دنیا بچوں کے رہنے جیسی نہیں رہی
دیکھتے ہی دیکھتے پورا فیس بک غزہ کے زخمیوں کی تصویروں سے بھر گیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے پورا فیس بک غزہ کے زخمیوں کی تصویروں سے بھر گیا۔ جنگ کے یہ شعلے انیسویں صدی کے آغاز سے ہی بھڑک اٹھے تھے۔ یہ انسانی حقوق کی پامالی کی صدی تھی۔ نفرت، تعصب اور نسل کُشی جیسے گھناؤنے کھیل جی بھر کے کھیلے گئے۔ انیسویں صدی میں آگ و خون کی ہولی جو کھیلی گئی، اس کی کڑیاں موجودہ دور سے آ کر ملتی ہیں۔ بعض اوقات ماضی پیچھا نہیں چھوڑتا، اس کی تکلیف و اذیت حال میں بھی محسوس ہوتی رہتی ہے۔
مجھے سب سے زیادہ دکھ بچوں کے مردہ چہروں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ بچے خوبصورت ہوتے ہیں۔ مگر یہ بچے بری طرح زخمی تھے۔ ان کی روشن آنکھیں بند تھیں۔ ہر طرف زخمی، مردہ اور جلے ہوئے بچوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔
اس المیے پر 70 کے لگ بھگ مسلمان ملک خاموش ہیں۔ مسلم دنیا کے جو رہنما اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے تھے وہ سب کے سب اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ نہ صدام نہ قذافی، نہ حافظ الاسد نہ یاسر عرفات اور نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو۔ بھٹو نے 1974ء لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کرائی۔ یہ کانفرنس اسلام دشمن عناصر کی آنکھیں کھول دینے کے لیے واضح اشارہ تھی۔ مگر اسلامی دنیا کے اتحاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ ایران اور عراق کے درمیان ہونے والی جنگ نے خطے کے استحکام کو شدید نقصان پہنچایا۔
اس وقت بھی مشرق وسطیٰ کی تباہی کے بعد ایشیا کے ملکوں میں انتشار پایا جاتا ہے۔ جہاں علیحدگی پسند تنظیمیں سرگرم ہیں۔ عراق کی تقسیم رالف پیٹرس کے نقشے کے مطابق اگر ہونے جا رہی ہے تو ایشیا کے ملکوں کا سیاسی استحکام بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ لہٰذا پاکستان کا سیاسی استحکام ایشیا کے امن کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ غزہ کے اندوہناک واقعے پر دنیا کا ضمیر خاموش ہے۔ اسلامی دنیا مصلحت کے مورچے میں جا چھپی ہے۔ اہل غزہ کی غمزدہ مائیں بینر اٹھائے مسلم دنیا کی فوجوں کو پکار رہی ہیں۔ فیس بک زخمی و مردہ بچوں کی تصویروں سمیت دم توڑتی انسانیت کا نوحہ پیش کر رہی ہے۔
ان بچوں کے مسخ چہرے اور بکھرے ہوئے اعضا دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان بچوں کے مردہ جسموں سے لپٹے ہوئے والدین اور بین کرتی ہوئی ماؤں کو دیکھ کر حساس ذہنوں پر سکتے کی کیفیت طاری ہے۔یہ مائیں دنیا کے جنگل میں تنہا کھڑی ہیں۔ عرب حکمراں بھی کیا کریں، جن کے مفادات صیہونی طاقتوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ عرب شہزادے خواب غفلت سے کب جاگیں گے، جن کی یہودیوں کے ساتھ کاروبار میں شراکت داری ہے۔اس دور کے بچے کرب سے گزر رہے ہیں۔ وہ کھلی فضاؤں اور باغوں کے لیے ترس گئے ہیں۔ انتشار اور جنگ کے مہیب سایوں نے ان سے روشن خواب چھین لیے ہیں۔
ان کے ذہن اپنی عمروں سے بہت پختہ ہو چکے ہیں۔ وہ اب کھلونوں سے نہیں کھیلتے۔دنیا کے مسلمان ذہنی کرب سے گزر رہے ہیں۔ ان کی راتوں کی نیندیں اڑ چکی ہیں۔ ان کی نسلیں خوف کے سائے میں پروان چڑھ رہی ہیں۔ عرب دنیا کے مابین نااتفاقی، سیاسی رسہ کشی، بدامنی، غربت، استحصال، ناخواندگی جیسے مسائل آج زوال کا سبب ہیں۔
نفرت، تعصب اور مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف اقوام متحدہ تک آواز اٹھانے کا روادار نہیں، کیونکہ اقوام متحدہ آج تک تیسری دنیا کے ملکوں کے درمیان خانہ جنگی اور انتشار کا خاتمہ نہیں کر سکا۔ یہ سپر طاقتیں بارود کی آگ بھڑکاتی ہیں۔ ویٹو کا بٹن بھی ان کے ہاتھوں میں ہے۔ ویٹو کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا سیاسی عفریت کہا جاتا ہے، جس نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے متعدد ملکوں میں نفاق کو ہوا دے رکھی ہے۔ لہٰذا آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ چاہے دل خون کے آنسو روتا رہے۔ ایک مستقل کرب کی کیفیت پہلو میں محسوس ہوتی ہے۔ تیسری دنیا کے ملک فقط صبر و شکر سے کام لیں۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ آج تک کچھ اچھا ان ملکوں میں چل رہا ہے۔ اگر روشنی کی یہ لکیر بھی معدوم ہوجائے تو وہ بھلا کسی کا کیا بگاڑ سکیں گے؟
ہٹلر نے نسل کشی کا جو بیج بویا تھا، آج اس کی سزا مسلمان کاٹ رہے ہیں۔ تیسری دنیا میں سیاسی شعور کے فقدان کو قائم رکھنا مغرب کی دیرینہ خواہش ہے۔ اسلام اور مغربیت کی یہ کشمکش نہ جانے کتنی نسلیں مزید بھگتیں گی۔ مغرب نے جمہوری قدریں مضبوط کیں، ہر میدان میں علم کے جھنڈے گاڑے، جینے کے مثبت اصول بنائے، معاشی برتری حاصل کی اور سائنس میں ترقی کی، مگر اس نے تیسری دنیا کے ملکوں کو سازشی کلچر دیا، لین دین کے کاروبار کو فروغ دیا۔
لالچی عناصر کو نوازا اور جمہوریت کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ ہم جیسے لوگ فقط یہ لکھتے رہ جاتے ہیں کہ مسلمانو! ہمت و حوصلے سے کام لو۔ خودی کو ذرا اور بلند کرلو، سچائی، علم و ترقی کو اپنا شعار بنالو، جمہوری قدروں کو ہاتھ سے نہ جانے دو، نفاق سے منہ موڑ لو، اپنی صفوں میں متحد رہو ، اور ذہنی بصیرت کو اپنا شعار بنا لو، مگر افسوس صد افسوس یہ الفاظ خلا میں بازگشت کرتے رہ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کی حالت زار طے شدہ امر ہو جیسے۔ ان کے ہاتھ ان دیکھی تقدیر نے باندھ رکھے ہوں۔ اور ایسی ہی کوئی قوت ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیتی ہے۔ جو انھیں تدبیر سے روکتی ہے۔
کل کی طرح آج بھی انسانیت کا مطالبہ امن ہے۔ مگر یہ جو Collective Violence (اجتماعی خون خرابہ) ہے، اسے موروثی خرابی کا ردعمل کہا جاتا ہے۔ نفرت اور تعصب بھی نسل در نسل بیماری کی طرح منتقل ہوتے رہتے ہیں، مگر دنیا کی کچھ قومیں ایسی ہیں، جنھوں نے نفرت کے اس عفریت سے پچھا چھڑا کے مثبت انسانی قدریں اپنالیں، جن میں جرمنی بھی شامل ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ بی بی سی پر رپورٹ دکھائی جا رہی تھی کہ جرمن لوگ ہاتھ میں بینر اٹھائے احتجاج کر رہے تھے، آج کا جرمنی کل کے جرمنی سے بہت مختلف ہے۔
جو ظالمانہ روش ان کے آباؤ اجداد نے اپنائی تھی، آج وہ اس سے پیچھا چھڑا چکے ہیں۔ مگر آج بھی وہ دنیا کی نظروں میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے میں ناکام ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہم بہت بدل گئے ہیں۔ ہم نے جرمنی کا انفرااسٹرکچر بدل ڈالا ہے۔ ہماری خواندگی کی شرح 99 فیصد ہے۔ علم، ادب آرٹ و سائنس میں ہم نے خوب ترقی کی ہے۔ جرمنی دنیا کی دوسری بڑی ری سائیکلنگ انڈسٹری (چیزوں کی ازسرنو تعمیر) ہے۔ پھر بھی ہم لوگ دنیا کی نظروں میں عزت پانے میں ناکام رہے ہیں۔ مگر فیفا ورلڈ کپ جیت کر جرمنی نے ثابت کردیا کہ ان کے جذبے اور مضبوط قوت ارادی نے دنیا کی سوچ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔
یہ مضبوط قوت ارادی مسلمان قوموں کے پاس کیوں نہیں ہے۔ وہ تدبیر سے تقدیر بدلنے پر کیوں قادر نہیں ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے میں نے فیس بک پر تصویر دیکھی تھی کہ، ایک بدھسٹ چھ سالہ مسلمان بچے کو کھائی میں دھکیل رہا تھا۔ یہ وہی بدھ ہیں، جن کے فلسفہ حیات میں کسی بھی ذی روح کو تکلیف دینا ممنوع قرار پایا ہے۔ لیکن جنگ و جدل کی اس غیر منطقی کہانی میں بچوں کا کیا قصور ہے۔ مجھے دکھ فقط اس بات کا ہے کہ ذہنی و ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے یہ دنیا پرندوں اور بچوں کے رہنے کے قابل نہیں رہی ہے۔ یہی حال سبزے کا ہے، جو دن بہ دن فطری پن کھو رہا ہے۔ یہ تینوں چیزیں توانائی کا محرک ہیں اور زندگی کو توازن میں لے کر چلتی ہیں۔ یہ المیے دنیا کی غیر اعلانیہ تباہی کا اشارہ ہیں شاید۔
جب دنیا میں فطری خوشی اور معصومیت باقی نہیں رہے گی، تو اس میں انسانوں کے بجائے احساس سے عاری روبوٹ ہوں گے ہر طرف۔ پھر زمین اپنا دائرہ سمیٹنے لگے گی۔