موسمیاتی تبدیلی آئی ایم ایف سے مزید ڈیڑھ ارب ڈالر کی درخواست

اب سات ارب ڈالر کے قرض کی منظوری کے بعد پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرد ی ہیں


Shahbaz Rana September 27, 2024
(فوٹو: فائل)

پاکستان نے آئی ایم ایف سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے حوالے سے طویل مدتی اصلاحات کی مالی ضروریات پوری کرنے کیلیے ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالرکے مزید ایک توسیعی پروگرام کا جائزہ لینے کی درخواست کردی۔

پاکستانی حکام نے دی ریزیلیئنس اینڈ سسٹین ایبیلٹی فیسیلٹی (RSF) کے نام پر اس نئے پروگرام کا معاملہ وزیراعظم شہبازشریف اور عالمی مالیاتی فنڈ کی ایم ڈی کرسٹالینا جارجیواکی ملاقات کے دوران اٹھایا۔ یہ ملاقات بدھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران سائیڈ لائن پر ہوئی ۔

وزیراعظم آفس کی جانب سے جمعرات کو جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے اس بات پراتفاق کیا ہے کہ وفاقی وزیرخزانہ آئی ایم ایف کے اکتوبرمیں ہونے والے سالانہ اجلاس میں ا س معاملے کو اٹھائیں گے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ کی طرف سے7 ارب ڈالرکے پروگرام کی منظوری کے بعد اب اس نئے رعایتی قرض کیلئے سہولت حاصل کرنا پاکستان کیلئے آسان ہوگیا ہے۔ پاکستان نے چند ماہ قبل بھی آئی ایم ایف سے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے فنانسنگ کی درخواست کی تھی لیکن ادارے کی طرف سے جواب دیا گیا تھا کہ پاکستان اس قرض کی شرائط کے معیار پرپورا نہیں اترتا۔ لہٰذا اب سات ارب ڈالر کے قرض کی منظوری کے بعد پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرد ی ہیں۔

دی ریزیلیئنس اینڈ سسٹین ایبیلٹی فیسیلٹی (RSF) ایسا رعایتی پروگرام ہے جس کے قرض کی ادائیگی20 برسوں میں کرنا ہوتی ہے۔ دوسری طرف ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی پروگرام کے تحت حاصل کیے گئے قرض کوچارسے10سال میں واپس کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعظم سے ملاقات کے دوران آئی ایم ایف کی ایم ڈی نے اقتصادی اصلاحات کے حوالے سے انکی حکومت کی تعریف کی۔

اب حکومت پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف کوکرائی گئی یقین دہانیوں کو پورا کرنے کا وقت آپہنچا ہے۔ سب سے پہلی آزمائش پی آئی اے کی نجکاری ہے جس کی بولی کی تاریخ یکم اکتوبر رکھی گئی ہے۔ آئی ایم ایف نے سات ارب ڈالر کے پروگرام کی منظوری کے بعد جو بیان جاری کیا تھا اس میں حکومتی حجم کم کرنے کی ضرورت پر زوردیا گیا تھا جوآئی ایم ایف کی نظر میں سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔