جمہوریت 62 63 کے پھانسی گھاٹ پر
کیا ہمارا پارلیمانی جمہوری نظام ایک بار پھر آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔
کیا ہمارا پارلیمانی جمہوری نظام ایک بار پھر آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ وزیراطلاعات پرویز رشید تواتر سے جمہوریت کے خلاف سازشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بات اُدھوری چھوڑدیتے ہیں' کھل کر نہیں بولتے شائد سرکاری منصب کا تقاضا راز داری ہے۔
گذشتہ ماہ ایک دوست نے موجودہ جمہوری نظام کو لپیٹنے کے بارے میں تین متبادل منصوبوں پر مبنی ای میل دکھائی تو اس کالم نگار نے اپنی عجلت پسندی کے ہاتھوں اسے فوری طورپر مسترد کردیا جس میں جمہوریت کواحتساب ،پاکبازی اوردیانتداری کی آڑمیں عدالتی کلہاڑے سے ذبح کرنے کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں ۔دبئی میں جنم لینے والی اس ای میل کے خالق نے پیش بندی کے طور پر مختلف اقدامات کرنے کی ہدایات بھی دی تھیں' یہ میمو گیٹ سے کچھ کم ای میل دھماکا نہیں تھا جس کو مختلف کردار اب بروئے کار لارہے ہیں۔
لیکن سازشوں کے اس گرداب میں ارسلان افتخار کا دور دور تک کوئی اَتاپتا نہیں ملتا تھا۔ گذشتہ ماہ وہ ایک بار پھر اس وقت منظرعام پر آئے جب وفاقی دارالحکومت میں یہ انہونی سرگوشیاں زورپکڑ نے لگیں کہ ارسلان افتخار کو بلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ کاوائس چیئرمین بنایا جا رہا ہے۔ ان اطلاعات کو اس خوش فہم نے 'ڈس انفارمیشن'قرار دے کر سابق چیف جسٹس کی کردار کشی کی ناروامہم کاشاخسانہ قرار دیا لیکن ہونی تو ہوکر رہتی ہے۔
ارسلان افتخار کے تقرر کااعلامیہ جاری ہوگیا تو چارنسلوں سے بلوچستان میں مقیم ارسلان افتخار اپنے تقرر کے دفاع کے لیے میدان میں آئے' پھر ریکوڈک میں ان کے عمل دخل کامعاملہ سامنے آگیا۔ ذرائع ابلاغ کے فوری ردعمل اور شدید تنقید کی وجہ سے ارسلان افتخار چارج لینے سے پہلے ہی مستعفی ہو گئے تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے والد محترم افتخارمحمد چوہدری کو میری تعیناتی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔
ارسلان کے ہر سکینڈل کے بارے میں چوہدری صاحب کی لاعلمی نہ سمجھ میں آنے والی پہیلی ہے۔ ارسلان ڈاکٹربننا چاہتے تھے۔ بہت کم نمبر ہونے کی وجہ سے میڈیکل کالج میں ان کا داخلہ کوٹے والی نشست پر ہوا تھا۔ صوبائی محکمہ صحت میں نوکری بھی اسی طرح ملی اور پھر ایف آئی اے میں تعیناتی کا معاملہ منظر عام پر آیا۔ پھر ان کے کندھوں پر پولیس گروپ کے افسروں والے پھول جگمگائے۔ پھر ملک ریاض کے ساتھ معاملہ منظر عام پر آیا۔ اب چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد بلوچستان سرمایہ کاری بورڈ کی سربراہی کا معاملہ سامنے آیا۔
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئے
سرمایہ کاری بورڈ بلوچستان والے معاملے کی گرد بیٹھنے بھی نہیں پائی تھی کہ ارسلان افتخار صادق وامین اورنیک مسلمان ہونے کی آئینی شق کا کلہاڑا تھامے الیکشن کمیشن کے سامنے نمودار ہوئے اور تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے تحت ریفرنس دائر کردیا جس میں ماضی کے ایک سکینڈل کو بنیاد بنا کر کہا گیا کہ انھیں نااہل قرار دیا جائے۔
عمران کے خلاف یہ سکینڈل 90کی دہائی میں سامنے آیا تھا۔ اس کالم نگار کو اچھی طرح یاد ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے میں اس زمانے کے بعض سینئر صحافی اس سکینڈل کے حوالے سے عمران خان کی تصاویر اور کہانیاں لے کر نجی خبررساں ادارے کے دفتر آتے تھے۔
20سال بعد ایک بار پھر رمضان المبارک کے مقدس ایام میں ماضی کے اس سکینڈل کی کہانی کو لے کر 62اور 63آرٹیکل کی شمشیر لہراتے ہوئے ارسلان افتخار میدان میں اترے ہیں۔ بظاہر وہ اپنے والد محترم کے خلاف کپتان عمران خان کی الیکشن 2014میں مبینہ دھاندلی کے الزامات اور 35پنکچروں والی کہانی کا توڑ کرنے نکلے ہیں جس کے لیے انھوں نے 25سال پرانی قضیے کے گھڑے مردے اکھاڑے ہیں۔
نوشتہ دیوار یہ ہے کہ اگر ماضی کے اسکینڈل کے معاملے کو بنیاد بنا کر آئین کے آرٹیکل 62، 63کے تحت عمران خان کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی تو پھر تمام ارکان اسمبلی کو اس پل صراط سے گذرنا ہوگا۔62،63کی پاکیزہ چھلنی سے ارکان پارلیمان کی غالب اکثریت گذرنہیں پائے گی جس کے نتیجے میں ارکان کے ساتھ قومی وصوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ سمیت تمام پارلیمانی ادارے دائو پر لگ جائیں گے۔ عدالتوں کے ذریعے جمہوریت کے قتل کی انوکھی داستان رقم کرنے کی سازش ہورہی ہے اگر منتخب وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کو عدالتی حکم پر گھر بھیجا جا سکتا ہے تو پھر موجودہ جمہوری نظام نے کون سی زرہ بکتر پہنچی ہوئی ہے ۔
ہے کوئی جو ارسلان افتخار کو اس پر خطرراہ سے جانے سے روکے!اور کوئی نہیں تو سابق چیف جسٹس ہی انھیں سمجھائیں۔ 62،63کی تلوار بے نیام سے بر ے بھلے جمہوری نظام کو ذبح ہونے سے بچائیے۔جس کاہدف صرف عمران خان نہیں ہوگا سب کچھ دائو پر لگ جائے گا جمہوریت، پارلیمانی نظام، آزادی اظہار کچھ بھی نہیں رہے گا الحذر کہ مہلت عمل کم ہے!