مخصوص نشستیں
حکومت کا قانونی موقف اپنی جگہ مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں اسے سیاسی خدشات لاحق ہیں
ملک میں اس وقت قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستو ں کی تقسیم کا ہے ۔سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے آٹھ پانچ کے اکثریتی فیصلے نے مخصوص نشستو ں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دے رکھا ہے۔تفصیلی فیصلے میں یہ بات واضح طور پر کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کو تسلیم کرے ، اس کا فوری نوٹیفیکیشن جار ی کرے، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں،یہ فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔
تفصیلی فیصلہ میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے ۔لیکن سپریم کورٹ کے اس تفصیلی فیصلے پر عمل درآمد تاحال نہیں ہوسکا ہے ۔ اس حوالے سے حکومت ، پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن نے بھی کئی قانونی مسائل یا ابہام کا اظہار کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے کئی اجلاسوں کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ اس فیصلے میں موجود ابہام کے بارے میں تفصیلی وضاحت دے ۔الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رائے مانگی ہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم اور پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون کی روشنی میں الیکشن کمیشن کو کس پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ایک طرف حکومت پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کی مخالف ہے اوراس کی سیاسی سمجھ بھی آتی ہے کیونکہ حکومت ان مخصوص نشستوں کی بنیاد پر اپنی پارلیمانی عددی اکثریت بڑھانا اور اقتدار کو مضبوط کرنا چاہتی ہے ۔اسی مخصوص نشستوں کی بنیاد پر حکومت دو تہائی اکثریت یقینی بنا کر اہم قانون سازی کی طرف بھی جاسکتی ہے ۔لیکن اگر یہ نشستیں سپریم کورٹ کے آٹھ ججز کے اکثریتی فیصلہ کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو ملتی ہیں تو حکومت کی پارلیمانی تعداد نہیں بڑھ سکتی جب کہ پی ٹی آئی کو سیاسی برتری حاصل ہوگی ۔
حکومت کا قانونی موقف اپنی جگہ مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں اسے سیاسی خدشات لاحق ہیں، لہٰذا اس کی کوشش ہے کہ تفصیلی فیصلے میں موجود ابہام کا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔لیکن مسئلہ الیکشن کمیشن کا ہے ۔کیونکہ یہ ایک آئینی سطح کا ادارہ ہے او راس کی حیثیت سیاسی کے مقابلہ میں قانونی یا آئینی نوعیت کی ہے ۔اس لیے الیکشن کمیشن کا سیاسی مسائل کے ساتھ خود کو جوڑنا یا کسی کے حق یا مخالفت میں سیاسی پوزیشن لینا درست عمل نہیں ۔اصولی طو رپر الیکشن کمیشن ایک آئینی اور خود مختار ادارہ ہے جب کہ سپریم کورٹ ملک کی حتمی عدالت ہے ۔ اصولاً تو سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل ہونا چاہیے لیکن کیا کیا جائے آئینی و قانونی موشگافیوں کا کہ بحران جیسے پہلے تھا، ویسے ہی کھڑا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے مخصوص نشستوں پر مزید وضاحت مانگی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وضاحت پہلے ہونی چاہیے یا مخصوص نشستیں کے فیصلے پر پہلے عمل ہونا چاہیے ۔ یوں ایک نہ سمجھ میں آنے والی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں آلاٹ نہیںکرنا چاہتا ہے ۔ حکومت بھی یہی چاہتی ہے جب کہ اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ بھی اس راہ میں رکاوٹ چکی ہے جب کہ سپریم کورٹ اپنے تفصیلی فیصلے میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشتیں دینے کا حکم دے چکی ہے ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تفصیلی فیصلے میں وہ تما م وضاحتیں موجود ہیں جو الیکشن کمیشن کو درکار ہیں ۔اس لیے الیکشن کمیشن کی یہ نئی وضاحتی مشق وقت کا بھی ضیاع ہے ۔کیونکہ مخصوص نشستوں پر جو تفصیلی فیصلہ آیا ہے وہ فل بنچ کا ہے او راس فیصلہ کی وضاحت بھی یہ ہی بنچ دے گا ،نئے بنچ کا کوئی امکان نہیں ہے ۔جب کہ دوسرا موقف ہے کہ اب نئی قانونی صورتحال میں اس فیصلے پر عمل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
جہاں تک حکومت اور پارلیمنٹ کا تعلق ہے تو وہ اگر سیاسی پوزیشن لینا چاہتی ہے تو یہ اس کا حق ہے مگر الیکشن کمیشن کو صرف آئینی وضاحت تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ تو آچکا ہے لیکن اب اگر نئی قانونی جنگ شروع ہوگئی ہے تو پوری تیاری کے ساتھ اپنا مقدمہ لڑنا چاہیے لیکن لگتا ہے کہ یہاں قانون و آئین سے زیادہ سیاسی مفاد یا سیاسی انا کو بالادستی حاصل ہے او ریہ ہی عمل سیاسی تقسیم میں سیاسی انتشار اور بداعتمادی یا ٹکراو کے ماحول کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔
حکومت کے فیصلوں کی بنیاد سیاسی ہوتی ہے۔جہاں تک مخصوص نشستوں کا تعلق ہے تو اس کا سیاسی جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ان مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی یا جے یو آئی یا ایم کیو ایم کا کیسے حق ہے ۔سب سیاسی طور پر جانتے بھی ہیں اور تسلیم بھی کرتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں جو لوگ آزاد جیتے ہیں ان کی حیثیت آزاد امیدوار کی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی تھی۔یہ لوگ مقامی سطح پر پی ٹی آئی کے ساتھ تھے اور ان ہی لوگوں کے ناموں کا اعلان پی ٹی آئی نے اپنے امیدوار کے طو رپر کیا او ران ہی کے آزاد انتخابی نشان کی سیاسی طور پر تشریح بھی کی ۔ اسی طرح اتنی بڑی تعداد میں جیتنے والے یہ آزاد امیدوار آج بھی پی ٹی آئی کے ساتھ ہی کھڑے ہیں او رپی ٹی آئی کو ہی اپنی سیاسی جماعت سمجھتے ہیں ۔آج جب پی ٹی آئی کو ان کی مخصوص نشستیں نہیں دی جارہی ہیں تو اس کی وجہ سوائے سیاست یا سیاسی مخاصمت کے اور کچھ نظر نہیں آتی اور یہ عمل سیاست میں مزید تقسیم بھی پیدا کررہا ہے اور سیاسی انتشار کو بھی بن گلی میں دکھیل رہا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت، الیکشن کمیشن کے درمیان پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے لیکن اس سارے کھیل یا محاذ آرائی یا ٹکراو کی سیاست میں سوائے ہم نے اپنے سیاسی ، ریاستی، آئینی و قانونی اداروں کی ساکھ کو خراب کرنے کے او رکیا کیا ہے ۔ہم آج بھی خود کو تماشے کی سیاست سے باہر نکالنے کے لیے تیار نہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی سیاسی سطح پر اس طرح کے تماشوں سے ہمارا سیاسی ، معاشی استحکام اور آئین و قانو ن کی حکمرانی کا تصور اور زیادہ خراب ہوگا۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے اپنے اندرونی الیکشن ہی نہیں کرائے جو عام انتخابات سے پہلے ہر صورت میں کرانا قانونی اور آئینی طور پر لازم ہے تو وہ بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں کیسے حصہ لے سکتی ہے؟ اسے انتخابی نشان کیسے الاٹ کیا جاسکتا ہے؟پی ٹی آئی نے تاحال اپنے اندرونی الیکشن نہیں کرائے۔ پی ٹی آئی نے اپنے تیئیں جو الیکشن کرائے ، اسے الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا نہ سپریم کورٹ نے تسلیم کیا۔اب سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے فیصلہ دے کر پی ٹی آئی کو پارلیمانی پارٹی قرار دے دیا ہے، خواتین اور اقلیتی نشتیں پی ٹی آئی کو الاٹ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود وہ آزاد ارکان جنھوں نے سنی اتحاد کونسل جوائن کرنے کا حلف نامہ جمع کرایا ہے، انھیں یکایک پی ٹی آئی میں شامل ہونے کا کہہ دیا گیا ہے۔جب کہ پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد بھی اندرونی الیکشن نہیں کرائے۔ یوں ایک عجیب وغریب صورتحال پیدا کرنے کا ذمے دار کسے ٹھہرایا جائے ، اس کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔