دنیا بھر سے مسلم دنیا ایک نظر میں

تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے ہمیں باہمی اختلافات کو پس پشت ڈالنا ہو گا جو کہ میرا خیال ہے مسلم دنیا کرتی نظر نہیں آرہی


تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے ہمیں باہمی اختلافات کو پس پشت ڈالنا ہو گا جو کہ میرا خیال ہے مسلم دنیا کرتی نظر نہیں آ رہی۔ فوٹو فائل

SUKKUR: مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں کم و بیش پوری امت مسلمہ ایس ہی کرب سے گزر رہی ہے۔ چاہیے ملک مسلم ہو یا نان مسلم ایک چیز مشترکہ ہے سب میں کہ مسلمان مختلف مصائب و آلام میں گھرے ہوئے ہیں ۔

افغانستان سے لے کر عراق تک، پاکستان سے لے کر فلسطین تک ،شام سے لے کر چیچنیا تک اور بوسنیا سے لے کر برما تک کونسا ایسا خطہ ہے جہاں مسلمان مصیبت میں نہ ہوں فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ علاقوں میں مسلمان اغیار کے مظالم کا شکار ہیں جبکہ کچھ علاقوں میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں فرقہ واریت کی بنیاد پر ۔گولی جب لگتی ہے تو درد تو برابر ہی ہوتا ہے چاہے وہ گولی اسرائیل کی بندوق سے نکلے یا کسی اپنے ہی مسلمان بھائی کی بندوق سے اگر جذبات سے ہٹ کر مسلمانوں کی حالت زار کی وجوہات کو تلاش کریں توواضح یہ مسائل نظر آئیں گے۔

باہمی نا اتفاقی

مسلمہ امہ میں جس طرح باہمی نہ اتفاقی اس دور میں پائی جاتی ہے شاید ہی تاریخ میں اس کی مثال موجود ہو تمام اسلامی ممالک آپس میں دست و گریبان ہیں اور ایک دوسرے کا سامنا بھی پسند نہیں کرتے ۔وجہ چاہے خاندانی بادشاہت کو دوام دینا ہو یا فرقہ کا اختلاف نقصان صرف اور صرف مسلمان کا ہو رہا ہے ۔

سیاسی عدم استحکام

معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ہونا ضروری ہے۔ تیونس سے شروع ہونے والے عرب سپرنگ کے بعد مسلم ممالک کے حکمران اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے چکروں میں سیاسی عدم واستحکام کا شکار ہو گئے ۔بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کے مسائل حل کرتے حکمران اپنی توجہ صرف دوسرے اسلامی ممالک میں اپنے اثر رسوخ بڑھانے پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ شام کے مسئلہ پر سعودیہ اور ایران کی چپقلش نے غیروں کو ا ور دوام بخشاکہ وہ کھل کر اپنا کھیل کھیل سکیں۔

امن و امان کا مسئلہ

کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار اس ملک کے امن و امان پر ہوتا ہے اگر امن و امان ہے تو ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اگر امن و امان نہیں تو اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں اور آج امن امت مسلمہ کے بیشتر ممالک میں امن و امان کی حالت مخدوش ہے پاکستان افغانستان ٗعراق ٗشام اور مصر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

غربت

مسلم دنیا کی چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور دوسری جانب جب قدرتی وسائل پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو تا ہے سترفیصد قدرتی وسائل مسلم دنیا کے پاس ہیں او آئی سی کے تمام ممالک کی مجموعی (GDP)جاپان کی مجموعی(GDP)سے بھی کم ہے ان حالات میں بھی اگر ہم کسی اور کو قصور وار ٹھہرائیں تو قصور اس کا انہیں بلکہ ہمارا ہے۔

ناخواندگی

تعلیم کا تعلق براہ راست کسی ملک کی معاشی ترقی سے جڑا ہوتا ہے ۔بد قسمتی سے مسلم دنیا اس میدان میں بھی پیچھے ہے مسلم دنیا اپنی جی ڈی پی کا 10-30فیصد حصہ ہتھیاروں کی خریدار پر خرچ کرتی ہے جبکہ تعلیم پر صرف جی ڈی پی کا 0.18فیصد خرچ کرتی ہے ۔سوائے قطر اور ترکی کے جو اپنی جی ڈی پی کا 2.8 فیصد تعلیم اور تحقیق پر خرچ کر رہے ہیں۔

اور اب ان تمام مسائل کا حل۔

اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا ماضی کتنا شاندار تھا تعلیم و ترقی کی بنیاد رکھنے والے ہی مسلمان تھے۔ مگر پھر باہمی اختلافات فرقہ واریت اور فروعی مسائل نے مسلم دنیا کو اس طرح الجھا دیا ہے کہ وہ دوبارہ نہیں اٹھ سکے۔ ان مسائل کے حل کے لیے مسلم دینا کی تنظیم OIC وجود میں آئی اگر ہم او آئی سی کے اغراض و مقاصد دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جن مسائل کے حل کے لیے یہ آرگنائزیشن بنائی گئی تھی ان مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا گیا ہے۔

جیسا کہ باہمی اتفاق، ممبر مسلم ممالک کی آزادی اور حاکمیت کا تحفظ ،اسلامی بنیادی اقدار جیسا کہ امن برابری انصاف اور برداشت کو فروغ ، ممبر ممالک کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشش اور عالمی برادری کے ساتھ باہمی امن و سلامتی کے ساتھ ایک دوسرے کا احترام کرنا۔ یہ وہ اغراض و مقاصد ہیں جن کی بنیاد پر او آئی سی وجود میں آئی تھی مگر اس کے وجود سے لے کر اب تک اس میں سے ایک بھی مقصد حاصل نہ کیا جا سکا ۔

اب ہم حل کی طرف آتے ہیں اوپر بیان کردہ مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اگر ایک پایا جاتا ہے تو باقی بھی وجود میں آ جائیں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان مسائل کو باہمی اتفاق اور خلوص نیت کے ساتھ حل کریں کوئی ملک تنہایہ مقاصد حاصل نہیں کر سکتا ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممبر ممالک اپنا اپنا کردار ادا کریں مثال کے طور پر امیر مسلم ممالک غیرب مسلم ممالک کی معیشت کو سہارا دیں ۔ تعلیم اور ریسرچ میں ترقی یافتہ مسلم ممالک ان کی مدد کریں جو تعلیم میں پیچھے رہ گئے ہیں۔

مگر ان سب مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمیں باہمی اختلافات کو پس پشت ڈالنا ہو گا جو کہ میرا خیال ہے مسلم دنیا کرتی نظر نہیں آ رہی۔ حکمرانوں کی نظر صرف اپنے اقتدار کو دوام بخشنے تک محدود ہے، جس کی وجہ سے وہ کوئی ایسا اقدام کرنے سے گریز کریں گے جو ان کے اقتدار کو دوام بخشنے میں ذرا بھی رکاوٹ پیدا کر سکے چاہے وہ اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت ہی کیوں نہ ہو۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔