سیاسی تقسیم کا کھیل
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کا حصہ سیاسی جماعتیں مجوزہ آئینی ترامیم کرانا چاہتی ہیں ۔
پاکستان میں اس وقت جو سیاسی لڑائی ہورہی ہے، اس سے کیا ہم پاکستان کو مضبوط بنا رہے ہیں یا کمزور کررہے ہیں ؟کیونکہ اس وقت سیاسی لڑائی میں تشدد داخل ہوا ہے ، اس سے اس بات کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا نتیجہ ایک بڑے ٹکراو اور تصادم کی صورت میں سامنے آسکتا ہے ۔
اس وقت ملک کو ایک بڑی سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہے کیونکہ جو طرز عمل اس وقت قومی سیاست میں اختیار کیا جارہا ہے، اس سے نہ تو سیاست میں کوئی مثبت تبدیلی آئے گی اور جمہوریت روایات مضبوط ہوسکتی ہیں اور نہ ہی ایک اچھی حکمرانی کے نظام کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے ۔سیاسی جماعتیں ہو ں، حکومت یا ریاستی ادارے سب پر اس انتشاری سیاست کے اثرات پڑ رہے ہیں ۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ سیاست کے معاملات زیادہ الجھ گئے ہیں اور ایک گروپ زور زبردستی کے ذریعے سیاسی عزائم کی تکمیل چاہتا ہے ۔
یہ صورتحال پاکستان کی عالمی ساکھ کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے ۔ دوسری طرف 63 A کے بارے میں بندیال اور ان کے ساتھیوں ججز نے جو فیصلہ دے رکھا تھا، وہ کالعدم ہوچکا ہے ، اب یہ آرٹیکل پرانے شکل میں بحال ہوگیا ہے ۔
اس فیصلے کے بعد ملک کی سیاست پر اثرات پڑیں گے ۔ ادھر حکومت ایک بار پھر اپنی آئینی ترامیم منظور کرانے کے لیے متحرک ہے، اب وہ مطلوبہ ارکان کی تعداد پورے کرنے کی کوشش میں دوبارہ مصروف ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہ سب کچھ ہمیں ایک بڑے سیاسی ایجنڈے کی صورت میں نظر آتا ہے او ر حکومت کی کوشش ہے کہ وہ جلد ازجلد یہ ترامیم منظور کرالے۔ اس پورے کھیل میں سیاست تقسیم بڑھتی نظر آرہی ہے ۔
ادھر سپریم کورٹ کے وہ ججز صاحبان جنھوں نے فل کورٹ کا اکثریتی فیصلہ دے کر پی ٹی آئی کو پارلیمانی پارٹی بنایا، ان میں ایک دو ججز آرٹیکل تریسٹھ اے کے نظرثانی اپیل کی سماعت کرنے والے بنچ میں شامل نہیں ہوئے بلکہ خط وغیرہ بھی لکھ کر مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ججز بنچ کی تشکیل پر اپنے تحفظات رکھتے ہیں او راس کا تحریری طور پر اظہار بھی کیا جارہا ہے۔مجوزہ آئینی ترامیم اگر منظور ہوتی ہیں تو ملک کی سیاست پر اس کے بھی گہرے اثرات مرتب ہونگے اور اسے ایک بڑے کھیل کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ آئینی ترامیم کے اس پیکیج کے لیے اپوزیشن کو تاحال اعتماد میں لیا گیا، پی ٹی آئی کو چھوڑیں، مولانا فضل الرحمان بھی اس ترمیمی پیکیج کے حق میں نہیں ہیں۔
حکومت کو پہلے مرحلے میں ناکامی ہوئی اور اب ایسے لگتا ہے کہ دوسرے مرحلے کی بڑی ذمے داری پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کی دی گئی ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو رام کرکے آئینی ترامیم کی منظوری کے عمل کو ممکن بنائیں ۔ آئینی عدالت کی تشکیل پر اگرچہ مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی میں کافی حد تک اتفاق پایا جاتا ہے مگر پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی اس پر تشریح ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔
یہ نقطہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اگر مسلم لیگ ن کو پہلے مرحلے میں مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو وہ دوسرے مرحلے میں ان آئینی ترامیم کی منظوری کا سب کریڈیٹ تنہا پیپلزپارٹی کو کیونکر دے گی ۔کیونکہ کچھ لوگ مسلم لیگ ن میں داخلی سطح پر پیپلز پارٹی کے کردار پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ حکومت کی مشکلات میں کمی پیدا کرنے کے بجائے مشکلات کو زیادہ پیدا کرتی ہے۔ اصل مسئلہ حکومت ہو یا ان کی اتحادی پیپلزپارٹی پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کا ہے او راسی بنیاد پر مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری ہوسکتی ہے ۔اول کیا یہ مجوزہ آئینی ترامیم منظور ہوسکیں گی او رکیا اسی شکل میں منظور ہوگی ۔کیونکہ مسئلہ آئینی ترامیم کا نہیں بلکہ ان آئینی ترامیم کے اثرات اور نتائج کا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کا حصہ سیاسی جماعتیں مجوزہ آئینی ترامیم کرانا چاہتی ہیں ۔یہ ترامیمی پیکیج چیف جسٹس پاکستان کی ریٹائرمنٹ سے پہلے منظور کرانا حکومت اور اتحادیوں کے لیے بڑا چیلنج ہے تاکہ سیاسی کھیل پی ٹی آئی اور اس کے بانی کو مائنس کر دیا جائے ۔ دوسری طرف پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کی سرتوڑ کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح عدلیہ اور اس کے فیصلے کو ہی متنازعہ بنادیا جائے ۔ ججز کے خطوط اور جوابی خطوط نے صورتحال کو متنازعہ بنانے کی کوشش ضرور کی ہے ۔
عدالت کا نظام پہلی بار اس ٹکراو کا شکار نہیں ہوا بلکہ ماضی میں بھی ایسا ہوچکا ہے۔ عدلیہ سمیت دیگر اداروں کو سیاسی رنگ دینے کے کھیل میں جہاں ان اداروںکا بھی کردار ہے ، وہیں ہماری سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادت،میڈیا اور سول سوسائٹی بھی برابر کی ذمے دار ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ بھی اسی کھیل کا حصہ ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب عدالتی فیصلے ہمارے حق میں ہوتے ہیں تو وہ اچھے ہوتے ہیں اور ہم ان فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں ۔ فیصلے اگر ہماری مخالفت میں ہوں تو پھر ہم خود بھی اپنے ہی سیاسی بیانیہ کی بنیاد پر عدالت اور ججز پر سیاسی تقسیم کے الزامات لگاتے ہیں ۔
مسئلہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے دائرہ کار میں عملاً مداخلت کریں یا ایک دوسرے کے دائرہ کا ر کو چیلنج کرکے اپنے بالادستی قائم کرنے کی کوشش کریں۔اس لیے آج کا منظر نامہ دیکھنے کو مل رہا ہے، ہمارے ماضی کا ہی تسلسل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس منفی کھیل کے سامنے کون بندھ باندھے گا اور کون ملک کی سمت درست کرے گا۔ ہمیں کسی بھی صورت میں ٹکراو اور تصادم کی طرف نہیں بڑھنا بلکہ اختلاف دور کرنے کا عمل شروع کرنا ہے جو انتہائی ضروری ہے۔