مجوزہ آئینی ترامیم پر کھیل ابھی باقی ہے
حکومت مجوزہ آئینی ترامیم کو آج بھی اپنی سیاسی ترجیحات کا اہم حصہ سمجھتی ہے ۔
مجوزہ آئینی ترامیم کے پیکیج کے پہلے راؤنڈ میں حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے آئینی ترامیم کو منظور کرانے میں ناکام رہی ہیں۔یقینی طور پر ان مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری حکومتی ترجیحات کا اہم حصہ تھا اور حکومت نے اس کی منظوری کی پوری کوشش بھی کی ۔اسی بنیاد پر حکومتی کیمپوں میں عجلت بھی دیکھنے کو ملی اور مختلف تضادات نمایاں نظر آئے۔
یقینی طور پر اس مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کا نہ ہونا ان کے لیے سبکی کے طور پردیکھا جارہا ہے اور اس عمل سے حکومتی میں قدر مایوسی بھی ہے ۔حکومتی موقف کہ مجوزہ آئینی ترامیم سیاسی وجمہوری نظام کی بالادستی کو بھی اور عدلیہ کی سطح پر اصلاحات کے عمل کو یقینی بنانے میں مدد دے گی۔لیکن مخالفین کے بقول اس کھیل میں عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان توازن قائم کرنے کے بجائے ایگزیکٹوکوعدالتی نظام سے جڑے فیصلوں میں زیادہ بااختیار بنانا اور ایگزیکٹو کا عدالتی نظام پر کنٹرول حاصل کرنے کی پالیسی سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے ۔
عدلیہ کے ایک حصے اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول پہلے سے موجود ہے اور حکومت عدلیہ کے مخصوص فصیلوں کو شک کی بنیاد پر دیکھتی ہے اور اس کا موقف ہے کہ سیاسی حکومت کو کمزور کرنا ، دباو بڑھانا اور سیاسی مخالفین کے حق میں فیصلے دینے سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
حکومتی سطح پر پریکٹس اینڈ پروسیجرآرڈنینس کی منظوری، اسپیکر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کمیشن کو خطوط، مخصوص نشستیں تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ اور حکومت کے بقول الیکشن ایکٹ کی سطح پر ترمیم لاگو ہوچکی ہے اور نئی قانون سازی کے بعد سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں ،الیکشن کمیشن کا اسپیکر اسمبلی کے خط کے بعد قانونی ماہرین سے رائے طلب کرنا ، مخصوص نشستوں پر چیف جسٹس نے آٹھ ججوں کی وضاحت پر رجسٹرار سے جواب طلب کرنا جیسے امو ر سے ظاہرہے کہ تناؤ اور ٹکراؤ کے کھیل میں یقینی طور پر نظام کو بھی خطرات لاحق ہیں ۔
حکومت مجوزہ آئینی ترامیم کو آج بھی اپنی سیاسی ترجیحات کا اہم حصہ سمجھتی ہے ۔اس لیے مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کا کھیل ابھی ختم نہیں ہوا اور حکومت کی سطح پر اب ایک نئی کوشش اکتوبر کے پہلے یا لازمی دوسرے ہفتے میں متوقع ہے ۔ اس سے قبل مجوزہ آئینی ترامیم کے پیکیج پر کچھ ردوبدل کرنے کے بعد اتحادیوں بالخصوص مولانا فضل الرحمن کی رضامندی یا دوبارہ ان ترامیم کے حق میں لانا حکومتی ترجیحات کا اہم حصہ ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کی امریکا سے واپسی کے بعد حکومتی کوشش ہوگی کہ کھیل کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
ایک طرف مولانا فضل الرحمن کو راضی کرنا اور دوسری طرف پیپلزپارٹی بھی اپنا جمہوریت پر مبنی چہرہ بچا کر آگے بڑھنا چاہتی ہے ۔اس لیے حکومت کی مشکل زیادہ ہے اور آسانیاں کم ۔ اس کی ایک جھلک ہمیں گورنر پنجاب کے اس بیان سے ملتی ہے کہ کہ جو چیف جسٹس بنتا ہے اسے بننے دیں۔ سردار سلیم حیدر کے بقول وزیرا عظم کا یہ کام نہیںکہ وہ چار یا پانچ ججز میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس بنائے ۔پنجاب کے گورنر کا یہ بیان سیاسی تنہائی میں نہیں آیا اور یقینی طور پر ان کو پارٹی کی جانب سے کہا گیا ہوگا کہ وہ اس پیغام کو عام کریں ۔ سپریم کورٹ بار سمیت دیگر کونسلز نے بھی پریکٹس و پروسیجر آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔
اس نئی حکمت عملی پر وزیر اعظم شہباز شریف کی باہمی مشاورت، اسحاق ڈاراورقومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کو ان معاملات پرٹاسک دینا، نواز شریف کی مولانا فضل الرحمن کو رام کرنے کی کوشش ، مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو کی ملاقاتیں اور یہ تاثر دینا کہ پیپلزپارٹی ایک نیا ترمیمی بل حکومت اور اپوزیشن کی حمایت کے ساتھ پیش کرے گی تاکہ کم سے کم آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق رائے ہو ۔دیکھنا ہوگا کہ حکومتی اس نئی حکمت عملی میں مولانا فضل الرحمن اپنا سیاسی وزن کس پلڑے میں ڈالتے ہیں اور وہ خود کو کہاں کھڑا کرتے ہیں۔
اس لیے حکومت خاموش تو ہے مگر اس نے اس کھیل سے پیچھے ہٹنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کو موجود ہ عدالتی فیصلوں پر تحفظات ہیں ۔ حکومت کو سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ مخصوص نشستوں کے عدالتی فیصلے کو بنیاد بنا کر حکومتی دو تہائی اکثریت کے عمل کو ختم کیا گیا یا اسے متنازعہ بنا کر حکومت کو اہم قانون سازی یا ترامیم سے روکا گیا جو حکومت کی اپنی سیاسی بقا کے لیے بہت ضروری تھیں ۔
یہ بات کافی واضح ہے کہ ہمیں یا حکومت کو عدالتی نظام میں اصلاحات کی کوئی زیادہ فکر نہیں بلکہ وہ ان آئینی معاملات کو بنیاد بناکر اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل چاہتی ہے ۔اس کی ایک جھلک ہمیں ہر سطح پر حکومت کی پھرتیاں دیکھی جاسکتی ہیں ۔آئینی ترامیم کو لانا یا عدالتی اصلاحات حکومت کا حق ہے لیکن یہ کام تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر کیا جاتا تو بہتر تھا۔
پیپلزپارٹی کی ایک منطق چارٹر آف ڈیموکریسی ہے کہ اس میں آئینی عدالت کے قیام کی شق بھی شامل ہے ۔لیکن 2006سے لے کر اب تک پیپلزپارٹی نے اس اہم معاملے پر کبھی آواز کو نہیں اٹھایا اور کئی بار مسلم لیگ ن کے ساتھ مشترکہ حکومت میں بھی اس کو موضوع بحث نہیں بنایا ۔لیکن اس بار اس موضوع یعنی آئینی عدالت کے قیام کی بات کی سیاسی ٹائمنگ کافی اہم ہے اور اب یہ پیپلزپارٹی کے بقول ہمارا ایجنڈا ہے ۔جب کہ مولانا فضل الرحمن بھی اس آئینی عدالتی نظام کے حامی ہیں البتہ و ہ ایسے ترمیم جس سے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ ہوجائے کے حق میں نہیں ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں پر اسپیکر کے فیصلے پر سپریم کورٹ سے دوبارہ رجوع کرلیا ہے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈنینس بھی عدالت میں چیلنج کردیا ہے اور چیف جسٹس بھی ہمیں موجودہ حالات میں کافی جارحانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔یہ سارا کھیل ظاہر کرتا ہے کہ اسلام آبا د میں جاری طاقت کی لڑائی یا وہاں جو بھی موجود سیاسی کشمکش یا تناؤ ہے اس سے نظام کو بلاوجہ خراب یا متنازعہ بنایا جارہا ہے جس سے سیاسی قانونی ، معاشی اور سیکیورٹی کے حالات درست نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوںگے ۔