خواب کے تعاقب میں

وہ برسوں سے ایک خواب کا تعاقب کر رہے تھے۔


Iqbal Khursheed July 17, 2014

وہ برسوں سے ایک خواب کا تعاقب کر رہے تھے۔ خواب، جو اُن سورمائوں کے بدن میں عمل کی روح پھونکتا، دلوں کو گرماتا، زخموں کو بھول کر آگے بڑھنے کی تحریک دیتا۔ منہ زور دشمنوں نے کہا؛ یہ خواب نہیں سراب ہے، اِسے بھول جائو مگر صبح پرستوں نے اِسے اپنا مقصد بنا لیا۔ ایسا مقصد جس کے لیے وہ خون اور پسینہ بہانے کو تو تیار تھے البتہ آنسو اُنھوں نے سنبھال کر رکھے۔ اُنھیں فتح کے عظیم لمحے ظاہر ہونا تھا۔

وہ 24 برس سے ناکامیوں کے دشت میں بھٹک رہے تھے۔ کیسے کیسے کٹھن، دل شکن لمحات آئے۔ ہر محاذ پر شکست۔ ذرا تاریخ کے اوراق پلٹیں۔ امریکی ساحلوں پر اترتے سمے اُن کے سینوں پر ستارے سجے تھے، مگر لوٹتے ہوئے ستارے، زخموں میں ڈھل گئے۔ جنگ فرانس میں سپنا کرچیوں میں تبدیل ہوا۔ جنوبی کوریا کی دھرتی پر عظیم فتح کے بے حد نزدیک پہنچے، مگر اُن کا بیڑا دشمن کے مہلک حملے نہ سہہ سکا۔ اگلی بار اپنے ہی وطن میں ایک ہولناک جنگ لڑنی پڑی۔ جیت سے فقط چند قدم دور اُن کی ہمت ڈھے گئی۔ افریقی زمینوں پر بھی دلیر جنگ جوئوں کے حصے میں فقط کرب آیا۔

کوئی اور ہوتا، تو ہمت چھوڑ دیتا۔ شکست تسلیم کر لیتا۔ ہتھیار ڈال دیتا۔ مگر اُنھوں نے ایسا نہیں کیا۔ خواب کا تعاقب جاری رکھا۔ بالآخر اُن کا بحری بیڑا لاطینی امریکی ساحلوں پر اترا۔ اور وہاں گھمسان کا رن پڑا۔ آسمان پر دھول کا بادل چھا گیا۔ زمین اُدھڑ گئی۔ دریائوں میں طغیانی آئی، مگر وہ لڑتے رہے۔ آگے بڑھتے رہے۔ اور پھر اُس سنہرے مجسمے تک پہنچ گئے، جس کے حسن نے دنیا کو گرویدہ بنا رکھا تھا۔ اور تب۔۔۔ اُن کی آنکھوں میں آنسو جھلملائے۔ فتح کے آنسو۔ جنھوں نے اُن کے ناموں پر عظمت کی مہر ثبت کر دی۔

13 جون کے آخری معرکے میں ارجنٹینی سورج، لائنل میسی طلوع ضرور ہوا، مگر جرمن ستاروں کے جھرمٹ کے روبرو اُس کی روشنی ماند پڑ گئی۔ جرمنی کا ورلڈ کپ جیتنا قطعی حیران کن نہیں۔ یہ تو متوقع تھا۔ اُن سے زیادہ شاید ہی کوئی ٹیم سنہری ٹرافی کی حق دار ہو اور یہ پہلا موقع نہیں جب اُن کی دہاڑ نے شکست کے عفریت کو تحلیل کر دیا۔ وہ 54ء، 74ء اور 90ء میں بھی جیت اپنے نام کر چکے تھے مگر پھر۔۔۔ انتظار اُن کا نصیب بن گیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ماضی میں تینوں بار یہ ٹائٹل مغربی جرمنی نے اپنے نام کیا۔ البتہ دیوار برلن گرنے کے بعد، جب مشرقی اور مغربی جرمنی ایک ہو گئے، فتح اُن سے روٹھ گئی۔

ایسا نہیں تھا کہ اُنھوں نے جدوجہد نہیں کی۔ سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ 24 برسوں میں شاید ہی کس ٹیم نے تواتر کے ساتھ اُس کھیل کا مظاہرہ کیا ہو، جو باصلاحیت جرمن کھلاڑیوں نے پیش کیا۔ گو امریکا اور فرانس میں سجنے والے میلوں میں اُن کی کوارٹر فائنلز ہی میں چھٹی ہو گئی تھی، البتہ جنوبی کوریا کے محاذ پر جرمن ٹیم نے فائنل تک رسائی حاصل کی، جہاں اُنھیں برازیل کی مضبوط ٹیم کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ تجزیہ کار متفق ہیں کہ 2006 ورلڈ کپ میں جرمن ٹیم فیورٹ تھی۔ وہ ستاروں سے سجی تھی، مگر اٹلی کا دفاع راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ اُنھیں تیسری پوزیشن پر اکتفا کرنا پڑا۔ چار برس بعد وہ پوری قوت سے پلٹے۔ منہ روز آندھی کی طرح آگے بڑھے، مگر اسپینی کھلاڑیوں نے پیش قدمی روک دی۔ البتہ اِس بار۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اِس بار، انھوں نے ناممکن کو ممکن کر دِکھایا۔

وہ مبصرین، جن کا دعویٰ تھا کہ لاطینی امریکی دھرتی پر لاطینی امریکی ٹیم ہی فتح حاصل کرے گی، غلط ثابت ہوئے۔ ابتدائی میچز ہی میں واضح ہو گیا تھا کہ جرمنی اور نیدرلینڈز مقابلے میں شامل مضبوط ترین ٹیمیں ہیں۔ سیمی فائنل میں جرمنی نے برازیل کو اُدھیڑ ڈالا۔ البتہ میسی کی ٹیم نے لاطینی امریکا کی کچھ لاج رکھ لی۔ نیدرلینڈز جیسی باکمال ٹیم کو ہرا کر وہ پورے 24 سال بعد فائنل میں پہنچے۔

اعدادوشمار کی دنیا میں یہ ایک دلچسپ مقابلہ تھا۔ دونوں ٹیمیں ڈھائی عشروں بعد فائنل مقابلے میں ایک دوسرے کے سامنے تھیں۔ آخری بار 90ء وہ ٹکرائیں، جب میراڈونا کی ٹیم کو شکست ہوئی۔ البتہ اُس سے چار برس قبل جرمنی نے شکست کا گھائو سہا تھا۔ یعنی خود کو دہرانے والی تاریخ، 13 جولائی کی شام کچھ بھی کر سکتی تھی۔

جرمنی بلاشبہ، مضبوط تھی۔ 90ء کے بعد بھی وہ دو بار ارجنٹینا کو گھر کا راستہ دکھا چکی تھی۔ اسی باعث کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ وہ بہ آسانی میسی کی ٹیم پر قابو پا لے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ارجنٹینا نے خوب مقابلہ کیا۔ چند مراحل پر تو وہ غالب نظر آئے۔ فتح سے بغل گیر ہونے کے بیحد قریب مگر آخر میں جیت بہتر ٹیم کا نصیب بنی۔ارجنٹینا کے مینیجر ایلی جاندرو سبیلا نے شکست کے بعد ایک مدبرانہ تبصرہ کیا کہ '' ہمیں اور بھی اچھی کارکردگی دکھانا چاہیے تھی۔ دنیا فٹبال کے نابغہ روزگار کھلاڑی ڈیوڈ بیکھم شروع سے میسی کے ساتھ تھے، فٹبال میں ان کے سحر انگیز اسلوب اور ڈربلنگ کے معترف ہیں۔

فائنل دیکھنے برازیل میں موجود تھے اور کہہ رہے تھے ، ''میسی بہترین کھلاڑی ہے،وہ شائقین کے دل لبھاتا ہے۔'' اِس مقابلے میں کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔ یہ ہمیں سِکھاتا ہے؛ فتح فرد واحد کی کوششوں اور صلاحیتوں سے نہیں، اجتماعی جہدوجہد سے نصیب ہوتی ہے۔ ارجنٹینا کے پاس دنیا کا بہترین کھلاڑی ضرور تھا مگر جرمنی کے پاس دنیا کی بہترین ٹیم تھی۔ اختتامی تقریب میں لائنل میسی، جسے میرا ڈونا ثانی کہا جاتا ہے، انتہائی رنجیدہ نظر آیا۔ شکست بیشک رنج ساتھ لاتی ہے لیکن یہ فتوحات کی ماں بھی تو بنتی ہے۔ اِسے مایوسی میں تبدیل ہونے سے پہلے قتل کر دینا چاہیے۔

میدان جنگ میں طفل نہیں، فقط شہ سوار گرتے ہیں۔ میسی کو جو ٹیم ملی، وہ جرمنی اور نیدرلینڈز کی ٹیموں کے مانند ستاروں پر مشتمل نہیں تھی ۔ اُس کے پاس رابن، شینائیڈر، ملر اورکلوزو جیسے سیماب صفت اور شہاب ثاقب کھلاڑی نہیں تھے۔ مگر وہ اپنی قیادت میں اُنھیں فائنل تک کھینچ لایا اور وہاں بھی مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔ میسی جتنی جلدی مایوسی سے دامن چھڑا لے، اتنا بہتر ہے۔ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں، 2018 میں روس منتظر ہے۔

تو دوستو، اِس وقت جرمنی میں جشن بپا ہے۔ کھلاڑیوں کو دیوتائوں کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اُن کے مینیجر، یواخم لوف کو قومی ہیرو کے روپ میں دیکھا جارہا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو، اُس شخص نے آرزو کے سنہری تار سے بُنے خواب کی تکمیل میں کلیدی کردار کیا۔ تو جرمن برسوں سے ایک خواب کا تعاقب کر رہے تھے۔ خواب، جو اُن کے بدنوں میں عمل کی روح پھونکتا۔ بالآخر اُنھوں نے تعبیر پا لی۔ اُن زمینوں پر فتح کے جھنڈے گاڑے جہاں آج سے قبل ہر یورپی قوم کے پائوں اکھڑ گئے تھے۔ تو جرمنی جیت گیا، مگر اِس مہا مقابلے میں کوئی ہارا نہیں۔ اور یہی زندگی کا حسن ہے۔ شکست اختتام نہیں ہوتی۔ آپ پھر ایک سپنا دیکھ سکتے ہیں۔ پھر ایک جنگ لڑ سکتے ہیں۔ پھر جیت سکتے ہیں۔ بس، اپنے خوابوں کا تعاقب جاری رکھیں۔ ٹھیک جرمنی کے مانند۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں