فالکن کے غیر قانونی شکار میں پنجاب وائلڈلائف کے مقامی افسران ملوث ہونے کا انکشاف

شکار پارٹی سے 30 ہزار روپے ایڈوانس جبکہ فالکن پکڑے جانے کی صورت میں اس کی قیمت فروخت کا ساتواں حصہ لیا جاتا ہے


آصف محمود September 22, 2024
فوٹو- فائل

دریائے سندھ پر آنیوالے نایاب اورقیمتی فالکن کا غیر قانونی شکار شروع ہوگیا جس میں مبینہ طور پر پنجاب وائلڈلائف کے مقامی اسٹنٹ ڈائریکٹرز اور انسپکٹر شامل ہیں کمشنر لیہ نے اسٹنٹ ڈائرہکٹر وائلڈلائف اور اسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز کو اس حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

وزیراعلٰی پنجاب مریم نوازشریف، ڈی جی پنجاب وائلڈلائف، کمشنر لیہ،کمشنر کوٹ ادو اور کمشنر مظفر گڑھ کو لکھے گئے ایک خط میں دریائے سندھ کے مختلف ایریاز میں کیے گئے سروے کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ لیہ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف جمشید احمد، تونسہ بیراج اپ اینڈ ڈاؤن اسٹریم پر وائلڈ لائف افسران غلام اکبر اور نذرحسین، تحصیل علی پورجتوئی میں وائلڈلائف انسپکٹر توقیرحسین، اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈلائف مظفر گڑھ نور محمد سمیت وائلڈلائف کے دیگر اہل کار دریائے سندھ پر تحصیل کروڑ سے تحصیل کوٹ ادو تک اپنی نگرانی میں فالکن کا شکار کروا رہے ہیں۔

شکار پارٹی سے 30 ہزار روپے ایڈوانس لئے جاتے ہیں اور فالکن پکڑے جانے کی صورت میں اس کی قیمت فروخت کا ساتواں حصہ لیا جاتا ہے اعلی نسل کا ایک فالکن 20 سے 80 لاکھ روپے میں فروخت ہوتا ہے۔

خط میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ علاقہ رنگ پور تحصیل مظفر گڑھ میں قدرت اللہ درکائی نامی ایک شخص نے 17 لاکھ روپے میں غیرقانونی طور پر شکار کیا گیا فالکن فروخت کیا ہے۔

گزشتہ روز ڈی جی وائلڈلائف پنجاب مدثر ریاض ملک نے بھی واضع کیا تھا کہ جنگی حیات کے غیرقانونی شکار کی معاونت میں اگر محکمے کا کوئی افسر اور عملہ شامل ہوا تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائیگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔