کوچۂ سخن

مری نگاہ سے بچ کر کدھر سے گزرے گا<br /> اگر وہ ہے تو کسی دن نظر سے گزرے گا


Arif Aziz September 22, 2024
فوٹو: فائل

غزل
مری نگاہ سے بچ کر کدھر سے گزرے گا
اگر وہ ہے تو کسی دن نظر سے گزرے گا
ابھی تو صرف محبت کی ابتدا ہوئی ہے
جو پانی پاؤں تک آیا ہے سر سے گزرے گا
ہر ایک خواب جو دل کی زمیں میں دفن کیا
سراب بن کے مری چشم تر سے گزرے گا
مری تلاش میں دل سے کبھی نکل تو سہی
تجھے وہیں میں ملوں گا جدھر سے گزرے گا
گزر رہا ہوں تغیر سے تو عجب کیا ہے
ہر ایک شخص اسی رہ گزر سے گزرے گا
چلو کسی کو تو مل جائیں گے یہ نقشِ قدم
چلو کوئی نہ کوئی تو ادھر سے گزرے گا
مگر یہ کوئی نہیں جانتا خدا کے سوا
کدھر سے رات مری، دن کدھر سے گزرے گا
مجھے یقیں ہے کہ تو ایک دن علی راشد ؔ
جہان خواب کے اس بحر و بر سے گزرے گا
( راشد علی مرکھیانی۔ لاڑکانہ)


۔۔۔
غزل
ماحول مناسب ہو تو اوپر نہیں جاتے
ہم تازہ گھٹن چھوڑ کے چھت پر نہیں جاتے
دیکھو مجھے اب میری جگہ سے نہ ہلانا
پھر تم مجھے ترتیب سے رکھ کر نہیں جاتے
بدنام ہیں صدیوں سے ہی کانٹوں کی وجہ سے
عادت سے مگر آج بھی کیکر نہیں جاتے
جس دن سے شکاری نے ادا کی کوئی منت
دربار پہ اس دن سے کبوتر نہیں جاتے
سو تم مجھے حیرت زدہ آنکھوں سے نہ دیکھو
کچھ لوگ سنبھل جاتے ہیں سب مر نہیں جاتے
(دانشؔ نقوی۔ جھنگ)


۔۔۔
غزل
آسماں پھر سے روشنی کر دے
تُو مری ختم بے بسی کر دے
کس قدر تجھ سے مانگتا ہوں میں
میرے مولا تُو یاوری کر دے
زیست میں سب کی مشکلیں یا رب
اپنی قدرت سے آخری کر دے
ایک ہی دَر ہے آسرا دل کا
تھام کر ختم تشنگی کر دے
بے وجہ کیوں بھٹکتا رہتا ہے
مانگ رب سے کہ رہبری کر دے
دل کا لگنا تو اک سزا ٹھہری
زندگی! تُو مجھے بَری کر دے
دن گزرتا ہے شام ہوتی ہے
رات بھی مولا سرسری کر دے
دل محبت کے واسطے ہے بس
نفرتیں اپنی عارضی کر دے
پھر دعا قوم کی ہدایت کو
تُو سعیدؔ آج اور ابھی کر دے
(کامران سعید خان۔اٹلی)


۔۔۔
غزل
رفتار جتنی تیز رکھو، کوئی حد نہیں
میں روشنی ہوں، مجھ کو کسی سے حسد نہیں
جب تو نہیں تھا تب بھی کئی لوگ دل میں تھے
یہ صفر کائنات کا پہلا عدد نہیں
انسان اپنی جنگ کا خود فیصلہ کریں
خوشنودی چاہتا ہوں خدا کی، مدد نہیں
منظق سے تیز ہوتی ہے حسِ جمالیات
میرے کیے ہوئے کسی دعوے کا رد نہیں
گھبرا کے کیمرے کی طرف دیکھتا ہے کیا
تصویر کھینچ لے گا، ترے خال و خد نہیں
شاید موازنے سے ترا راز کھل سکے
ایسے تو کوئی نیک نہیں، کوئی بد نہیں
کچھ جانتے تھے، کچھ بھی نہیں جانتے تھے جب
ان پڑھ ضرور ہوتے تھے ہم نا بلد نہیں
آزاد رہنے والوں کی خاطر بھرا جہان
محصور ہونے والوں کی کوئی رسد نہیں
(حمزہ یعقوب ۔ملتان)


۔۔۔
غزل
بنے گا کیا جو یہ خلقت دہائی دیتی نہیں
کہ راہ اور کوئی اب سجھائی دیتی نہیں
ہمیں تو ہونٹ میسر ہیں رات دن اس کے
وہ اور ہوں گے جنہیں وہ مٹھائی دیتی نہیں
تمام شہر کے درزی اسی کے پیچھے ہیں
جو لڑکی سوٹ سلا کر سلائی دیتی نہیں
یہ شاعری ہے کوئی مالکن بڑے گھر کی
جو کام لیتی ہے لیکن کمائی دیتی نہیں
کسی کے ہونٹوں کا ہلنا سمجھ میں آتا ہے
کسی کی چیخ بھی اس کو سنائی دیتی نہیں
انہیں کہو کہ پڑھائی کے وقت پڑھ لیتے
جو کہہ رہے ہیں کہ کچھ بھی پڑھائی دیتی نہیں
خدا بچائے تمہیں ایسی نیک عورت سے
جو بحث کرتی ہے لیکن صفائی دیتی نہیں
کبھی میں شعر لکھوں گا تمہارے جوبن پر
ابھی تو مجھ کو اجازت پڑھائی دیتی نہیں
عجیب شہرِ طلسمات میں ہے میرا قیام
کوئی بھی چیز مکمل دکھائی دیتی نہیں
وہ آج کل ہے، خفا نرس کی طرح انجمؔ
مریض مرتا مرے، پر دوائی دیتی نہیں
(امتیاز انجم۔ اوکاڑہ)


۔۔۔
غزل
جب تصور میں وہ اپنوں کی جھلک آتی ہے
میرے زخموں کے لیے لے کے نمک آتی ہے
وہ بھی چپ چاپ ہے چوڑی کو گھماتی رہتی
بات کرتے ہوئے مجھ کو بھی جھجھک آتی ہے
لے گئی چھین کے جو ہنستے ہوئے چہروں کو
گھر سے نکلیں تو وہ منحوس سڑک آتی ہے
بات کرتے ہوئے رُکتا ہے وہ پل بھر کے لیے
سوچ کتنے ہی جزیروں میں بھٹک آتی ہے
جیسے بارش سے سبھی پیڑ نکھر جاتے ہیں
ایسے گریے سے بھی آنکھوں میں چمک آتی ہے
مدّتوں اُن سے ملاقات نہیں ہو پاتی
مشکلوں سے نظر اِک آدھ جھلک آتی ہے
پہلے جذبات کو قابو میں ہے لانا پڑتا
پھر کہیں جا کے طبیعت میں لچک آتی ہے
تتلیاں باغ سے رستے پہ ہیں اُڑنے لگتیں
اُس کے آنے کی جو بستی میں بھنک آتی ہے
جب کبھی کھلتے ہیں ماضی کے دریچے آصفؔ
تب خیالوں کے فلک پر وہ دھنک آتی ہے
( یاسررضاآصفؔ۔پاک پتن)


۔۔۔
غزل
آدھے ادھورے خواب کا پیچھا نہیں کیا
میں نے سنبھالا خود کو تماشا نہیں کیا
جس پر تھا اعتبار اسی نے دغا کیا
سو میں نے پھر کسی پہ بھروسا نہیں
عہدِ وفا کی بات پہ اس ہوشیار نے
فوراََ جھکایا نظروں کو، وعدہ نہیں کیا
جس دن سے تم گئے ہو بجھے ہیں سبھی چراغ
گھر میں تمہارے بعد اجالا نہیں کیا
خود کو تیرے خیال میں جب بھی کیا ہے محو
پھر سر بہ سر کیا کبھی آدھا نہیں کیا
جس پر بھری بہار میں تھا تیرا آشیاں
تو نے وہ پیڑ چھوڑ کے اچھا نہیں کیا
(سبطین عباس حیدر ۔ سیالکوٹ)


۔۔۔
غزل
گھٹن اتار کفِ التجا دراز میں رکھ
دعا سے دور کہیں مدعا دراز میں رکھ
گداز وقفۂ آخر تماشا چاہے اجل
شکستِ دار نہ ہو مخمصہ دراز میں رکھ
سراب ہے کہ کہیں ریت کھوجتی ہے مجھے
گماں پہ دوڑ ابھی وسوسہ دراز میں رکھ
وہ جسم آخری حسرت کا بالیقیں مظہر
کہانی جلدی سنا ابتدا دراز میں رکھ
نشہ ضمیر بدلتا ہے کچھ نہیں کہتا
نشے میں گھوم وجہِ اختراع دراز میں رکھ
ابھی اندھیرا نہ پھیلے لطیف منظر پر
ضیا کو بانٹ ذرا سی خلا دراز میں رکھ
(خیال مہدی۔میانوالی)


۔۔۔
غزل
ٖخود پر گمان بھی مجھے تصویر کا ہوا
اتنا اثر فضائے اساطیر کا ہوا
دل ہے کسی قدیم کلیسا میں خستہ قبر
پہلو میں جس کے پیڑ بھی انجیر کا ہوا
اٹھ اٹھ کے راہ دیکھتی ہے گرد ریگ کی
مدت کے بعد آنا جو رہگیر کا ہوا
میں پیاس بن کے دشت کے پہلو میں جا بسا
وہ میٹھا چشمہ وادیٔ کشمیر کا ہوا
قزاق بڑھ رہے تھے خموشی سے میری سمت
ناگاہ شور پانی میں زنجیر کا ہوا
گمنام مرنے والا تھا اس شہر میں کوئی
پھر دوستوں سے مشورہ تشہیر کا ہوا
تقدیر سر نیہوڑے کھڑی تھی ہجوم میں
قاسمؔ جو فیصلہ مری تدبیر کا ہوا
(قاسم حیات ۔منڈی بہاء ُالدین)


۔۔۔
غزل
شاہزادی کو جب ہنسی آئی
پورے گاؤں میں روشنی آئی
ہجر کے کالے چِلّے کاٹے ہیں
تب مجھے جا کے شاعری آئی
مرنے والوں کو زندگی بخشی
میرے حصّے میں خود کشی آئی
رشتہ مانگا ترا،ہمارے بیچ
پھر قبائل کی دشمنی آئی
جو بھی تیرے قریب آئے ہیں
ان کے چہروں پہ دلکشی آئی
دل پہ یادوں نے پھر چڑھائی کی
اس لیے آنکھ میں نمی آئی
میرے چہرے کا رنگ اڑ نے لگا
تیرے جانے کی جب گھڑی آئی
(نزیرحجازی۔نوشکی بلوچستان)


۔۔۔
غزل
منتہائے وصل پر پھر آ گئی رخصت کی شب
کل جدا ہو جائیں گے، ہے آخری وصلت کی شب
آؤ سینے سے لگا لوں اے مِری جانِ وفا
پھر تو ناممکن سمجھ قسمت میں ہو قربت کی شب
اوڑھ کر کالی عبا آئے گی کل شامِ فراق
مار ڈالے گی قیامت بن کے یہ فرقت کی شب
آج تو دو بول بولو پیار کے انداز میں
آخری ہے آج اپنے پیار کی لذّت کی شب
آج کی شب زندگی کی آخری شب ہی نہ ہو
ہو مناجات و دعائے توبہ و حاجت کی شب
صبح سے پہلے خدا کو بھی منانا ہے مجھے
پھر ملے شاید شہاب اللہ کبھی مہلت کی شب
(شہاب اللہ شہاب۔ منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)


۔۔۔۔
غزل
نہ ہر بات پر یوں بہانے بنا
جو دل میں چھپا ہے وہی سچ بتا
مرے شہر میں خشک سالی ہے یوں
نہ برسی ہیں پلکیں، نہ برسی گھٹا
اگر میں ہوں مجرم تو ثابت کرو
وگرنہ شہِ وقت دو نہ سزا
ہیں تجھ سے امیدیں تو رحمان ہے
ترے در پہ آیا ہے ادنیٰ گدا
اگر جانا چاہو تو جاؤ مگر
نہ دو مجھ کو دھوکا نہ دو تم دغا
وہی میرا محسن ہے ہمدرد ہے
مرے حق میں رب سے کرے جو دعا
نہ ساگر ؔسے امید رکھنا کوئی
تری رہ میں سانسیں بھی دی ہیں گنوا
(رجب علی ساگر۔پہاڑ پور، ڈیرہ اسماعیل خان)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔