پانی کا تنازع
پاکستان کے مختلف علاقوں کو سیراب کرنے والے دریا سوائے دریائے سندھ کے سب بھارت سے آتے تھے۔
پانی زندگی ہے، آبادی بڑھ رہی ہے اور پانی کم ہو رہا ہے۔ پانی صرف انسانی زندگی اور حیوانوں کے لیے ضروری نہیں ہے بلکہ زراعت اور صنعت کے لیے بھی ضروری ہے، بلکہ یوں کہا جائے کہ پانی زراعت کے لیے تو ریڑھ کی ہڈی ہے۔
برصغیر ہندوستان میں صوبوں اور ریاستوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر تنازعات کی ایک تاریخ ہے، جب انگریزوں نے ہندوستان میں ڈیم اور بیراج بنائے اور نہری نظام تعمیرکیا گیا تو پھر صوبوں اور ریاستوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاملہ وجہ تنازع بنا۔ گزشتہ دو صدیوں کے دوران اس خطے کے بارے میں شایع ہونے والی کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جب سندھ بمبئی کا حصہ تھا، تب بمبئی کے گورنر سے پنجاب کی حکومت پر سندھ کا پانی لینے کی شکایت دہلی کی حکومت نے کی تھی۔ جب سندھ مکمل طور پر صوبہ بن گیا تو سندھ کی حکومت نے پھر دہلی کی حکومت کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا تھا ۔
ہندوستان کے بٹوارے کے بعد نیا ملک وجود میں آیا تو پھر بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کا مسئلہ زیادہ اہم بن گیا تھا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں کو سیراب کرنے والے دریا سوائے دریائے سندھ کے سب بھارت سے آتے تھے۔ بھارت کی حکومت نے 50کی دہائی میں پاکستان کے مغربی علاقوں کا خشک سالی میں پانی بند کر کے اور سیلابی کیفیت میں دریاؤں اور نہروں سے اچانک پانی کھول کر پنجاب میں سیلاب کی صورتحال برپا کردی تھی مگر پھر دونوں ممالک کے درمیان اس اہم مسئلے کے حل کے لیے بہت دفعہ مذاکرات ہوئے۔
جنرل ایوب خان کی حکومت اور پنڈت نہرو حکومت کے درمیان 60میں سندھ طاس معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے پر اتفاق رائے کے لیے عالمی بینک نے اہم کردار ادا کیا، اگرچہ ناقدین اس معاہدے پر تنقید کرتے ہوئے ایوب خان کی حکومت پر دریاؤں کو بھارت کو فروخت کرنے کا الزام لگاتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت نے اپنے علاقے سے گزرکر پاکستان آنے والے کئی دریاؤں کا پانی پاکستان کو فراہم کرنے پر اتفاق رائے کیا۔ ایوب خان کے دورِ حکومت میں دو بڑے ڈیم منگلا اور تربیلہ تعمیر ہوئے اور ان ڈیموں کے ساتھ نئی نہریں تعمیرکی گئیں جن کی بناء پر زرعی شعبے میں ہریالی تو آئی مگر سندھ کو یہ شکایت پیدا ہوئی کہ اس کے حصہ کا پانی کم ہوگیا ہے۔ جب انگریزوں نے نہری نظام تعمیرکیا تھا تو اس کے نتیجے میں زرعی شعبہ ترقی کی جانب گامزن ہوا تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ نہروں کا پانی سیم و تھورکے مسائل پیدا کرنے لگا۔
دنیا بھر میں پانی کی مینیجمنٹ کے لیے نئے طریقے رائج ہوئے مگر ہمارے ملک میں پرانا نہری نظام برقرار رہا۔ واپڈا نے سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں اچانک کالا باغ ڈیم کی تعمیرکا منصوبہ ظاہرکر دیا۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ایوب خان کے دور میں تجویزکے طور پر سامنے آیا تھا مگر پھر اس تجویزکو مختلف وجوہات کی بناء پر داخلِ دفترکردیا گیا۔ کالا باغ کے منصوبے کے خلاف سابقہ صوبہ سرحد میں اے این پی، دیگر قوم پرست سیاستدانوں اور سندھ میں سندھ قوم پرست سیاسی افراد نے شدید تحفظات کا اظہار شروع کردیا۔ اے این پی کے لیڈروں نے نعرہ لگایا کہ نوشہرہ کا علاقہ کالا باغ ڈیم کی مجوزہ نہر میں ڈوب جائے گا۔
سندھ کے قوم پرست سیاستدانوں اور ماہرین کا کہنا تھا کہ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے سے دریائے سندھ جب سندھ میں داخل ہوگا تو اس کا پانی کم ہوجائے اور فلو کی رفتار بھی سست پڑ جائے گی، یوں زیریں سندھ کی زرعی زمینوں کو پانی نہیں مل سکے گا بلکہ دریائے سندھ کا بحیرئہ عرب میں نہیں گرے گا، یوں کراچی سے بدین تک خشک سالی ہوجائے گی۔ صرف سمندری حیاتیات کی پرورش پر بھی فرق پڑے گا اور سمندری پانی ساحلی علاقوں کی طرف بڑھے گا۔ احتجاج بڑھا تو یہ منصوبہ رک گیا مگر پنجاب اور سندھ کے درمیان درمیان پانی کی تقسیم پر اختلافات جاری رہے۔
90کی دہائی کے آغازکے ساتھ ہی میاں نواز شریف پہلی دفعہ وزیراعظم بنے۔ سینئر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے منحرف رکن جام صادق علی وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے تو چاروں صوبوں میں پانی کی تقسیم کے لیے ایک ادارہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اس ادارے کے قیام کا فیصلہ آئین کے تحت قائم مشترکہ مفادات کونسل میں ہوا تھا۔ اس کونسل میں وفاق اور صوبوں کو نمایندگی حاصل ہوتی ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا قانون اس طرح بنایا گیا کہ اس میں چاروں صوبوں کو نمایندگی دی گئی اور ہر صوبے سے چیئرمین کے تقررکا طریقہ کار اخذ کیا گیا۔
ارسا نے خاصی حد تک پانی کی تقسیم کے طریقہ کار کو اس طرح وضع کیا کہ صوبوں کی شکایات کا کچھ نہ کچھ تدارک ہونے لگا۔ جب پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی تو وفاقی حکومت نے واپڈا کے ایک سابق چیئرمین کو ارسا کا چیئرمین مقرر کیا۔ یہ موصوف کالا باغ ڈیم کو مفید ثابت کرنے والی مہم کا حصہ تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور اس وقت کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے شدید احتجاج پر وزیر اعظم شہباز شریف کو یہ تقرری واپسی لینی پڑی۔ ارسا ایکٹ 1992 میں ترمیم کا ایک آرڈیننس کا مسودہ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کو پانی و بجلی کی وزات کی جانب سے بھجوایا گیا۔
ڈاکٹر عارف علوی کو احساس تھا کہ مجوزہ آرڈیننس کا سندھ اور بلوچستان میں شدید ردعمل ہوگا، اس بناء پر ایوان صدر نے مختلف اعتراضات کے ساتھ یہ آرڈیننس مسترد کر دیا۔ اخبارات میں شایع ہونے والے مواد کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال 8جولائی کو گرین پاکستان انیشی ایٹو (Green Pakistan Initiative) کے بارے میں ایک اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں ارسا ایکٹ 1992میں ترامیم کے منصوبے کی منظوری دی گئی۔ جب اس اجلاس کی روداد عام ہوئی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ ان ترامیم کو منظور کیا گیا تو ارسا کی ہیئت مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی۔
ان ترامیم کے تحت ارسا کا چیئرمین خود مختار نہیں ہوگا بلکہ اس کے مستقبل کا انحصار وزیر اعظم کی صوابدید پر ہوگا۔اور اب اس ادارے کا چیئرمین وفاقی حکومت کا گریڈ 21 کا افسر ہوگا۔ یہ چیئرمین ارسا کے چاروں صوبوں کے اراکین سے بالاتر ایک ٹیکنیکل کمیٹی قائم کرنے کا مجاز ہوگا جس میں ماہرین شامل ہوںگے۔ اس مسودے کی شق 8کے تحت ٹیکنیکل ماہرین 10دن میں ٹیکنیکل بنیادوں پر پانی کی تقسیم کا طریقہ کار تیارکرے گی اور ہر شہر میں پانی کی فراہمی کا ٹیکنیکل کمیٹی فیصلہ کرے گی، یوں صوبوں سے نامزد ہونے والے افسران بے وقعت ہوجائیں گے۔ اسی طرح اس مسودے کی شق 7میں صوبائی اراکین کے کردار اور مزید محدود ہوجائیں گے۔ اب تمام ٹیکنیکل مسائل پر ٹیکنیکل کمیٹی رائے دے گی۔
صوبائی خود مختاری سے متعلق معاملات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پورا معاملہ آئین کے تحت قائم مشترکہ مفادات کونسل کے دائرے میں آتا تھا مگر وفاقی حکومت مشترکہ مفادات کونسل کو مکمل طور پر نظرانداز کررہی ہے۔ ماہرین نے مزید شقوں کے بارے میں کہا ہے کہ یہ تمام شقیں چیئرمین کو ایک ڈکٹیٹر کا روپ دے دیں گی۔ سندھ اور بلوچستان سے اس مسودہ کو مستردکرنے کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سندھ کے رہنماؤں نے اس مسودے کے خلاف سخت مؤقف اختیارکیا ہے۔ پیپلز پارٹی، سندھ کے علاوہ بلوچستان میں بھی حکومت میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی اور سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کوئٹہ میں ایک اجلاس اس مسودے کو مسترد کیا اور پہلی دفعہ دونوں وزرائے اعلیٰ نے اس امر پر اتفاق رائے کیا کہ دونوں حکومتیں اس مجوزہ قانون کو پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہونے دیں گی۔ اسی طرح سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے بھی اس مسودے کو مسترد کیا ہے ۔
سندھ اسمبلی نے بھی ارسا کی ہیئت کی تبدیلی کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد منظور کی ہے اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی احتجاج کررہی ہیں۔ ابھی تک سندھ کے شہری علاقوں کی نمایندگی کرنے والے خاموش ہیں۔ پانی سب کا مسئلہ ہے۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ شہری علاقوں کی سیاسی تنظیموں نے بھی اس مسئلے پرآواز اٹھائی ہے۔