امن آج کی ضرورت

امن کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ عدم برداشت، نسلی اور مذہبی امتیاز، اقتصادی عدم استحکام اور دہشت گردی ہیں


Zahida Hina September 22, 2024
[email protected]

یوم امن ہر سال 21 ستمبرکو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ 2001 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے اسے ہر سال 21 ستمبرکو منانے کا فیصلہ کیا۔ یہ دن امن کے فروغ اور تشدد کے خاتمے کے عہد کے طور پر منایا جانے لگا۔ امن کو جنگ کی عدم موجودگی سمجھا جاتا ہے، یہ تصور اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔امن انسانی معاشرت اور ترقی کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے، جس سماج میں امن ہوتا ہے وہاں انسانی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے اور انصاف کا بول بالا ہوتا ہے۔ امن کے بغیرکوئی بھی قوم یا ملک ترقی نہیں کرسکتا اور دنیا میں استحکام اور خوشحالی کا خواب ادھورا رہتا ہے۔

امن کا قیام ایک مسلسل عمل ہے۔ قوموں، گروہوں اور افراد کے درمیان مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ تنازعات کو جنگ کے بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہی امن کے فروغ کا ذریعہ ہے۔ ایسا سماج جو باشعور اور تعلیم یافتہ ہو وہاں برداشت اور رواداری کی بنیاد پر امن قائم ہوتا ہے۔امن ایک جامع نظام ہے جو فرد اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔

امن کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے،کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی سماج ترقی نہیں کر سکتا۔ جنگ و جدل کی حالت میں صرف بنیادی ڈھانچے ہی نہیں بلکہ انسانوں کی زندگی، تعلیم اور صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ امن کے قیام سے معاشرتی استحکام، اقتصادی ترقی اور انسانی فلاح کے دروازے کھلتے ہیں۔ آج کی دنیا میں تنازعات، دہشت گردی اور عدم برداشت جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں جس کی بدولت دنیا بھر میں لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔

امن کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ عدم برداشت، نسلی اور مذہبی امتیاز، اقتصادی عدم استحکام اور دہشت گردی ہیں۔ آج دنیا کو امن کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ جنگ کی صورت میں لاکھوں شہری جن میں بچے بھی شامل ہیں زخمی اور ہلاک ہونے ہیں جب کہ بے شمار لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں۔ امن انسانوں کو خوف سے آزاد زندگی گزارنے کا موقع دیتا ہے۔ جنگ کے نفسیاتی اور سماجی اثرات بھی گہرے ہوتے ہیں۔ تنازعات کے نتیجے میں لوگ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ و جدل انسان کے مقدر میں لکھ دیے گئے ہیں۔ کہیں سرحدوں کی لڑائیاں،کہیں عقائد میں تصادم کہیں طاقت کی بھوک نے انسانیت کو برباد کیا ہے۔ اس سب کے باوجود ایک چیز ہمیشہ انسان کے دل میں زندہ رہی ہے اور وہ ہے امن کی خواہش۔تاریخ کے صفحات پلٹیں تو وہ ہستیاں نظر آتی ہیں جنھوں نے زندگیاں امن کے قیام کے لیے وقف کر دیں۔

گاندھی جی کا عدم تشدد کا فلسفہ، نیلسن منڈیلا کی نسل پرستی کے خلاف جدوجہد، یا پھر مارٹن لوتھر کنگ کا خواب ان تمام شخصیات نے ثابت کیا کہ امن کے راستے پر چلنا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔آج کے دور میں جہاں دنیا کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور عالمی طاقتوں کے تصادم کا سامنا ہے، امن ایک ناپید خواب معلوم ہوتا ہے۔ مشرق وسطی کے جھگڑے، جنوبی ایشیا کے سرحدی تنازعات یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان ابھی تک امن کے فلسفے کو پوری طرح اپنانے میں ناکام رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم امن کیسے قائم کریں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ نفرت کی دیواروں کو گرا کر ایک ایسی دنیا کی بنیاد رکھی جائے جہاں جنگ کا نام و نشان نہ ہو؟ اس کا جواب ہے برداشت، انصاف اور انسان دوستی۔ امن کے قیام کے لیے سب سے اہم چیز برداشت اور مکالمہ ہے۔ جب تک مختلف قومیں، مذاہب اور ثقافتیں ایک دوسرے کو سمجھنے اور سننے کی صلاحیت پیدا نہیں کریں گی تب تک امن ایک خواب ہی رہے گا۔

پاکستان اور ہندوستان کا مسئلہ کشمیر ہو یا پھر فلسطین اور اسرائیل کی جنگ، ان تمام تنازعات کا حل صرف مکالمہ اور برداشت میں ہی پوشیدہ ہے۔ طاقت اور اسلحے کے زور پرکبھی بھی دیر پا امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو امن، محبت اور برداشت کا درس دیں۔ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں نوجوان آپس میں مذاہب اور مختلف ثقافتوں پر مکالمہ کریں اور ایک دوسرے کی بات کو سنیں۔ اگر ہم نے نوجوانوں کو امن کا درس نہ دیا تو آنے والی نسلیں اس زمین کو مزید تباہی کے دہانے پر لے جائیں گی۔

جنگ کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتی بلکہ مسائل کو بڑھاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاں کہیں بھی لوگوں نے برداشت، انصاف اور محبت کے اصولوں کو اپنایا وہاں دیرپا امن قائم ہوا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں ایک پر امن دنیا میں زندگی بسر کریں تو ہمیں آج ہی سے اپنے اندر برداشت، محبت اور مکالمے کے اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ امن کا راستہ طویل اورکٹھن ہے لیکن یہ واحد راستہ ہے جو ہمیں انسانیت کی بقا کی طرف لے جا سکتا ہے۔

دنیا میں وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو امن کی روشنی میں اپنی منزل تلاش کرتی ہیں نہ کہ جنگ کی تاریکی میں۔جب ہم دوسروں کے نظریات، عقائد اور خیالات کا احترام کرتے ہیں تو ہم امن کی طرف ایک قدم بڑھاتے ہیں۔ برداشت ہمیں اختلافات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ ہر مذہب، ہر تہذیب اور ہر دور میں امن کا پیغام دیا گیا ہے۔ دانشوروں اور مفکرین نے ہمیشہ امن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ امن ایک عالمگیر ضرورت ہے۔ امن کا پیغام ہمیشہ قائم رہے گا، کیونکہ اس میں ہی ہم سب کی بقا اور ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔

جنگ کی صورت میں معیشت تباہ ہو جاتی ہے اور عالمی تجارت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ امن کا قیام معاشی ترقی اور عالمی تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ ہمیں صرف امن کی باتوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ عملی طور پر اپنے سماج میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ غربت اور نا برابری تنازعات اور بدامنی کا سبب بنتے ہیں اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو اور لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہوں تو اس سماج میں امن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ آج دنیا بھر میں ممالک جتنا اسلحے پر خرچہ کر رہے ہیں اس رقم کو اگر بھوک، تعلیم اور صحت پر خرچ کیا جائے تو پوری دنیا میں انسانوں کا مقدر بدل جائے۔ اس کے علاوہ مسئلے کا کوئی اور حل نہیں ہے۔ یہ بات اگر سمجھ لی جائے تو حالات بہت بہتر ہوں۔

مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ میری بیٹی فینانہ University of Ulster سے Peace and Conflict Resolution پہ کورس کرکے جب واپس آئی تو اس نے بین الاقوامی لکھاریوں کی کہانیوں کا بچوں کے لیے ترجمہ کیا جو کتابی شکل میں شایع ہوا اور وہ ان کہانیوں کو یوٹیوب چینل پہ بچوں کے لیے animate کرکے پیش کر رہی ہے۔ بچوں کے لیے امن پہ کام کی بہت ضرورت ہے،اگر بچپن سے ہی بچے کو ایسی کہانیاں سنائی جائیں جن میں امن کا سبق ہو تو آگے جا کر بچہ ایک بہتر اور پر امن انسان بنے گا۔ اس سال امن کے عالمی دن پر دنیا بھر کے لیڈروں کو چاہیے کہ وہ عہد کریں کے وہ دنیا میں امن قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں