میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لوں
واقعی یہ سچ کہا جاتا رہا ہے کہ مشیر یا وزیر ہی کسی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتے ہیں
جلسے جلوس جمہوریت کا حسن کہلاتے ہیں جن ممالک میں جمہوریت پروان چڑھ رہی ہو وہاں کے عوام اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے ہیں ۔ عموماً یہ جلسے جلوس احتجاجی رنگ لیے ہوتے ہیں اور حکومت کے خلاف عوام اور اپوزیشن کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں ۔ کسی بھی حکومت کی اپوزیشن عوام تک اپنی بات پہنچانے کے لیے یا تو میڈیا کا سہارا لیتی ہے اور اگر وہ میڈیا کو کار گر نہ سمجھے تو وہ براہ راست عوام سے رجوع کرتی ہے اور یوں یہ احتجاجی جلسے جلوس وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔
جو حکومتیں یا حکمران اپوزیشن کے احتجاج کو بردباری سے برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں وہ عموماً حقائق کا سامنا کرتے ہیں ۔ اگر حکومت اپوزیشن کے احتجاج کو پر امن رکھنے کی تدبیر کر سکے تو ان جلسوں میں شریک عوام اپنی بھڑاس نکال کر پر امن طور پر منتشر ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر حکومت ان احتجاجی جلوسوں کو زور زبردستی اور تشدد سے روکنے کی کوشش کرے تو حکومت کی یہ کوششیں ان احتجاجی جلسوں کو مزید جلا بخش دیتی ہیں اور عوام میں حکومت کی مقبولیت میں مزید کمی آجاتی ہے ۔
ہمارے ہاں بھی آج کل ایک ہی سیاسی پارٹی کی جانب سے جلسے منعقد کیے جارہے ہیں جن میں عوام کی شرکت کے بارے میں متضاد رائے گردش کرتی رہتی ہیں لیکن ایک بات تو واضح ہو چکی ہے کہ عوام کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو، وہ حکومت مخالف جلسوں میں شریک بھی ہورہی ہے اور حکومت کے تشدد کا نشانہ بھی بن رہی ہے نہ جانے وہ کون سے نادان مشیر ہیں جنھوں نے حکمرانوں کو گھیر رکھا ہے اور ان سے ایسے غیر عوامی فیصلے کر ارہے ہیں ۔
واقعی یہ سچ کہا جاتا رہا ہے کہ مشیر یا وزیر ہی کسی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ وہ جو کچھ حکمران کی آنکھوں کو دکھاتے ہیں یا اس کے کانوں کو سناتے ہیں اسی بنیاد پر حکمران فیصلے کرتے ہیں۔ اگر وزیر باتدبیر عقلمند ہو تو حکمران کو کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن دوسری صورت میں ناکامی کا بوجھ صرف حکمران کے حصے میں آتا ہے اور اس کے ارد گرد جمع لوگ چپکے سے کھسک لیتے ہیںجیسے وہ ان غلط فیصلوں میں کبھی شریک ہی نہیں تھے۔
آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حکمران خود ہی اپنی اپوزیشن کا کردار ادا کر ر ہے ہیں۔کیا پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسی حکومت بھی آئی ہے جو اپوزیشن کی تنقید سے محفوظ رہی ہو ، اگرچہ یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ کوئی حکومت بالکل ہی بے فکر ہو اور عوامی مسائل سے لاپروا، لیکن کچھ بھی ہو ، یہ ایک واقعہ ہے کہ ہماری موجودہ حکومت کی اصل اپوزیشن بدامنی اور گرانی ہے جو کسمپرسی اور غربت کا موجب بن رہی ہے جس کی براہ راست ذمے دار حکومت ہے اور حکومت کی اس بد انتظامی کو تحریک انصاف اپنے جلسوں کی صورت میں مہمیز عطا کر رہی ہے۔ ہم اتنے متشدد ہو چکے ہیں کہ خواتین کے بارے میں غیرمحتاظ گفتگو کرکے بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔
حکومت مخالف جلسے جلوسوں سے ہٹ کر بات کی جائے تو اس وقت ہمارے حکمرانوں کے سامنے سب سے بڑا آئینی تبدیلیوں کا ہے اور ان تبدیلیوں کے ذریعے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کلی اختیارات کے مالک بننا چاہتے ہیں تا کہ وہ اپنی مرضی و منشاء کے مطابق اہم عہدوں پر تقرریاںاور عہدوں کی مدت ملازمت میں اضافہ کر سکیں۔ اس اہم ائینی ترمیم پر حکومت میں شامل جماعتیں متفق نظر آتی ہیں لیکن ان کے پاس اتنی عددی اکثریت نہیں ہے جس سے وہ یہ ترامیم اسمبلی سے منظور کرا سکیں۔
اس ضمن میں داؤ پیچ جاری ہیں ، دھمکیاں تک دی جارہی ہیں ۔دیکھتے ہیں تبدیلیوں کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، ابھی تک تو صرف مولانا فضل الرحمن ہی اس میں واحد رکاوٹ نظر آتے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت اور ہماری مقتدرہ اپنے کلی اختیارات کے شوق سے باز آجائے اور عوام جن کو عدالتوں سے انصاف کی امید رہتی ہے، ان کی یہ آس اورامید برقرار رہے ۔ اصل کام یہ ہے کہ ایسی اصلاحات لائی جائیں جن کی بدولت عوام کو فوری، سستا انصاف مل سکے ۔ یہ قوم پہلے ہی دردوں کی ماری ہے، اس کے دکھوں کا مدوا کریں، ان میں اضافہ نہ کریں اور قوم کے حالات کو بدلنے کی جستجو کریں۔ انقلابات کے دعوے تو ہر دور میں ہوتے رہے ہیں لیکن یہ کھوکھلے انقلابی دعوؤں حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔تاجور نجیب آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ
نہ دل بدلا نہ دل کی آرزو بدلی نہ وہ بدلے
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لوں