پنجاب حکومت نگراں دور کا تسلسل 76 فیصد بیورو کریسی بدستور براجمان
یہ روایتی اور فرسودہ قسم کی بیورو کریسی ہے جس میں نئے لوگوں کو آنے کاموقع نہیں دیا گیا
مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی پنجاب حکومت نے جہاں اپنے 6 ماہ مکمل کر لیے ہیں وہاں نگران دور سے براجمان پالیسی ساز طاقتور بیوروکریسی کے بھی 2 سال مکمل ہو گئے ہیں۔
نگران دور کی بیورو کریسی جس کا کام صرف الیکشن کرانا تھا اس کا 76 فیصد جوں کا توں اپنے عہدوں پر براجمان ہے جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ موجودہ حکومت نگران حکومت ہی کا تسلسل ہے، اس کا اپنا کوئی ویژن اور پالیسی نہیں۔
پنجاب میں 5 ہزار سے زائد افسرو نوکر شاہی میں سے صرف 24 فیصد کے لگ بھگ افسران کو تبدیل کیا گیا، ان میں سے 16 فیصد کی صرف نشست بدلی جبکہ 8 فیصد کی تبدیلی ہوئی جو کہ پنجاب کی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہے، پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ نگران حکومت کے بعد منتخب حکومت نے سول و بیوروکریسی کے سربراہوں اور کلیدی عہدوں سے پر براجمان افسروں کو تبدیل نہیں کیا۔
موجودہ حکومت کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ دیگر صوبوں یا وفاق سے کم افسران پنجاب لائی، ماضی کی حکومتیں پرانے افسروں کو سرنڈر کر دیتی تھیں، وفاق سے نئے افسران کی خدمات مانگی جاتی تھی،موجودہ حکومت نے اس روش کو توڑا ہے۔
اس حوالے سے ایک بیوروکریٹ کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ کی پنجاب میں 10 سال حکومت رہی، زیادہ تر افسران نے اس دوران یہاں کام کیا ہے، سابق چیف سیکرٹری پنجاب امتیاز مسرور کا کہنا تھاکہ بیورو کریسی کے کمانڈر کی اپنی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ کن افسران کے ساتھ کیا کام کرنا چاہتا ہے۔
سابق آئی جی پولیس ڈاکٹر طارق کھوکھر کا کہنا تھاکہ دوسال سے پولیس افسران ایک ہی پوسٹ پر تعینات ہیں جو کہ محکمہ کیلئے نیک شگون ہے،پبلک پالیسی ایڈوائزر و تجزیہ کار سلمان عابد کا کہنا ہے کہ یہ روایتی اور فرسودہ قسم کی بیورو کریسی ہے جس میں نئے لوگوں کو آنے کاموقع نہیں دیا گیا۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ محض اتفاق ہو سکتا ہے کہ ماضی کے کچھ افسران اہم سیٹوں پر تعینات ہیں ، جب حکومت سمجھے گی وہ اچھا پرفارم نہیں کر رہے،انھیں فارغ کر دیا جائے گا۔