مہنگی بجلی اور ٹیکسوں کی وجہ سے صنعتکار ٹریڈنگ کی جانب راغب ہورہے ہیں میاں زاہد حسین
صنعتکار اپنے وسائل اور منافع ٹریڈنگ میں لگا رہے ہیں اور بتدریج مینوفیکچرنگ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں
ایف پی سی سی آئی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ بجلی کے نرخ اور ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے مینوفیکچرنگ سیکٹر کا مستقبل تاریک ہوچکا ہے جس کی وجہ سے بہت سے صنعتکار اپنے وسائل اور منافع ٹریڈنگ میں لگا رہے ہیں اور بتدریج مینوفیکچرنگ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں جو ملکی مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کا شعبہ ایک مصیبت بنا ہوا ہے جومعیشت کودلدل میں دھکیل رہا ہے جس کے نتیجے میں ملک سے سرمایہ کار بھاگ رہے ہیں اس وقت بجلی کا شعبہ سالانہ کھربوں روپے کا نقصان کررہا ہے مگر اس میں کام کرنے والے ملازم اور افسران نوٹ چھاپنے کی مشین بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز سے فراخدلانہ معاہدے حکومتوں نے کیے مگر اس کا ملبہ عوام پر گر رہا ہے عوام نہ صرف اس بجلی کی قیمت ادا کر رہی ہے جو وہ استعمال ہی نہیں کرتی جبکہ بجلی کے شعبہ میں مثالی کرپشن کی قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔
ملک میں بجلی کا استعمال مسلسل کم ہو رہا ہے جبکہ چوری بڑھ رہی ہے اور اگر نظام بیٹھ گیا تو آئی پی پیز کا منافع بھی ختم ہوجائے گا اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ملک کی معاشی بحالی کے مفاد میں اس معاملے کو حل کریں کسی بھی شعبہ کو ملک کی قیمت پر منافع کمانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جب تک آئی پی پیز اور حکومت منصفانہ اور دوستانہ معاہدے نہیں کرتیں اس وقت تک صورت حال بگڑتی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال آئی پی پیز کے مفاد میں بھی نہیں کیونکہ اب انہیں ادائیگیاں ناقابل برداشت ہوچکی ہیں اس وقت بجلی کے پروڈیوسرز اور صارفین کے مفادات کے درمیان توازن تلاش کرنا چاہیے جوکہ نہیں ہے اور نیپرا اس سلسلہ میں کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔
میاں زاہد حسین نے کہا کہ نئی آئی پی پیز کے قیام پر فوری پابندی عائد کی جائے کسی نجی پاور پلانٹ سے معاہدے میں توسیع نہ کی جائے اور ان بجلی گھروں کا ٹیرف پڑوسی ممالک کے ٹیرف کے برابر کیا جائے کیونکہ حکومت اور عوام اب گھناؤنا کردار ادا کرنے والی ان کمپنیوں کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہیں ہیں اور صنعت وتجارت سے لے کرعام شہری تک بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چند سال قبل جو بجلی 15 روپے فی یونٹ سے کم میں مل رہی تھی اس کے لیے اس وقت شدید مہنگائی کے مارے عام آدمی کو اوسطاً 60 روپے فی یونٹ سے زیادہ ادا کرنے پڑ رہے ہیں اگر اب بھی نجی بجلی گھروں کے مالکان نے لچک نہیں دکھائی توحالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں۔