت غالب ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم دہشت گردی جیسی بلا سے نمٹنے کے لیے یکساں خیالات نہیں رکھتے۔
کسی بھی حکومت کا کام کیا ہے؟ اپنے لوگوں کی حفاظت اور اجتماعی مسائل کے بالکل سادہ سے حل تلاش کرنا۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ ہم ان بنیادی کاموں میں مکمل ناکام نظر آتے ہیں۔ آپ ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیے۔ امریکا میں فلوریڈا ایک ایسا خطہ ہے جو سمندر کے بالکل نزدیک ہونے کی بدولت اکثر اوقات تیز ہوا کے طوفان کا شکار رہتا ہے۔ ڈیڑھ سال قبل فلوریڈا میں قیامت خیز سمندری طوفان ((Hurricane آیا۔ آپ حکومتی تیاری کا اندازہ لگائیے۔ طوفان سے دس پندرہ دن پہلے تمام شہریوں کو Hurricane کے مکمل اوقات سے آگاہ کیا گیا۔ انکو بتایا گیا کہ اپنی گاڑیاں کہاں اور کیسے پارک کرنی ہیں۔ گھروں کی کھڑکیوں اور شیشوں کو بند کرنے کی مکمل ہدایات ہر پندرہ منٹ کے بعد جاری ہونی شروع ہو گئیں۔
طوفان سے چند گھنٹے پہلے ساحلی گھروں میں رہنے والے لوگوں کو نزدیک ترین محفوظ عمارتوں میں منتقل کر دیا گیا۔ وہاں استعمال کے لیے کھانے پینے کی مکمل اشیاء اور سونے کے لیے گدے مہیا کیے گئے۔ بچوں کو خاص طور پر بتایا گیا کہ انھوں نے طوفان کے دوران حفاظتی تدابیر کیسے اختیار کرنی ہیں۔ تمام شہریوں کو بار ہا مرتبہ محفوظ رہنے کی پریکٹس کروائی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی تاریخ کا مہیب سمندری طوفان آیا اور لوگوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ کوئی انسانی جان ضایع نہیں ہوئی۔ کسی گھر کی کھڑکی تک نہیں ٹوٹی۔ یہ حکومتی سطح پر لوگوں کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کی بالکل عام سی مثال ہے۔
اب آپ اپنے ملک پر نظر ڈالیے۔ کل سارا دن الیکٹرونک میڈیا پر میران شاہ میں طالبان کے عسکری ٹھکانوں کو دکھایا جاتا رہا۔ وہ خود کش جیکٹس کیسے تیار کرتے ہیں۔ ریموٹ کنٹرول تباہ کاری کیسے کی جاتی ہے۔ بارود کیسے بنایا جاتا ہے۔ خود کش بمبار کیسے تیار ہوتے ہیں۔ اسلحہ کہاں سے اور کتنی آسانی سے خریدا جاتا ہے۔ طالبان نے اپنی حفاظت کے لیے سرنگیں اور کس کس طرح کے تہہ خانے بنائے ہوئے ہیں۔ تمام مناظر انتہائی تکلیف دہ تھے۔ مگر اس تکلیف میں خوف کا عنصر اس وقت شامل ہو گیا جب ایک پرائیویٹ جیل بھی تفصیل سے دکھائی گئی۔
اس میں زمین پر دریاں بچھی ہوئی تھیں۔ اس جیل میں دو کمرے تھے۔ کمروں کے باہر ایک برآمدہ، جس میں دہشت گردوں کے لیے سرخ رنگ کے گدے اور تکیے نظر آ رہے تھے۔ وہاں قالین بھی بچھا نظر آ رہا تھا۔ یہاں طالبان اپنے قیدی رکھتے تھے۔ پھر جیل سے صبح فجر کے وقت قیدیوں کو باہر نکالا جاتا تھا۔ جیل کے بالکل ساتھ ایک بازار تھا۔ چوک میں قیدی کو کھڑا کیا جاتا تھا۔ لوگوں کو جمع کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد اس قیدی کو لٹا کر چھری سے جانور کی طرح ذبح کر دیا جاتا تھا۔ حکم یہ تھا کہ تڑپتے ہوئے شخص کے نزدیک بھی کوئی نہ آئے اور مغرب تک یہ نعش وہیں پڑی رہے۔ یہ میران شاہ کے مین بازار کا معمول تھا۔ ذبح ہونے والے ہمارے ہی ملک کے شہری تھے۔
اس میں اغوا ہو کر پیسے نہ دینے والے اشخاص اور سیکیورٹی اہلکار سب شامل تھے۔ ذبح شدہ بندے کو تڑپتا ہوا دیکھ کر طالبان کے کمانڈر قہقہے لگاتے تھے اور لوگوں میں اپنی نافرمانی کی سزا کے زاویے سے مکمل خوف کی فضا قائم رکھنے میں کامیاب تھے۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ طالبان کی یہ پناہ گاہیں کوئی ایک دن میں تعمیر نہیں ہوئیں؟ یہ تمام کام دہشت گرد بڑے اطمینان سے کئی برس تک کرتے رہے۔ انھیں اس کام کو کرنے کی اجازت کس طرح دی گئی! کون تھا جس نے اس پر صرفِ نظر کرنے کے احکامات دیے! یہ خوفناک ترین المیے روز کس کی اجازت سے ہوتے رہے؟ ہماری کسی بھی حکومت نے اس کا نوٹس پہلے کیوں نہیں لیا؟ آپ حکومتی غفلت کا رونا رونے سے باہر آئیں۔
وہاں کے مقامی سیاستدان جو صوبائی اور قومی اسمبلی میں سالہا سال رہے، رائے عامہ کو اتنے بھیانک جرائم سے مسلسل آگاہ کرنے میں کیوں ناکام رہے۔ ہمارے ملک کے شہری مسلسل شہید ہوتے رہے۔ خودکش بمبار ہمارے ائیرپورٹس پر بھی بے دریغ حملہ کرتے رہے۔ مگر ہم کونسی مصلحت کے تحت ان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی شروع نہ کر پائے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے۔ کیا کسی مہذب معاشرے میں اس طرح کے بھیانک جرائم کو ایک منٹ کے لیے بھی برداشت کیا جا سکتا ہے؟ میں آپکو ذمے داری سے عرض کرتا ہوں کہ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں کوئی بھی حکومت ہوتی، وہ اس طرح کے واقعات کو کچلنے میں ایک سیکنڈ کی تاخیر نہ کرتی۔ مگر آفرین ہے ہم لوگوں پر۔ ہم اپنے پچاس ہزار شہری شہید کروا کر آج بھی Focused قومی سوچ سے محروم نظر آتے ہیں۔
تاویلیں، بحث، مباحثے، لاحاصل تقریریں، ہم ہمیشہ کی طرح آج بھی ان میں مصروف ہیں۔ میں موجودہ مرکزی اور صوبائی حکومت کو ان حالات کا مکمل ذمے دار اس لیے نہیں ٹھہراتا کہ یہ المیہ کوئی ایک ڈیڑھ سال کا شاخسانہ نہیں ہے۔ یہ تو سالہا سال کی مجرمانہ غفلت ہے۔ خیر آج پوری قوم شمالی وزیرستان میں فوجی کاروائی کی کامیابی کے لیے دعا گو ہے۔مگر سِکے کے دوسرے رخ پر بھی نظر چلی جاتی ہے۔ فوجی آپریشن کی فیصلہ کن صدا مہینوں سے ہر با خبر حلقے میں گونج رہی تھی۔ پھر ہم اپنے ملک کے ان قبائلی شہریوں کے لیے باعزت رہنے کا پیشگی انتظام کیوں نہ کر پائے۔ ہم آج انکوI.D.P's کہہ کر ان کی اور اپنی توہین کر رہے ہیں۔
یہ ہمارے ہی ملک کے شہری ہیں۔ وہ کون سی مجبوری تھی کہ ہمارے صوبائی اور مرکزی حکومت یکجان ہو کر ان لوگوں کے لیے وہ مناسب انتظام نہ کر پائی جو مہینوں پہلے کیا جا سکتا تھا۔ ان بچوں اور عورتوں کو وقت آنے پر احترام اور حفاظت سے عارضی رہائش گاہیں فراہم کرنا آخر کس کی ذمے داری تھی۔ ہر سیاسی فریق کا ہاتھ دوسرے کی گریبان پر ہے۔ میں اتنی مایوس کن صورت حال میں جب عام لوگوں کی طرف نظر ڈالتا ہوں تو یقین فرمائیے، زندگی پر بھروسہ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ ہمارا ہر شہری ان قبائلی لوگوں کے لیے عطیہ دینے کے لیے پیش پیش ہے۔ میں لاہور کی مثال دینا چاہتا ہوں۔
اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے بچے پیسے اکھٹے کر رہے ہیں۔ مجھے اس خدمت کے جذبے کی صداقت پر فخر ہے۔ میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے اپنی مالی حیثیت سے بڑھ کر عطیات دیے ہیں۔ میں نے لوگوں کو انتہائی خاموشی سے کروڑوں روپیہ چندہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اکثر تو کسی اشتہار یا اشتہاری مہم کا حصہ بنے بغیر بنوں جا چکے ہیں اور وہاں مصیبت زدہ لوگوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ ان کا تعلق نہ کسی سیاسی جماعت سے ہے نہ ہی وہ کسی مذہبی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وہ کسی سرکاری ادارے سے رابطہ تک نہیں کر رہے۔
یہ سات سے آٹھ لاکھ آفت زدہ لوگ دو طرفہ عذاب میں مبتلا ہیں۔ پہلے یہ دہشت گردوں کے خنجر کی نوک پر تھے اور اب یہ اپنے گھروں سے نکل کر دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں! ہم ان کی تکلیف کی شدت کا اندازہ لگانے سے بھی قاصر ہیں! ان مصیبت زدہ لوگوں کی نقل و حرکت پر صوبائی پابندی ہے! یہ دہشت گردوں کی قتل گاہوں سے بچ کر جب بنوں پہنچے ہیں تو ایک دم انھیں علم ہوا ہے کہ ان کے پاس اس ملک کے تمام شہریوں جیسے حقوق نہیں ہیں! شائد ہمارے یہ قبائلی بھائی، پاکستان کے قانونی شہری ہی نہیں ہیں! شائد انھیں معلوم ہی نہیں ہو پایا کہ وہ ہمارے ملک کی مکمل شہریت ہی نہیں رکھتے! وہ تو ہیں، دہشت گردوں کی مقتل گاہوں سے بچ کر آنے والے ہمارے ملک کے ادھورے شہری!