سقراط کی دانش
تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی اور مورخ وہ کڑوا سچ لکھتے ہیں جو تاریخ میں امر ہو جاتا ہے
لینن نے کہا تھا کہ ریاست اپنی ناکامی کے آخری دور میں انتہائی پر تشدد ہو جاتی ہے ۔ آج یہ سوال زبان زد عام ہے کہ کیا ہمارا سفر ناکامی کی جانب ہے یا ابھی ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ ہماری ریاست ایک کامیاب ریاست میں ڈھل جائے گی۔ یہ اور اس طرح کے چبھتے ہوئے سوالات ہیں جن کی وجہ سے عوام میں مایوسی آخری حد تک پہنچ گئی ہے اور یہ مایوسی راتوں رات نہیں بڑھ گئی، اس میں ہماری اشرافیہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا ہے ۔ معاشرے کو نارمل رکھنے کے لیے مکالمہ ایک بنیادی شرط ہے اور جن معاشروں میںمکالمے سے گریز کیا جائے، ان معاشروں کو زہریلا ہجوم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ علمی مکالمے ، ادبی محفلیں، دلیل و منطق کی اہمیت اور تحقیق وآگاہی پر زور دے کر ہی ایک بہتر معاشرے کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
سقراط نے جب زہر کا پیالہ پیا تھا تو یونان کے حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ ان کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے والا جہنم رسید ہو گیا ۔ اس وقت یونان کی اشرافیہ کا یہ خیال تھا کہ وہ جیت گئی ہے اور سقراط کی دانش ہار گئی ہے ، وقت گزر گیا لیکن یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے تاریخ میں ہار جیت کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا، اس وقت یونان کی اشرافیہ سقراط سے زیادہ طاقتور تھی مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ سقراط کا سچ زیادہ طاقتور تھا ۔
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیںکیوں نہ ہم خود کوایک بے رحم کسوٹی پر پرکھ لیں اور دیکھ لیں کہ کہیں ہم یونانی اشرافیہ کے ساتھ تو نہیں کھڑے جنھوں نے سقراط کو زہر کا پیالہ تھما دیا تھا۔ کہیں ہم تاریخ کی غلط سمت میں تو نہیں کھڑے کیونکہ سو سال بعد جب کوئی مورخ ہمارا حال احوال لکھے گا تو وہ ایک ہی کسوٹی پر ہم سب کو پرکھے گا مگر افسوس کہ اس وقت تاریخ کا بے رحم فیصلہ سننے کے لیے ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہوگا اور تاریخ ہمیں روندتی ہوئی آگے نکل جائے گی۔
یہ وہ حقائق ہیں جن سے ہم دانستہ نظریں چرا رہے ہیں اور نادانستگی میں زہر کے پیالے تھمائے جا رہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے سے جھوٹ اور سچ کی تفریق ختم ہو گئی ہے ۔ ہم میں سے ہر کوئی خود کو حق سچ کا نمایندہ کہتا ہے مگر اپنے ضمیر سے پوچھیں تو یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کیونکہ اگر ہر شخص نے حق کا علم تھام لیا ہے تو پھر معاشرے سے ظلم اور ناانصافی کو ختم ہو جانا چاہیے۔ لیکن ہم اس منزل سے کہیں دور بھٹک رہے ہیںاور معاشرے میں ظلم اور نا انصافی کا جو راج آج ہے، اس کی شدت ماضی میں اتنی نہیں تھی۔
تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی اور مورخ وہ کڑوا سچ لکھتے ہیں جو تاریخ میں امر ہو جاتا ہے کیونکہ جس وقت وہ لکھ رہے ہوتے ہیں، اس وقت تاریخ کی نام نہاد اشرافیہ نیست و نابود ہو چکی ہوتی ہے اور حق سچ کے راہی تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں ۔
ابو جعفر منصور نے کئی مرتبہ امام ابو حنیفہؓکو قاضی القضاۃ بننے کی پیشکش کی مگر آپ نے ہر مرتبہ انکار کیا۔ ان کا یہ انکار وقت کے حکمران کو ایک آنکھ نہ بھایا اور وہ کھلم کھلا ظلم کرنے پر اتر آیا۔ امام ابو حنیفہ ؓ کو بغداد میں دیواریں بنانے کے کام کی نگرانی اور اینٹیں گننے پر مامور کردیا گیا جس کا مقصد ان کی ہتک کرنا تھا ، اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو انھیں قید میں ڈال دیا جہاں پر ان کا سجدے کی حالت میں انتقال ہو گیا۔ نماز جنازہ میں ہزاروں لوگ امڈ آئے ۔کئی مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی ، کیا امام ابوحنیفہ ؓ وقت کے حکمران ابو جعفر منصور سے ہار گئے؟ ہر گز نہیں بلکہ وہ رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیںگئے جب کہ ابو جعفر منصور کو کوئی جانتا بھی نہیں ، اس کی پہچان اس کے ظلم کی وجہ سے ہے۔
ایسی کئی مثالیں ہماری اسلامی تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔ یہ نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے اور آنے والی نسلیں اپنے ماضی کے حکمرانوں کوان کے کردار اور عمل سے پرکھتی ہیں ۔ ہم بھی آج سے کئی برس کے بعد اسی کسوٹی سے پرکھے جائیں گے لیکن اس وقت نہ تو ہم میں سے کوئی موجود ہو گا اور نہ ہی ہم اپنے اعمال کی اصلاح کر سکیں گے کہ تاریخ دان ہمیں حق کے ساتھ کھڑا ہونے والوں میں شمار کرے ۔ ہمیں آج اپنے کل کے لیے حق کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا اور یہ سوال اپنے آپ سے کرنا ہوگا کہ ہم کہیں تاریخ کی غلط سمت میں تو نہیں کھڑے اور اس سوال کا جواب اگر ہمیں مل جائے کہ ہم غلطی پر ہیں تواپنی غلطی کو تسلیم کرنا بڑے ظرف کا کام ہے جس کی ہمارے ہاں شدید کمی ہے ۔
ریاست جن ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے ان ستونوں کے کارپردازوں کے درمیان اگر مکالمے کا فقدان ہو جائے تو ریاست کا توازن بگڑ جاتا ہے اور بگڑے توازن کے ساتھ جس طرح کوئی بھی عمارت اپنی بنیادوں پر کھڑی نہیں رہ سکتی اسی طرح ریاست بھی ڈگمگا جاتی ہے جس کا انجام بالآخر سیاسی انتشار ، معاشی عدم استحکام اور ناانصافی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
ہمارے ملک کے حالات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہم بھی آج ایسے ہی انتشاری حالات کا شکار ہیں اور ریاست کے اہم ستونوں کے درمیان ہم آہنگی کا شدید فقدان دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ سے عوام میں افراتفری کا عالم ہے۔ مہنگائی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے لیکن جب عوام کوریاست کے اہم ستون ہی آپس میں برسرپیکار نظر آئیں تو عوام کا ریاست سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس افراتفری اور انتشاری حالت کو درست کرنے کے لیے ریاستی اداروں کو یکجا اور ہم آواز ہو کر ان مشکل حالات سے نبرد آزما ئی کی تدبیر کرنی چاہیے تا کہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ اس وقت سقراط جیسی دانش کی ضرورت ہے نا کہ یونانی حکمرانوں کی طرح ہاتھوں میں زہر کے پیالے پکڑنے کی۔